بے آواز گلی کوچوں سے” الفاظ”۔۔۔۔۔۔۔۔محمد منیب خان

یہ بات عام کہی جاتی ہے کہ انسان بولنا تو بچپن میں سیکھتا ہے۔ لیکن کب کیا بولنا ہے ،  یہ سیکھنا عمر بھر کی مشق ہے۔ انسان کی پہلی تربیت گاہ گھر ہے پھر اساتذہ اور معاشرہ انسان کو سیکھاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انسان کا گھر کا سیکھا سبق ایک طرف، اساتذہ کی برسوں کی محنت ایک طرف لیکن معاشرہ ہی وہ اکائی ہے جس کا سکھایا سبق زندگی میں سب سے زیادہ یاد رہتا ہے۔ اس طرح پہلا لفظ انسان گھر سے سیکھتا ہے۔ پھر درس گاہ سے اظہار کے الفاظ سیکھتا ہے اور پھر معاشرے میں بولے جانے والے الفاظ میں سے بہت سے لفظوں کا چناؤ کرتا ہے۔ جون ایلیا نے لکھا تھا کہ “الفاظ خیال کا حق مار لیتے ہیں”۔ یقیناً ایسا ہی ہے لیکن اگر خیال کو الفاظ کا پرہین نہ ملے تو خیال کا وجود کسے دیکھائی دے؟ الفاظ کے گھوڑے خیال کو منزل پہ پہنچاتے ہیں۔ الفاظ ایک طلسماتی پیرہن ہے۔ جونہی کوئی خیال الفاظ کے حوالے ہوتا ہے تو وہ سننے والوں کے لیے مجسم ہو جاتا ہے۔ لہذا الفاظ کی افادیت اور اس کا چناؤ ہی دراصل اہم ترین ہیں۔

الفاظ رابطہ ہیں بولنے والے اور سننے والے کے درمیان۔ بلکہ گفتگو کے الفاظ متکلم اور سامع کے درمیان تعلق کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ہر موقع اور ہر مزاج کے الفاظ الگ ہوتے ہیں۔ غصے کے الفاظ الگ ہیں خوشی کے الگ۔ نوحہ اور نغمہ الگ الگ لفظوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔ محبت کے الفاظ اور ہوتے ہیں نفرت کے اور۔ ۔اسی طرح بول چال کے الفاظ الگ ہیں اور تحریر کے الگ۔ کسی معاشرے میں بولے جانے والے الفاظ اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا تعین کرتے ہیں۔ معاشرہ  جتنا اعلی اقدار پہ قائم ہوگا اتنا ہی الفاظ کا چناؤ اور ان کا استعمال بہتر ہوگا۔ ایسے ہی تحریر کے الفاظ اپنا ایک اظہار رکھتے ہیں۔ کس کیفیت کو کس لفظ سے بیان کرنا ہے اس کا دارومدار مصنف پہ ہے۔ اور مصنف کا لفظوں کا انتخاب اور استعمال ہی اس کے ادبی مقام کے تعین کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔

زبان ہمیشہ ہی ارتقائی عمل سے گزر رہی ہوتی ہے۔ یہی ارتقاء زبان کے دامن میں نئے لفظ لاتا ہے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو زمانہ بول رہا ہے، جو آپ سب سن رہے ہیں۔ یہی الفاظ تاریخ کے اوراق کے پہ رقم ہو جاتے ہیں۔ شکسپیئر کے ناول کے الفاظ آج کی انگریزی میں معدوم ہیں۔ غالب اور میر کی شاعری میں شامل کئی اردو الفاظ آج اجنبی ہو چکے ہیں۔ جو کچھ آج بولا جا رہا ہے شاید وہ آج سے پچاس سال پہلے والوں کے لیے اجنبی ہو گا۔ اور اسی ارتقائی سفر میں سو سال بعد کے الفاظ بھی بدل جائیں گے۔ اور موجودہ زمانے میں بولے جانے والے لفظ اجنبی ہو جائیں گے۔ لیکن الفاظ کے ساتھ جڑی روایات ختم نہیں ہوتیں۔ کونسا لفظ کس موقع کا تھا یہ بات محفوظ رہتی ہے۔ الفاظ چاہے معدوم ہو جائیں یا اپنی ہیت بدل لیں لیکن ان کی اقسام مخصوص رہتی ہیں۔ اسم چاہے کتنے بدل جائیں لیکن الفاظ کی یہ قسم موجود رہے گی ایسے ہی “صفت” کے الفاظ چاہے بدل جائیں لیکن “اوصاف” بیان کرنے والے لفظوں کا گروہ رہے گا۔ ہر زمانے میں مغلظات کے اپنے الفاظ ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معاشرے میں بولے جانے والے الفاظ معاشرے کی سوچ اور فکر کے عکاس ہوتے ہیں۔ میرے ارد گرد کیا بولا جا رہا ہے یہ اس بات کا اعلان ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ ان کی فکر و خیال کس نہج پہ ہے۔ پست خیال پست الفاظ پیدا کرتا ہے۔ اور جب معاشرے میں عامیانہ اور پست الفاظ چہار جانب بولے جا رہے ہوں تو اخلاقی پستی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ پست خیال اور پست الفاظ سے اعلی اقدار اور کلچر پروان نہیں چڑھتا۔ سوشل میڈیا اظہار خیال کا سب سے عام اور آسان ذریعہ ہے۔ اس کے سبب جو الفاظ سامنے آ رہے ہیں وہ مایوس کُن ہیں۔ یہ واضح طور پہ اخلاقی گراوٹ اور پستیِ خیال کا نتیجہ ہے۔ ہم تاریک لفظوں سے روشن صبح کی عبارت لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم دوسرے کے چہرے پہ کالک مل کر خود کو سرخرو کر رہے ہیں۔ اگر یہ مکافات عمل ہے تو یقین مانیں یہ چلتا رہے گا یہ مجھے پڑنے والی گالی پہ رُکے گا نہیں۔ اگر یہ قدرت کا محاسبہ ہے تو تب بھی میں روئے زمین پہ آخری شخص نہیں۔ باقی سب کا محاسبہ بھی انہی الفاظ سے کسی اور کے ہاتھوں ہوگا۔ لیکن اگر یہ سب معاشرے کی اجتماعی فکری افلاس کا عکاس ہے تو اس کے لیے کہیں نا کہیں تو اس سسلسلے کو ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ پستیِ خیال اور پستیِ اظہار کا سفر جاری رہے گا۔ فی الحال تو بظاہر ہم بطور معاشرہ اس سفر کو انجوائے کر رہے ہیں۔ اس لیے جو جی میں آتا ہے بول دیتے ہیں لکھ دیتے ہیں۔ کاش کہ ہم خود کو تاریخ کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ اگر واقعی الفاظ خیال کا حق مار لیتے ہیں تو ذرا سوچیے اگر معاشرے میں رائج الفاظ اس طرح کے ہیں تو پھر ان کے خیال کتنے پراگندہ ہوں گے؟

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply