کچھ سیاسی فکری مغالطے/نجم ولی خان

اسے آپ کیا کہیں گے۔ مغالطہ یہ پیدا کیا جا رہا ہے کہ رہائی کسی ڈیل کا حصہ ہے اور یہ مغالطہ اس وقت تک دور نہیں ہو سکتا جب تک آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ تمام مقدمات حقیقی رجیم چینج آپریشن میں شریف فیملی کی کردار کشی کے لئے بنے۔ بات صرف مریم نواز اور شہباز شریف کی نہیں، آپ شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ سمیت کسی کا بھی مقدمہ اٹھا کے دیکھ لیجئے۔ اعلیٰ عدالتوں نے نیب اور دیگر اداروں کے بنائے ہوئے کیسوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اگر آپ ان کی ضمانتوں کے فیصلوں کے پیراگراف ہی پڑھ لیں تو آپ کے تمام فکری مغالطے دور ہوجائیں گے۔
ایک اور فکری مغالطہ ہے کہ جناب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ہیں اوریہ بھی کہ اب نواز شریف اور خانصاحب دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف ہو گئے ہیں۔ اس فکری مغالطے کو آپ اس وقت تک نہیں دور کر سکتے جب تک آپ اسٹیبلشمنٹ مخالف سوچ کو نہ سمجھ لیں۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف سوچ یہ ہے کہ پاک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ نواز شریف کی یہی سوچ ہے اور اب ہماری قومی فوج نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ نیوٹرل ہے، اے پولیٹیکل ہے۔ یہاں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کی جدوجہد اس لئے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جانبدار ہوجائے اور مداخلت کرتے ہوئے انہیں اقتدار میں لے کر آئے۔ وہ فوج کی سیاست میں ویسی ہی مداخلت چاہتے ہیں جو ستر برس موجود رہی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں بلکہ اس کی آئینی اور اخلاقی غیر جانبداری کے مخالف ہیں۔
چلتے چلتے ایک اور فکری مغالطہ دور کر لیں کہ عمران خان بہت بہادر ہیں، وہ نواز شریف کی طرح ملک سے بھاگے نہیں، یہاں رہ کے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کر رہے ہیں تو میرے خیال میں بہادری کا یہ دعویٰ قبل از وقت بھی ہے اور تاریخی حقائق کے منافی بھی۔ میں پہلے ہی کہہ چکا کہ ججوں کی بحالی والے لانگ مارچ میں غائب ہوجانے والے، اپنے لانگ مارچ میں پومی بٹ کے پتھراو سے ہی دوڑ جانے والے عمران خان کہاں کے بہاد ر ہوئے۔ وہ ہمیشہ کسی دوسرے کے سہارے پربہادری کامظاہرہ کرتے رہے۔ اس وقت بھی انہوں نے محض رانا ثناء اللہ کی ایک بڑھک پر اپنا لانگ مارچ ملتوی کر دیا۔ میں عمران خان کو اس وقت واقعی بہادر تسلیم کر لوں گا جب وہ بھی اٹک قلعے، اڈیالہ جیل اور پھرکوٹ لکھپت جیل میں رہیں گے۔ وہ کئی سو پیشیوں کے باوجود عدالتوں میں پیش ہوتے رہیں گے اور جب ان کی بہن کو اسی طرح ان کے سامنے جیل میں ملاقات کرتے ہوئے گرفتا ر کیا جائے گا جیسے مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ اگر وہ ان سب کے بعد ملاقاتوں پر پابندی کے ساتھ اور بہن کے کسی پھانسی کی کوٹھڑی میں بند کئے جانے کے بعد بھی ڈٹے رہے تو میں انہیں بہادر مان لوں گا، ابھی تو ان کی بہادری محض بڑبولا دعویٰ اور ایک فکری مغالطہ ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply