سوشل میڈیا کے وڈے منڈے۔۔ عمران حیدر

 بچپن میں کرکٹ کا بہت شوق تھا، اتوار والے دن صبح سویرے اٹھتے نہار منہ گیند بلا پکڑتے اور میدان کی طرف نکل جاتے۔ راستے میں باقی ٹیم ممبرز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور دور جاکر کھڑے ہوجاتے اگر ہمارا کوئی “کھلاڑی ” دروازہ کھولتا تو اس کو بھی ساتھ ملا لیتے اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی نکل آتا  تو فوراََ بھاگ جاتے۔ یہی عمل باقی دوستوں کے ساتھ دہرایا جاتا۔ کچھ جنونی دوست ایسے بھی تھے جو اپنی مقررہ جگہ پہ موجود ہوتے، اس طرح اپنی ٹیم مکمل کرتے اور میدان میں پہنچ جاتے ۔

اب میدان چونکہ ایک کھیت تھا اس لیے باری باری ساتھ والے قبرستان سے شاپروں میں پانی بھر کے لاتے اور مٹی کو نم کرکے زرخیز کرتے اور شاندار سی پچ تیار کرلیتے۔ اس کے بعد آخری مرحلہ وکٹ تیار کرنے کا تھا جس کے لیے ہم سب مختلف سمت میں نکل جاتے اور اینٹیں جمع کرکے وکٹ تیار کی جاتی ۔ وکٹ کے دونوں اطراف آدھی اینٹ رکھ کے وائیڈ بالز کی نشاندہی کی جاتی جبکہ باؤلر سائیڈ میں جوتے رکھ کر ہی کام چلا لیا جاتا ،اس کے بعد کھلاڑیوں کی تعداد کے مطابق دو ٹیمیں  بنا دی جاتیں، اگر کوئی کھلاڑی اضافی ہوتا تو اس کو ریلوکٹہ ڈکلیئر  کرکے دونوں ٹیموں میں کھلایا جاتا۔ ٹاس کرنے کے لیے چوّنی اٹھّنی بھی قسمت سے نکلتی۔ زیادہ  تر کسی کی قینچی چپل سے ہی ٹاس کرلیا جاتا ۔مگر، جب میچ شروع ہوتا تو “بڑے ” لڑکوں کی ٹیم پہنچ جاتی اور ہمیں میدان سے بےدخل کردیتے ۔

ہم چونکہ ابھی بچے تھے اور مزاحمت نہیں  کرسکتے تھے اس لیے اپنی ساری محنت بھول کر “باہر “بیٹھ جاتے اور بے بسی سے اپنے بلے بغل میں دبائے ان “بڑے لڑکوں” کا میچ دیکھتے رہتے کہ جب یہ کھیل کر چلے جائیں گے تو ہم کھیل لیں گے ،مگر ایسا کبھی نہیں  ہوتا۔ سارا دن وہی کھیلتے رہتے اور ہم ایک سائیڈ پہ بیٹھ جاتے یا اگر کوشش کرکے ایک طرف اپنا میچ لگانے کی کوشش بھی کرتے تو ان سے جھڑکیاں یا مار پڑ جاتی کہ ” دفعہ ہوجاؤ کوئی گیند شیند لگ گئی تے روندے پھرو گے ( وڈے آئے کھلاڑی “)

Advertisements
julia rana solicitors london

تب غصہ بھی بہت آتا تھا مگر کچھ نہیں  کرسکتے تھے۔ یہی حال آج کل فیس بک پر ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے وہ لوگ جو سارا دن ٹاک شوز اور اپنے کالمز میں سوشل میڈیا کو بدتمیز اور شریر بچے سے تشبیہ دیا کرتے تھے آج وہی لوگ یہاں اپنی عقل و دانش کے موتی بکھیر رہے ہیں ۔ پرائیویٹ چینلز کے نامور لوگ اپنے اپنے مفادات اور ریٹنگ کی جنگ لڑنے یہاں آپہنچے ہیں ۔ میڈیا کے “گاڈفادر” جنہوں نے اخبارات سے ابتدا کی اور اپنے چینلز بنا کر طاقت، شہرت اور پیسے کی نئی بلندیوں کو چھوا اب وہ سوشل میڈیا کو بھی تسخیر کرنا چاہ رہے ہیں ۔اخبارات اور چینلز میں لکھنے والے پروفیشنل “بڑے لڑکوں “نے فیس بک پر شروع دن سے شوقیہ اور مفت لکھنے والوں کو “باہر” بٹھا دیا ہے ۔وہ بیچارے اپنے قلم بغل میں دبائے ان کا میچ دیکھ رہے ہیں مگر کچھ نہیں کر سکتے ۔ اگر کوئی ایک سائیڈ پہ اپنا میچ لگانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو کسی بڑے لڑکے سے جھڑکیاں یا مار پڑ جاتی ہے کہ دفع ہوجاؤ ( وڈے آئے لکھاری)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply