• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مدارس میں فلسفہ و عرفان کا فتنہ ۔ آیۃ اللہ صافی گلپائگانی/مترجم۔حمزہ ابراہیم

مدارس میں فلسفہ و عرفان کا فتنہ ۔ آیۃ اللہ صافی گلپائگانی/مترجم۔حمزہ ابراہیم

(عرضِ مترجم: یہ مضمون معروف شیعہ متکلم اور مرجع  آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی (متوفیٰ 2022ء) کی کتاب”لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب“ سے لیا گیا ہے۔)

فلسفہ  کا فتنہ

مامون عباسی (متوفیٰ 833ء) کے زمانے سے یونانیوں کا فلسفہ مسلمانوں میں پھیلنا شروع ہوا تو اسلام کی نصوص، بالخصوص اصولِ دین، فلسفیوں کی تاویلات کی زد پر آ گئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی آراء کے مطابق نصوص کے معنی بدلے۔ شریعت کی نصوص کے ظاہری معانی سے آزاد ہو کر فلسفے، اور حتیٰ کہ  (فرسودہ یونانی) طبیعیات، کی رو سے آزادانہ تشریحات کرنے کا رواج ہو گیا تو انہوں نے لوگوں کو نصوص کے حقیقی معنوں سے دور کر دیا۔ توحید و صفاتِ الہٰیہ اور حادث و قدیم اور خالق و مخلوق وغیرہ کے معنوں میں انہوں نے ان چیزوں کو داخل کیا جو ظواہر سے میل نہیں کھاتیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مذہب کو ظن و گمان اور مفروضوں پر استوار کیا اور اس کی ایسی تشریح کی جو دین کے مالک اور مفسرینِ برحق ؑ کی منشاء کے خلاف تھی۔ انہوں نے اعلیٰ معارف کی تفسیر انبیاء ؑ کے راستے سے ہٹ کر کی۔ انکے اذہان آسمانی ہدایت کے نور سے روشن نہیں ہوئے تھے۔ پس وہ ذہنی طور پر بے لگام ہو گئے اور اپنی مرضی کی راہوں پر چل پڑے۔ وہ ایسی اصطلاحات لائے جو قرآن کی اصطلاحات سے موافق نہیں ہیں۔ وہ ایجاب، حلول، اتحاد اور وحدت الوجود جیسی اصطلاحوں میں پڑ گئے۔ انہوں نے حادث و قدیم کے تعلق کو مخلوق و خالق کے بجائے معلول و علت کے تعلق کی طرح قرار دیا، جبکہ ان میں واضح فرق ہے۔ کہاں خالق و مخلوق اور کہاں علت و معلول؟ دوسری اصطلاح سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو پہلی اصطلاح سے سمجھ میں آتا ہے، جو دوسری کا مطلب ہے وہ پہلی کا نہیں ہے۔ دونوں راستے ایک نہیں اور نہ ہی ایک مقصد تک پہنچاتے ہیں۔ علت پہلی، دوسری، ۔ ۔ہو سکتی ہے لیکن خالق پہلا، دوسرا اور تیسرا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح معلول بھی پہلا، دوسرا، تیسرا ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے لیکن مخلوق میں ایسا اول، دوم، سوم کا سلسلہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض احادیث میں”اول ما خلق اللہ نوری“ آیا ہے، لیکن اس سے مراد وہ نہیں کہ جیسے پہلے معلول کو دوسرے کی علت، اور دوسرے کو تیسرے کی علت سمجھا جائے ویسے ہی پہلی مخلوق دوسری کی خالق ہو۔ سب مخلوقات، چاہے کچھ پہلے خلق ہوئی ہوں اور کچھ بعد میں، انکا خالق ایک ہی ہے اور سب کو اسی ایک سے خلقت کی نسبت ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں جیسے معلولِ ثانی جو کہ علتِ ثالثہ ہو وہ معلولِ اول و علتِ ثانیہ کا معلول ہو۔[1]
فلسفیوں کی کتابیں، اور ان میں جو کچھ بظاہر آسمانی وحی سے مطابقت رکھنے والا مواد پایا جاتا ہے وہ بھی وحی کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں، نہ وہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس میں خشک و تر، حق و باطل مخلوط ہے۔ بعض مقامات پر وہ انبیاء ؑ سے متفق ہیں اور بعض جگہوں پر انکا اختلاف ہے۔ خصوصاً ماضی قدیم کے (یونانی) لوگ، جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی لائی ہوئی ہدایت پر رسمی حد تک یقین رکھتے اور عمل کرتے تھے مگر ان کے اذہان اس رہنمائی سے خالی ہو چکے تھے اور انبیاء ؑ کی رہنمائی کے بغیر عقل گمراہ ہو جاتی ہے۔ جو (مسلم) فلاسفہ ان کے بعد آئے وہ ان کے راستے پر چلے اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کی۔ تاہم انہوں نے ان مفروضات کی کتاب وسنت سے تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گویا وہ اسلام کے معارف کو معنوی طور پر ان مفاہیم کے قریب لانا چاہتے تھے جنہیں ان کی عقل درست سمجھ رہی تھی۔ لہٰذا ان میں سے صرف چند ہی خطاؤں، لغزشوں اور پھسلنے سے محفوظ رہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاصرین میں سے مشہور ترین متکلمین نے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر معروف مذہبی فلسفیوں کی رائے کو سختی سے مسترد کیا، یہاں تک کہ ان کو گمراہی کا شکار قرار دیا کہ خدا ہمیں اس سے بچائے۔ حوالے کیلئے ملا محمد اسماعیل مازندرانی کا قرآن کی اس آیت ”وکان عرشہ علی الماء (سورہ ہود، آيت 7)“ کی تفسیر میں لکھا گیا رسالہ دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ اپنی جگہ ایک انحراف ہے کہ ان حضرات نے ان امور پر بحث کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا کہ جن کے بارے میں بات کرنا نا  صرف واجب نہیں ہے، بلکہ منع کیا گیا ہے۔ کیا وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں جو ارسطو، افلاطون، سقراط، رواقیوں اور مشائیوں، یعنی فارابی اور ابنِ سینا، کے عقائد کو اپنائے ہوئے ہیں یا وہ لوگ ہیں جو محمدؐ و آلِ محمد ؑکی تعلیمات کو اپنائے ہوئے ہیں اور انکی سیرت پر چلتے ہیں؟ ہم کسی شخص کو پہلے یا دوسرے گروہ کا حصہ قرار نہیں دے رہے اور امید کرتے ہیں کہ مسلمان فلسفی دوسرے گروہ میں شمار ہوں۔ ان کی آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ  پر ہی چھوڑنا چاہیے۔

عرفان کا فتنہ

جن لوگوں نے اپنی بنیاد نصوص کی تاویل پر رکھی اور اپنی پسند اور تخیل کے مطابق ان کو پھیر دیا، ان میں سے عرفاء اور صوفیوں کے فرقے سے پہنچنے والا نقصان سب سے زیادہ اور انکی تاویلیں سب سے بری ہیں۔ وہ اصولِ دین اور فروعات کو کھیل بنا لیتے ہیں۔ ان کو اپنی فاسد آراء سے تطبیق دیتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی توجیہ کرتے ہیں۔ انکے اقوال پوچ اور انکے نظریات باطل ہیں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتے ہیں۔ صریح نصوص کے خلاف سیر و سلوک اور بیعت کے سلسلوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ انکی تاویلات مکڑی کے جالے سے زیادہ ناپائیدار ہیں۔ ان کی چند کتابیں، ان کے بڑوں کی تاریخ اور ان کے اشعار پڑھ لینا ہی اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کافی ہو گا کہ حقیقی معرفت اور شریعت سے انکا فاصلہ زمین تا آسمان ہے۔ خدا مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ ان کی گمراہی کی وجہ فضول توہمات میں مگن ہونا اور قرآن و اہلبیت ؑ سے دوری ہے۔
ان گروہوں میں سب سے زیادہ تباہ کن وہ ہے جس نے فرسودہ یونانی فلسفے اور عرفان کا ملغوبہ تیار کر لیا ہے، گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا!
 اگر کوئی جاننا چاہے کہ صوفیوں کا اور انکے پیروکاروں کا راستہ کیا ہے تو وہ ملا عبدالرزاق کاشانی کی تفسیر کو دیکھے کہ اس میں اس قسم کی تاویلات بہت مل جائیں گی۔ مثال کے طور پر آیت کریمہ ”وانظر الی حمارک (سورہ بقرہ، آیت 259)“ کی تفسیر میں ”حمار“ سے مراد حضرت عزیر ؑ کو لیا ہے، ”صفا و مروہ“ کو قلب اور نفس قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو جلد 1 کا صفحہ 100 اور 147۔ جہاں تک سورہ کہف کی آیت 82 میں دو یتیم بچوں کا ذکر ہے تو انہیں عقلِ نظری اور عقلِ عملی قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی پہلی آیت میں ”نفس واحدہ“ کی تفسیر نفسِ ناطقہ اور ”زوجہا“ کی تفسیر نفسِ حیوانی کر دی ہے۔ ان کی باتوں میں لغو تاویلیں بہت ملتی ہیں، جنہیں ابنِ عربی کی فصوص الحکم وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [2] ہمیں اس سے زیادہ بیان کرنے میں دلچسپی نہیں ہے کہ ہمارا مقصد صرف اس فاسد راستے کا مختصر تعارف پیش کرنا تھا۔[3]
حواشی و حوالے:
[1] عرضِ مترجم: یہاں سے یہ نکتہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ علتِ اولیہ کے عدم سے خالق کا انکار لازم نہیں آتا۔  جدید طبیعیات میں یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ زمان و مکان حادث ہیں، قدیم نہیں۔ کائنات کی ابتداء علت (particles) اور ضدِ علت (anti-particles) کے جوڑوں  [Big•Bang] کی شکل میں ہوئی۔ اسکے ساتھ ہی وقت اور فاصلے کا آغاز ہوا۔علت و معلول کا تعلق بھی وقت اور جگہ کی ابتدا کے بعد پیدا ہوا۔ یوں ملا صدرا کی کتابوں میں بیان شدہ تصور جہان مستردہو چکا ہے۔
[2] عرضِ مترجم: علامہ اقبال پیام مشرق میں ایسی ہی ذاتی احساسات پر مبنی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ز راز معنی قرآن چہ پرسی؟ (قرآن کے معنوں کے راز کیا پوچھتے ہو؟)
ضمیر ما بہ آیاتش دلیل است (ہماری روح اسکی آیات کی تصدیق کرتی ہے)
خرد آتش فروزد دل بسوزد (عقل آگ لگاتی ہے اور دل اس میں جل اٹھتا ہے)
ہمین تفسیر نمرود و خلیل است (حضرت ابراہیم ؑ اور نمرود کے قصے کی یہی تفسیر ہے)
[3] آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب“، جلد 3، صفحات 388 تا 392، قم، 2012ء۔

یہ بھی پڑھیۓ: ملا صدرا کے خیالات کی فرسودگی

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مدارس میں فلسفہ و عرفان کا فتنہ ۔ آیۃ اللہ صافی گلپائگانی/مترجم۔حمزہ ابراہیم

  1. وحدت الوجود کا رد
    آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی
    ”بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالق، مخلوق سے الگ ہے۔ ان کے درمیان کوئی ذاتی اور حقیقی قدرِ مشترک نہیں ہے اور وہ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ ہے۔ اس حقیقت کو اصالتِ وجود کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے بعض مروجہ عرفانی اور فلسفی مسالک سے تطبیق نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا ہمہ خدائی کا قائل نہیں ہوا جا سکتا۔ اسی طرح خالق و مخلوق کے تعلق کو دریا و موج یا روشنائی و حرف کے تعلق سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، نہ اس قبیل کی دوسری اصطلاحات و تشبیہات استعمال کرنی چاہئیں۔ کائنات کی حقیقت اور واقعیت کا منکر نہیں ہوا جا سکتا کیونکہ اس کی کلی اور جزئی واقعیت کو قرآن مجید میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ آسمان، کہکشائیں، نظامِ شمسی، پہاڑ، دریا اور انسانوں اور حیوانات میں رہنے والی کروڑوں مخلوقات کے تحققِ واقعی کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ صرف وجودِ مطلق ہے اس کے ظہورات ہیں، صرف مطلق وجود اور اس کے مراتب ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وجود کے علاوہ حقیقی طور پر کچھ نہیں ہے اور جو اختلاف ہے وہ مراتب میں ہے، درست نہیں۔ وجودِ اشیاء کو وجودِ حق کا غیر کہیں اور ہر چیز کے وجود کو دوسری چیزوں کے وجود کا غیر کہیں، اور ساتھ ساتھ اشتراکِ معنویِ وجود کے بھی قائل ہوں۔ کنہ حق اور کنہ اشیاء کو ان معنوں میں واحد خیال کریں۔ پھر ان سب کی معرفت کے مدعی بھی ہوں اور سب پر تشکیکِ وجود کے تصور کا اطلاق کریں۔ یہ نظریات قرآن و سنت اور شرعی عقائد کے مخالف اور ان کے ساتھ ناسازگار ہیں۔ قرآن کریم سے شیئیتِ اشیاء اور انکی خارجی واقعیت اور تحقق اور ذاتِ الہٰی کے ان سے جدا ہونے اور شباہت سے منزہ ہونے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح حادث و قدیم کے ربط کے مسئلے میں، کہ جس میں کلام ممنوع نہ ہو تو لازم نہیں ہے، یہ کہا جائے کہ معاذ اللہ خدا اس مخلوق کے علاوہ کچھ بنانے سے عاجز ہے اور اس پر صدور عالم واجب ہے اور ان کے فرض کردہ عالمِ عقول و مجردات میں وہ کچھ نیا نہیں بنا سکتا اور دنیا ایک مکینیکل کارخانے کی طرح چل رہی ہے، ۔ ۔ ۔ ظواہرِ مقبولہ اور مسلماتِ قرآن کے خلاف ہے۔“

    حوالہ: آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی، ص 26 ، 27۔

Leave a Reply