ورفعنا لک ذکرک/ڈاکٹر اظہر وحید

کی ضیافت کے لیے میں شیخ عبداللہ میسرا کی نعت کا اردو ترجمہ کرتا ہوں۔ انگریزی میں لکھی گئی یہ نعت اتنی کیف آور ہے کہ اردو میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
”آج میں آپؐ کی مقدس پیدائش کا دن منا رہا ہوں

اس دن نے زندگی کو اس کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا ہے

آج میں بیٹھ کر سوچتا ہوں

اس سے پہلے میں نے کبھی یہ گمان بھی نہ کیا تھا

کہ ایک ایسا پیار بھی ہو سکتا ہے

کہ میں آپؐ کا ہوں اور آپؐ میرے ہیں

یعنی ایسا پیار جو بیوی بچوں سے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے

یہاں تک کہ ایک ماں کا اپنے بچے سے پیار بھی اس پیار کے مقابلے میں مدھم نظر آتا ہے

یہ ہر قسم کی تخلیق شدہ چیز سے زیادہ ہے

یہ درد اور خوشی لے کر آتا ہے

درد اس لیے کہ ہم آپؐ سے مل نہیں سکے

اگر کبھی میں آنکھوں سے آپؐ کے سراپے کی ایک جھلک ہی دیکھ لیتا

میں جی بھر کر ایک کامل وجود کی زیارت کرتا

آپؐ کی شفقت بھی محسوس کرتا جیسے ہم آج محسوس کرتے ہیں

لیکن اس سے تو میری تمنا مزید بے تاب ہو جاتی

صرف ایک نظر دیکھنے سے بھلا یہ کسک کیسے ختم ہو سکتی ہے

لیکن اس درد اور کسک کے باوجود اس میں ایک راحت اور خوشی بھی ہے

کیونکہ جب میں آپؐ کا نامِ نامی سنتا ہوں

تو میرا دل گداز ہو جاتا ہے، میرے (عقلی) تحفظات ختم ہو جاتے ہیں

میں آپؐ کے خیالوں میں ایسا کھو جاتا ہوں، گویا ڈوب ہی جاتا ہوں

اور ایسا کیوں نہ ہو، میں ایسا کیوں نہ سوچوں

آپؐ ہی نے ہمیں اللہ کا راستہ دکھایا ہے، یہاں تک کہ ہمیں ایک سرخوشی مل گئی

آپؐ نے ہماری مدد کی اور روشنی کی طرف راہنمائی کی

آپؐ ہی کی معرفت ہمیں معلوم ہوا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے

آپؐ نے ہمارے لیے دن رات محنت و مشقت کی

کیا اس مشقت کا صلہ میں کبھی اپنے پیار سے دے سکتا ہوں؟

میں بس یہی کر سکتا ہوں کہ جب تک میری زندگی ہے میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہوں کہ اس نے آپؐ کو ہمارے پاس بھیجا

اے طرفہ شان والے اور نیکوں کے سردار!

آپؐ پر اللہ کی رحمت اور برکت ہو/آپؐ کے اہلِ خاندان پر، آپؐ کے دوستوں پر اور آپؐ کے محبین پر۔“

شیخ عبداللہ میسرا اس نعتیہ کلام کے آخر میں ایک نوٹ لکھتے ہیں: ”یہ کلام میرے اس سفر کی ترجمانی کرتا ہے جس میں، میں رسولِ کریمؐ کی جستجو کرتے ہوئے اسلام تک پہنچا اور میں یہ کلام ہر سال ربیع الاول کے دن پوسٹ کرتا ہوں“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رفعتِ انسانی کا ذکرِ مصطفیﷺ اور عرفانِ مصطفیﷺ سے کیا تعلق ہے، مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔ آپؒ یہ شعر اکثر اپنی محافلِ گفتگو میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر وجد آفرین انداز میں پڑھا کرتے:
خاک کو رفعت ملے، بے بال و پَر کو پَر ملے
نعتِ پیمبرؐ سے جب عرفانِ پیمبرؐ ملے
سلطان کا ذکر بھی سلطان ہوتا ہے۔ یہ ذکرِ سلطانِ زمانہؐ ہے جو زمانے کی حدود و قیود سے انسان کو آزاد کر دیتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply