نامعلوم جنگ۔۔۔۔آغا نصرت آغا

شہادت بہت بڑا رتبہ ہے مگر شہید شہید اور قربانی قربانی کا ورد کرنے والے AC کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اینکروں , نام نہاد سیاستدانوں اور ISPR کے سازندوں اور فلسطین و شام کے غم میں ڈوبے ملاوں نے مل کر وطن عزیز میں جاری موت کے اس رقص کو شہادت اور قربانی کے ست رنگے قوس قزح کی صورت جو ایک خوشنما بیانیہ پینٹ کرکے سماجی شعور کو اندھا کر دیا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لئے خطرناک ہے۔

اس جنگ کی نظر ہوتے میں جب بھی کسی باوردی اور بے وردی ہم وطن کو دیکھتا ہوں تو    منٹو کے الفاظ میرے  ذہن میں گونجنے لگتے ہیں “ہو سکتا ہے کہ میرے ہم مذہب لوگ مجھے شہید کہتے ہوں لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلنا شروع کر دیتا مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں مجھے ایسی ڈگری نہیں چاہیے ۔۔ جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں –

آج ہم نظریاتی طور پر بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں ۔ عقلوں پر حب الوطنی کے تالے لگا کر اس سفاک اور مستقل جاری رہنے والی جنگ کو  بخوشی قبول کر لیا ۔ کسی کو احساس ہی نہیں کہ ملک شہداء نام کے چوکوں سے بھر چکا ہے ۔ جنگ کے شعلے ہماری عبادت گاہیں درسگاہیں شفاء جانے اور چھاونیاں لپیٹ میں لے چکے ہیں ۔اقلیتوں کے خون سے سبز ہلالی پرچم کی سفیدی سرخ کر دی گئی ۔ پشتونوں کی سرزمین اور خاص کر فاٹا کے نوجوانوں کے لہجے جنگ نے تلخ کر دئیے ہیں۔ امن امن کے لئے چیختے انکے گلے بیٹھ چکے ہیں اور بقاء کے لئے لکھتے لکھتے انکے قلم سوکھ چکے ہیں یہ اداس نسلیں ریاستی اداروں سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اس جنگ سے ہمیں بھی نکالو اور خود بھی نکلو ۔اس جنگ کا کوئی اختتام نہیں، یہ مستقل جاری رہنے والی جنگ ہے، یہ اداس نسلیں اپنے ہم وطنوں سے کہتی ہیں کہ نہیں تم نے جنگ نہیں دیکھی آدمی چیونٹیوں کی طرح مرتے ہیں وہاں مرنا اور مارنا بڑا آسان کام ہے –

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ الگ المیہ ہے  کہ ہماری شہادتیں بھی قومیتوں ، علاقوں ، سول ،عسکری  اور پولیس کے طبقوں میں تقسیم ہے, جب بھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو زیادہ تر عوام کی شہادتیں گمنام ہوتی ہیں بہر حال بات فوجی کی ہو _ پولیس کانسٹبل کی ہو یا ریڑھی والے کی اولاد کے گالوں پر بہتے آنسوں وطن عزیز کی پالیسیوں سے شہید اور قربانی کی آنکھ مچولی بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اب اس ریاست کے شہری اور خاص کر قبائلی نوجوان زندگی اور امن چاہتے ہیں ہم مزید جنگوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

Facebook Comments

آغا نصرت آغا
i syed nusratullah agha from sindh agriculture university tandojam 2nd year student . My best hobbies are reading the various books and write a columns against women brutal volition as well as i playing a football

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply