• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یوکرین امریکی ورلڈ آرڈر کا اختتام؟ ۔۔ڈاکٹر ندیم بلوچ

یوکرین امریکی ورلڈ آرڈر کا اختتام؟ ۔۔ڈاکٹر ندیم بلوچ

طاقت کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں، جب انفرادی یا اجتماعی طور پر طاقت آجاتی ہے تو اس کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی قیادت میں مغرب دنیا کی طاقت کا مرکز ٹھہرا، ہر وہ چیز درست تھی جسے یہ درست کہتے تھے اور ہر وہ چیز نادرست اور خلاف تہذیب قرار پاتی تھی، جسے مغرب اور امریکہ مردود قرار دے دیتے تھے۔ سوویت یونین کی ذلت آمیز شکست کے بعد مغرب کی اس طاقت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا۔ ایک اسکالر کے بقول سوویت یونین کی بغیر کسی ملک سے براہ راست جنگ کے یوں شکست کھا جانا جہاں حیران کن تھا، وہاں کچھ امریکی پالیسی سازوں کی حکمت عملی کے عین مطابق تھا کہ ہم اس انداز میں سوویت یونین کو گرائیں گے کہ پھر دوبارہ اٹھنے کا حوصلہ نہیں کر پائے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ علاقے کا ایک چوہدری اپنے مقابل کے دوسرے چوہدری کو علاقے کے ہاریوں سے لڑوا کر بے بس کر دے تو وہ چوہدری چوہدریوں کے خلاف خاک لڑے گا؟ بس روس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ مجاہدین کی شکل میں بے ریاست لوگوں نے اسے ادھیڑ کر رکھ دیا۔

نیٹو ممالک کی عسکری طاقت بہت زیادہ تھی، اس لیے انہوں نے امریکی قیادت میں ہر اس جگہ حملہ کیا، جہاں امریکہ چاہتا تھا یا جہاں امریکہ کو اس کی ضرورت تھی۔میدان جنگ مسلم ممالک قرار دیئے گئے اور طاقتور کو حملہ کرنے کے لیے بہانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ بہانے تراشے گئے اور کہیں اسامہ بن لادن اور کہیں ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش کے نعروں کے ساتھ حملہ کر دیا گیا۔ نیٹو فورسز دو دہائیاں افغانستان میں مقیم رہیں اور یہاں ان کا وہی حال کیا گیا، جو اس سے پہلے روس کا ہوا تھا۔ بہت سمجھایا گیا کہ عسکری طور پر اس علاقے کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے اور اس سے علاقہ آگ میں جل جائے گا، مگر طاقت کی زبان میں دنیا کا نظام تشکیل دینے والے دوسرے کے مشوروں کو بھی بزدلی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ آخر میں تھک ہار کر بیس سال کے بعد مذاکرات کی سوجھی اور جن سے اقتدار لیا تھا، اپنے ہاتھوں سے ان کے سپرد کرکے ملک سے روانہ ہوگئے بلکہ جو مناظر ٹی وی پر دکھائے گئے، ان کے مطابق تو بھاگ گئے۔

عراق، شام اور لیبیا میں شکست خوردگی کا شکار ہیں۔ ان ممالک کی افواج اور عوام ہر دو غیر ملکی قابض افواج کے خلاف ہیں۔ خوبصورت عناوین کے ساتھ یہاں افواج کو رکھنے کی کوششیں اب کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ لگ یوں رہا ہے کہ بہت جلد ان علاقوں سے بھی امریکی افواج کو نکلنا پڑے گا اور اقتدار مقامی زمین زادوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ امریکی ورلڈ آرڈر خطے کے ان ممالک میں شکست کھا چکا ہے۔امریکی اسرائیل کے گرد جس حفاظتی حصار کو بنائے آئے تھے کہ شام، لبنان میں من پسند حکومتیں آجائیں گی اور عراق سے بھی مزاحمتی حمایت ختم ہو جائے گی، وہ تو حاصل نہ ہوسکا۔ امریکی صلاحیت اور ارادے دونوں کمزور ہوچکے ہیں۔ اگرچہ معیشت ٹریلنز ارب کی اور ہتھیار بھی کافی ترقی یافتہ ہیں، مگر کچھ اور طاقتیں بھی خطے میں ایک نئی حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔

امریکہ ویت نام سے لے کر افغانستان تک عملی مداخلت کرکے یہ دیکھ چکا ہے کہ یہ بہت مہنگا سودا ہے اور اس میں مالی اور جانی ہر دو طرح کا نقصان ہوتا ہے، اس لیے اب حکمت عملی کو بدل دیا گیا ہے، اب امریکہ خطے میں امریکی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنے والوں کے گرد مقامی اقوام کو کھڑا کرے گا۔ یوکرین کا موجودہ المیہ اسی کی مثال ہے امریکہ یہ چاہتا تھا کہ نیٹو کے بارڈرز اور روس کے درمیان یوکرین ایک بفر زون بن جائے، اس مقصد کے لیے اس نے نوے کی دہائی سے ہی کام شروع کر دیا تھا۔امریکہ فقط یوکرین کو مسلح کرے اور اس کو تھپکی دے کر تماشہ دیکھے۔ امریکہ تو خیر اپنے مفادات کی گیم کر رہا تھا، مگر یوکرین اسے سمجھ نہیں پایا۔ یوکرین کے موجودہ صدر جو بنیادی طور پر ایک اداکار اور ناتجربہ کار شخص ہیں، وہ مغرب کے بہکاوے میں آگئے۔

اسی لیے جنگ کے دوسرے دن بیان دے رہیں کہ میں نے مغرب کے تیس ملکوں کے سربراہوں کو فون کیے،کو ئی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے، سب ڈرے ہوئے ہیں اور صرف ہم ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جی بالکل ایسے ہی ہے، جنگ آپ لڑ رہے ہیں اور یہ آپ کو ہی لڑنی ہے، جن کے وعدوں پر آپ نے اپنے موقف میں لچک پیدا نہیں کی تھی، وہ قابل اعتبار نہیں تھے۔ اب جنگ آپ پر مسلط ہے اور وہ صرف مذمت اور چند پابندیوں تک محدود ہیں۔ وہ اس سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ کا قائم کردہ ورلڈ آرڈر آخری سانس لے رہا ہے، اب امریکہ اپنی افواج کو ملک سے باہر نہیں بھیجے گا اور بالخصوص کسی دوسرے ملک کے لیے لڑنے کے لیے بھیجنے کے چانسز بہت کم ہیں۔ امریکی جانتے ہیں کہ روسی ردعمل صرف یوکرین میں نہیں ہوگا بلکہ الاسکا کے راستے روسی امریکہ کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تائیوان اور انڈیا کی صورت میں ملے پیادوں کے ذریعے چین کا گھیرا تنگ کرنے کا پروگرام ہے، تائیوان کی تو چین سے شدید دشمنی ہے، مگر انڈیا چین کے ساتھ دشمنی بنا رہا ہے اور ایشوز کو ہوا دے رہا ہے کہ وہ پیدا ہوں اور اس کا چائینہ کے ساتھ مسئلہ بنے۔ ان دو ممالک کو یاد رکھنا چاہیئے کہ امریکی ورلڈ آرڈر اب حیثیت کھو چکا ہے۔ کسی دوسرے کے کہنے پر پڑوسیوں کو اور وہ بھی طاقتور پڑوسیوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیئے اور ان کے ساتھ معاملات کو اس حد تک گھمبیر نہیں ہونے دینا چاہیئے کہ پھر یوکرین کی طرح بند گلی میں پہنچ جائیں اور جس کے سہارے آگ میں کودے تھے، وہ دور سے تماشہ دیکھیں۔ اگلے چند دن یوکرین سے ملے مغربی ممالک کے لیے بہت اہم ہیں اور ان ممالک کی قیادت یقیناً پریشان ہوگی کہ کس حد تک امریکہ پر یقین کیا جا سکتا ہے؟ لگ یوں رہا ہے کہ یوکرین پر حملے سے روس کو روک نہ سکنا اور بعد میں فقط نمائشی اقدامات امریکی ورلڈ آرڈر کا اختتام ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply