• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی ۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی ۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ماہِ شعبان المعظم ۳۱۵ھجری میں ہوئی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ موضع کدکن کے رہنے والے تھے۔یہ گاؤں ایران کے شہر نیشاپورمیں واقع ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کااصل نام محمدبن ابی بکرابراہیم،کنیت ابوحامدیاابوطالب،لقب فریدالدین، تخلص عطارہے۔چونکہ آبائی پیشہ عطاری تھااسی لئے”عطار“اور”فرید“تخلص کے طورپرلکھتے تھے۔اسی وجہ سے اپنے قلمی نام”شیخ فریدالدین عطار“کے نام سے مشہورہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والدابوبکرابراہیم چونکہ مشہور”عطار“تھے۔اسی لئے شیخ نے ابتدائی عمرمیں اسی عطاری کی دکان پرکام کیا۔ اسی دوران میں طب بھی پڑھی۔اوربحیثیت ایک طبیب خدمت خلق کرنے لگے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ابتداء ہی میں فارغ البال تھے اس لئے دوسرے شعراء کی طرح انہیں شاعری کاپیشہ ذریعہ معاش کے لئے نہیں اپناناپڑا۔شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ اوائل عمری سے شباب تک علوم وفنون کی تحصیل میں مصروف رہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علوم متداولہ مثلاًعلم کلام،نجوم،فلسفہ،قرآن وحدیث،فقہ،طب اورادب میں مہارت حاصل کی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعارمیں مذکورہ علوم وفنون کے اثرات نمایاں طورپرنظرآتے ہیں۔شیخ فریدالدین رحمۃ اللہ علیہ جوانی کے دنوں میں اپنے والدکے مرشدقطب الدین حیدرسے فیضیاب ہوئے اورانہی کی نگرانی میں تصوف ومعرفت کے مدارج طے کئے۔بچپن ہی سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کودرویشوں اورصوفیوں کے پاس بیٹھناپسندکرتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے معرفت وسلوک کے منازل طے کرتے ہوئے اپنی زندگی اوراپنے پیش روعلماء وصوفیاء کے حالات وکوائف کابھی جابجاذکرکیاہے۔اپنی عمراوراپنے عشق ومحبت کے پیچیدہ منازل کوکن حالات میں طے کیاہے۔اس کاذکران کی تخلیقات میں جابجاملتاہے۔اپنی زندگی کے سترسال کی کیفیت اس اندازسے بیان کرتے ہیں۔
چون زمقصودخودندیدم بوی سوی عمررہم زیان آمد
دین ہفتاوسالہ دادبباد مردمیخانہ مغان آمد

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ”توبہ“ اور”تارک الدنیا“ہونے کاایک واقعہ عام تذکرہ نگاروں نے درج کیاہے۔شیخ عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔”ایک روزشیخ  فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ اپنی دکان کے کاروبارمیں مصروف تھے۔دکان کامال سنبھال رہے تھے۔اورروپے پیسے کے الٹ پھیرمیں مشغول تھے۔کہ اچانک ایک ”درویش“ آیااس نے اللہ کے نام پرخیرات کاسوال کیا۔شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ اپنے کاروبارمیں مصروف تھے۔درویش کی صدا پر کوئی توجہ نہ دی۔بلکہ روپے پیسے کی ریل پیل میں لگے رہے۔صدالگانے والے ”درویش“نے کہادنیامیں اس قدرلگے ہوئے ہوتو آخر”آپ“ کوموت کب آئے گی؟حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے غصہ میں جواب دیاجس طرح تمہیں موت آئے گی،مجھے بھی اسی طرح موت آئے گی۔صدالگانے والے ”درویش“نے کہاکہ میری طرح مرناچاہتے ہو؟یہ کہہ کر”درویش“نے اپنالکڑی کاپیالہ سرہانے رکھازمین پرلیٹازبان سے کلمہ پڑھتے ہوئے”داعی اجل“کولبیک کہا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ یہ منظردیکھ کردنیاوی کاموں سے دست بردارہوگئے ساراشفاخانہ اوردوسرے احباب دنیاکولوگوں میں لٹادیااورعشق الٰہی کی دکان پرآبیٹھے۔

حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ بھی مشرق کے ان علماء میں سے ہیں جن کے”پندونصائح“ سے صرف اہل مشرق ہی نہیں بلکہ اہل مغرب کے بسنے والوں نے بھی فیض حاصل کیا۔شیخ فریدالدین عطاررحمتہ اللہ علیہ محض ایک ”ادیب“اور”شاعر“کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ وہ علم تصوف اورعلم اخلاق کے ایسے ناموراستادمانے گئے ہیں جن کے زریں اقوال پرآج بھی دنیاسردھن رہی ہے اوران شاء اللہ دھنتی رہے  گی۔کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعلمی خاصہ اوراثرآج بھی ”فارسی شاعری“ اورصوفیانہ رنگ میں نمایا ں ہے۔”تذکرۃ الاولیاء“ اور”منطق الطیر“جیسی اہم فارسی کتب آپ کی تصانیف ہیں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شاعری بھی کی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ رکن الدین اسکاف کی خدمت میں کئی سال بسر کئے اورآخر کار شیخ مجددالدین بغدادی کے ہاتھ پربیعت کی اورآگے چل کر سلوک ومعارف کے وہ مراتب طے کئے کہ خود مرشد کے لئے باعث فخر ہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ مشہورمشائخ اوربزرگان دین کی صحبت میں بیٹھتے رہے۔حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔”کہ حضرت حسین منصورحلاج کی روح نے ڈیرھ سوسال بعدحضرت عطاررحمۃ اللہ علیہ پر”اثر“کیااسطرح حضرت عطار،آپ رحمۃ اللہ علیہ کے زیراثرآئے۔شیخ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ جن کو”مولانا روم“کہاجاتاہے۔اپنے بچپن میں شیخ عطارکی خدمت میں حاضرہوئے۔اسی وقت شیخ عطارنے اپنارسالہ ”اسرارنامہ“ان کودیا۔مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عارف باللہ اورمعرفت سلوک کے دلدادہ عطارکی تعریف کیے بغیررہ نہ سکے۔مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ بھلاکون عطارکوسمجھ پایاہوگا۔مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے ”عطار“کی بلندی وبرتری کے واضح اورروشن پہلوؤں کااحاطہ کیے ہوئے یوں مدح سرائی کی۔

عطارروح بودوسنائی دوچشم او ماازپی سنائی وعطارآمدیم
مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے عطاراورسنائی کی عظمت کااقرارکیاہے اورساتھ ہی ان سے فیوض وبرکات بھی حاصل کیے۔مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ دوسری جگہ ”عطار“کی پذیرائی اس اندازسے کرتے ہیں۔
من آن ملای رومی ام کہ ازنطقم شکرریزد ولیکن درسخن گفتن غلام شیخ عطارم
مولاناروم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری شاعری میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے لیکن میری شاعری کااصل منبع ومرجع شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے۔شاعری کے میدان میں خودکومیں شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کاغلام تصورکرتاہوں۔اس قول سے عطارکی فضیلت وبرتری کااندازہ لگاناکوئی مشکل کام نہیں۔تذکرہ نویسوں نے لکھاہے کہ ”عطار“نے دنیاکے مختلف ممالک کادورہ کیااوردوران معرفت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ صرف عارفوں اورصوفیوں کے حالات کی جستجومیں نہیں لگے رہے۔بلکہ خودبھی معرفت کی منازل طے کرتے رہے۔شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے مصر،دمشق،مکہ،ترکستان اورہندوستان کاسفرکیا۔ان اسفارنے شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کوجلابخشی اورعلماء وفضلاء کی صحبت کاخاصااثرقبول کیا۔عطارنے سلوک ومعرفت کی شناخت کے منازل طے کرتے ہوئے جوبزرگی اورشہرت ناموری حاصل کی اسکی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کوان الفاظ میں واردِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

ہفت شہرعشق راعطارگشت ماہنوزاندرخم یک کوچہ ایم
حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے عشق کے سات شہروں کی سیرکی ہے۔مگرہم ابھی تک کوچہ عشق کاایک گوشہ بھی طے کرنے نہیں پائے۔
شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی تجربات کاایک سمندرہے۔”دربیان صفت زنان وصبیان“کے تحت آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے احساسات کواس طرح منظوم کرتے ہیں۔
چارچیزاست ازخطاہاای پسر گوش دارش باتوگویم سربسر
اول اززن داشتن چشم وفا سادہ دل رابس خطاباشدخطا
ایمنی زابلہ خطای دیگراست صحبت صبیان ازینہابدتراست
چارمی ازمکردشمن ایمنی کے کنددشمن بغیرازدشمنی
؎چارچیزیں خطاکے زمرے میں آتی ہیں۔پہلی چیزعورت سے وفاکی امیدکرنااوربیوقوف سے بے خوف وپُراطمینان ہونا،بچوں کی صحبت ان دونوں چیزوں سے بُری ہے۔چوتھی چیزدشمن کے مکروفریب سے بے خوف رہناکیونکہ دشمن ماسوائے دشمنی کے اورکیاتوقع کی جاسکتی ہے؟

”پندنامہ“ایک مختصرسی کتاب ہے لیکن اس میں عطارنے زندگی گزارنے کاجوہنرپیش کیاہے اس پرعمل آوری کے ذریعہ زندگی بامقصداورخوشگواربنائی جاسکتی ہے۔”منطق الطیر“شیخ عطاررحمۃ اللہ علیہ کاشاہکارہے اس کتاب میں انہوں نے تصوف کے مسائل کوتمثیل کی صورت میں بیان کیاہے۔اسی کتاب سے ایک دوحکایات درج کی جاری ہیں۔
حکایات اس ماں کی جس کالڑکاپانی میں گرگیاتھا۔

ایک ماں کابچہ گہرے پانیوں میں گرگیااورماں بچاری مامتاکی ماری تڑپ اُٹھی۔بچہ حیرانی اورپریشانی کے عالم میں ہاتھ پاؤں ماررہاتھا۔پانی اس کی گردن کوچُھورہاتھا۔پانی کاریلااس کوآگے ہی آگے بہاکرلے جارہاتھا۔جب ماں نے دیکھاتوپیچھے سے پانی میں کودپڑی۔اورجلدی سے بچے کوبہتے پانی میں سے نکال لیااسے گودمیں لیااوردودھ پلایا۔

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!اپنی امت پر آپ ماں سے کہیں زیادہ مشفق اورزیادہ مہربان ہیں۔میں بھی گناہوں کی ندی میں ڈوبنے لگاہوں۔مہربانی فرماکرمجھے باہرنکال لیجیے۔میں گناہوں کے گرداب میں حیران وپریشان ہوکرپھنساپڑاہوں۔میری حالت اس بچے کی طرح ہے جوپانی میں ڈوب چلاہو۔میں اسی پریشانی میں ہاتھ پاؤں ماررہاہوں۔اے اپنے بچوں پرشفقت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!مہربانی فرماکرغرق ہونیوالے اپنے بچے کوبچالیجیے۔ہماری اس جان پررحم کیجیے۔جوآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے دورہوکرگہرے پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہرطرح کے وصف اورادراک سے بالاترہیں اوروصف کرنیوالوں کے وصف سے پاک ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے مقام عالیہ پرکسی کودسترس اوررسائی نہیں ہے۔ہم آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خاک کی بھی خاک ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے یاراوراصحاب ہی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے خاک تھے۔اورباقی ساراعالم تیری اس خاک کی بھی خاک تھے۔جوبھی تیرے اصحاب اورتیرے یارو ں کی خاک نہیں ہے۔وہ تیرے دوستوں کادشمن ہے۔سب سے اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآخرمیں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چاروں یارصدق وصفاکے کعبہ کے چاررکن ہیں۔ایک ان میں سے صدق میں آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کاہمرازاوروزیرتھا۔اوردوسراعدل وانصاف میں روشن سورج تھا۔تیسراشرم  وحیاکادریاتھا۔اورچوتھاباب العلم اورباب السخاوت تھا۔جوکوئی آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی اہل بیت سے بغض رکھتاہے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے بعددشمنی کابیج بوتاہے۔اورجودل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی آل کامطیع ہوگیاوہ تیرے ہی راستہ پرصحیح جارہاہے۔سب سے آخرمیں امام مہدی آئیں گے۔جوآل مرتضیٰ میں سے ہوں گے۔یہ تمام ایمان کارکن ہیں اورآل مصطفی صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہیں۔

حکایت اورتمثیل
ایک بے وقوف آدمی ادھرادھرسے کسی مسافراوراجنبی کواپنے گھرمیں کھاناکھلانے کے بہانے لے آتاتھااورپھرگھرمیں اسے لاکراس کے ہاتھ پاؤں باندھ کراسکی گردن اتاردیتایہ اس کامشغلہ تھا۔ایک دن وہ حسب معمول کسی مسافرکواپنے گھرمیں کھاناکھلانے کے بہانے لے آیااوراس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔پھروہ دوسرے کمرے میں تلوارلینے کے لئے گیاپیچھے سے اس کی بیوی نے اسے بھوکاسمجھ کرروٹی کاٹکڑادیاکہ تم ابھی قتل ہوجاؤگے اسلئے اپنی بھوک توکم ازکم مٹالو۔اتنے میں وہ ظالم تلوارلے کرآگیااس نے دیکھاکہ وہ روٹی کاٹکڑاکھارہاہے۔اس نے پوچھایہ روٹی تمہیں کس نے دی ہے؟اس نے جواب دیاتمہاری بیوی نے دی ہے۔جب اس نے یہ جواب سناتوکہاکہ اب تمہیں قتل کرنامجھ پرحرام ہے۔کیونکہ جس نے میرانمک کھالیاہے میں اس کاسرگردن سے نہیں اتارسکتا۔یہ میرااصول ہے کہ جس نے میرانمک کھالیاہو۔میں اسکی گردن نہیں اتارتا۔بلکہ میں اپنے مہمان پراپنی جان قربان کرتاہوں۔

شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ یہ حکایت اورتمثیل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں۔کہ اے اللہ!جب سے میں پیداہواہوں تیرارزق کھارہاہوں۔اورجب کوئی آدمی کسی کی روٹی کھاتاہے۔توروٹی کھلانے والااس کی حفاظت کرتاہے۔اوراسے کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا۔اے اللہ!توسخاوت کاایک سمندرہے۔اورمیں نے طرح طرح کی تیری نعمتیں کھائی ہیں۔اب مہربانی کرکے میرے گناہ بخش دے۔اورقیامت کے دن مجھے کوئی سزانہ دینا۔
اے اللہ!میں ایک عاجزبنداہوں اورگناہوں کی ندامت سے خون کے آنسورورہاہوں۔میں خشک زمین پرکشتی چلاتارہاہوں۔یعنی بے فائدہ کام کرتارہاہوں۔اب تو!میری دستگیری فرمااورمیری فریادرسی کر۔میں نے مکھی کی طرح اپنے ہاتھ اپنے سرپررکھے ہوئے ہیں یعنی فریادکررہاہوں۔اے گناہ بخشنے والے!میری توبہ قبول فرما۔میں توپہلے ہی گناہوں کی آگ میں جل چکاہوں۔اب تومجھے دوزخ کی آگ میں نہ جلانا۔ندامت اورشرمساری کیوجہ سے میراخون بھی جوش کھارہاہے۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں۔تومیرے گناہوں پرپردہ  ڈال۔غفلت سے سینکڑوں گناہ مجھ سے سرزدہوئے۔تواس کے عوض میں اب سینکڑوں رحمتوں سے مجھے نوازدے۔

اے بادشاہ!مجھ مسکین کی پکڑدھکڑنہ کرنااگرچہ مجھ سے گناہ سرزدہوئے ہیں۔مگراب توان کی سزامجھے نہ دینا۔میں اپنی بیوقوفی کیوجہ سے گناہ کربیٹھاہوں۔تومجھے بخش دے۔میرے دردمنداوردکھی دل و جان پررحم فرما۔اگرچہ میری آنکھیں ظاہری طورپرنہیں روتیں لیکن پوشیدہ طورپرمیری جان اندرہی اندرزاروقطاررورہی ہے۔اے میرے پیداکرنے والے!اگرمیں نے اچھے اوربرے کام کیے۔تووہ خوداپنے آپ پرکیے۔تومیرے برے اورغلط کاموں کومعاف کردے۔اورمجھ سے جوغلطی سرزدہوگئی ہے۔اسے درگزرفرمادے۔میں اپنے غم میں مبتلاہوں اورحیران وپریشان ہوں۔اگرنیک ہوں یابراہوں بہرحال تیرابندہ ہوں میں تیرے بغیرناقص اورادھوراہوں۔مہربانی کی ایک نظرسے میری طرف دیکھ تاکہ میں کُل ہوجاؤں اورمیرانقص اورادھوراپن زائل ہوجائے۔میرے پُرخون دل کی طرف ایک نظرکراورمجھے اس دلدل سے باہرنکال لے۔

اگرتومجھے ایک باراپنانالائق بندہ کہہ کرپکاردے تومیرے لئے یہ بھی بہت غنیمت ہے کیونکہ میں تیرانالائق بندہ بن جاناہی اپنے لئے بہت کچھ سمجھتاہوں۔میں کیسے کہوں؟کہ میں تیراغلام ہوں۔میں اپنی کمرپرتیری غلامی کانشان رکھتاہوں۔میرے دل پرتیری محبت کاداغ ہے۔جوحبشیوں کے داغ سے ملتاجلتاہے۔اگرمیں تیراغلام بھی نہ بن سکوں توپھرمیں کس طرح سعادت مندبن سکتاہوں؟میں نے تیراغلام بننے کے لئے اپنے سینے کوبھی زنگیوں کی طرح غلامی کی علامت بنایاہواہے۔اے اللہ!اپنے داغ والے غلام کواورکسی کے آگے نہ بیچنابلکہ مجھ غلام کے کان میں اپنی غلامی کاحلقہ ڈال دینا۔اے اللہ!تیرے فضل وکرم سے کوئی بھی ناامیدنہیں ہے۔میرے لئے اتناہی اعزازکافی ہے۔کہ تیری غلامی کاحلقہ ہمیشہ کے لئے میری گردن میں پڑاہواہے۔جسکادل تیرے دردسے خوش نہیں ہے خداکرے وہ دل کبھی خوش نہ ہوایساآدمی جوان مردنہیں ہے۔
اے اللہ!تیراتھوڑاسادردبھی میرادرمان ہے۔کیونکہ تیرے دردکے بغیرمیری جان مردہ ہے۔کافرکے لئے کفرکافی ہے اوردیندارکے لئے دین کافی ہے۔مگرعطاررحمۃ اللہ علیہ کے دل کے لئے تیراتھوڑاسادردہی کافی ہے۔

اے رب!تومیرے ”یارب“کہنے سے واقف ہے۔تومیری غم زدہ راتوں میں میرے پاس ہی ہوتاہے۔اے اللہ!میراغم حدسے بڑھ گیاہے۔اب تھوڑی سی مجھے خوشی بھی عطافرما۔میں اندھیرے میں کروٹیں بدل رہاہوں مجھے نورعطافرما۔
اس غم میں تومیراسہارابن۔میراکوئی دستگیرنہیں ہے۔توہی میری دستگیری کر۔مسلمانی کے نورکی لذت عطافرما۔میرے ”نفس امارہ“ کوہلاک کردے۔میں وہ ذرہ ہوں جوسائے میں گم چکاہوں۔اب زندگی کاکوئی سرمایہ میرے پاس نہیں ہے۔میں تیری اس بارگاہ کاسوالی ہوں جوآفتاب کی مانندہے۔شایداس طرح مجھے روشنی کی کچھ خیرات مل جائے۔میں ایک پریشانی اورسرگشتہ ذرہ کی مانندہوں تیرے نورکی جھلک دیکھوں گاتواس سے چمٹ جاؤں گا۔اوراس دریچہ سے نکل کرایک روشن دنیامیں پہنچ جاؤں گا۔یعنی نفس کے ظلمت خانہ سے نکل کرارواح کے نورانی عالم میں پہنچ جاؤں گا۔اے اللہ!چونکہ تیرے بغیرمیرااورکوئی نہیں ہے۔اس لئے جب میری جان نکلے تواسوقت تومیرے پاس ہونا۔یعنی جب میں فوت ہوجاؤں گااگراس وقت تومیرے ساتھ نہ ہواتومجھ پرافسوس ہے۔اے اللہ!میں اُمیدرکھتاہوں کہ توا سوقت میرے پاس ہوگاکیونکہ تو”قادرمطلق“ہے۔(حکایات فریدالدین،منطق الطیر)

حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے نظم ونثر میں بہت سی تصنیفات چھوڑی ہیں۔جن کی تعداد قاضی نوراللہ شوستری کی مجالس المومنین میں ۴۱۱ ہے۔ان میں سے جو مشہور ہیں وہ درج ذیل ہیں۔تذکرۂ اولیا،مقامات الطیوریامنطق الطیر،مصیبت نامہ،اسرارنامہ،الٰہی نامہ،دیوان،بیئر نامہ،پندنامہ،وصیت نامہ،خسرووگل اورشر ح القلب،جواہرنامہ،مختارنامہ،شاہنامہ وغیرہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مشہورکتابیں ہیں۔

واقعہ شہادت:
ٓآپ رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ تذکرہ نگاروں نے اس طرح لکھا ہے کہ تاتاریوں کے عین ہنگامے میں ایک سپاہی نے شیخ کوگرفتار کیا ایک راہ گیر نے بڑھ کر کہا کہ ”دیکھنا اس مرد ضعیف کو قتل نہ کردینا دس ہزار اشرفیاں نقد دیتاہوں کہ ان کو چھوڑ دو“شیخ نے کہا خبردار اتنے پر مجھے فروخت نہ کردینا میری اس سے کہیں زیادہ قیمت ہے۔“سپاہی خوش ہوا کہ اس سے بھی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی اوروہ بھی بالکل مفت آگے بڑھ گیا۔آگے ایک اورشخص ملا۔اس نے کہا کہ میاں سپاہی اس بوڑھے کومجھے دے ڈالو میں ایک گٹھا گھاس کا اس کے معاوضے میں دیتا ہوں شیخ بولے ہاں دے ڈال کہ میری قیمت اس سے بھی کم ہے۔سپاہی کے تن بدن میں آگ لگ گئی کہ دس ہزار اشرفیاں ملتی ہوئی ہاتھ سے گئیں۔ جھلا کر وہیں سر تن سے جدا کرڈالا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ۷۲۶یا۸۲۶ہجری میں وفات پائی۔شہادت کے وقت آپ کی عمرایک سوچودہ سال تھی،آپ رحمۃ اللہ علیہ کامزارنیشاپورمیں واقع ہے۔الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولا ہم یحزنون۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہ عالم فریدالدین عطار فریدالدین ولی محبوب ہادی
بگومہدی فریدالدین مقبول وحیدالعصرصوفی مصفا
بخواں تولیدآن شاہ معلی کہ گردوسال عقل ازنقل پیدا(خزینۃ الاصفیاء)

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply