میں عرفان۔۔۔ذیشان نور خلجی

ہیلو ! بھائیو، بہنو نمشکار
میں عرفان۔۔۔
میں آج آپ کے ساتھ ہوں بھی اور نہیں بھی۔ یہ فلم “انگریزی میڈیم” میرے لیے بہت خاص ہے۔ یقین مانیے ! میری دلی خواہش تھی کہ اس فلم کو اتنے ہی پیار سے پروموٹ کروں کہ جتنے پیار سے ہم لوگوں نے بنایا ہے۔ لیکن میرے شریر کے اندر کچھ ان وانٹڈ مہمان بیٹھے ہوئے ہیں ان سے وار تلاپ چل رہا ہے۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ جیسا بھی ہو گا آپ کو اطلاع کر دی جائے گی۔
اور آج اطلاع کر دی گئی۔ عرفان خان ہم میں نہیں رہے۔

جون 2006ء کی بات ہے تب آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور گرما گرم چھٹیاں چل رہی تھیں۔ صبح صبح ٹیوشن سے جان چھڑا کے پھر سارا دن فارغ ہی گزرتا۔ تب نہ تو یہ یو ٹیوب تھی اور نہ ہی نیٹ فلیکس جیسے پلیٹ فارمز میسر تھے تو وقت گزاری کے لئے بس مانگ تانگ کے گزارا کرنا پڑتا یا کبھی جو بہت دل چاہا تو دس روپے کے عوض ایک دن کے لئے کرائے پر ڈی وی ڈی مووی لے آتا۔
یہ عمران ہاشمی کی پہلی فلم تھی “فٹ پاتھ”۔ 2003ء میں ریلیز ہوئی۔ جس میں ممبئی کے فٹ پاتھ کی زندگی دکھائی گئی تھی کہ کیسے معصوم بچے جرائم کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں اور پھر خود آپ اپنی موت کو آن گلے لگاتے ہیں۔ ایک کلاس فیلو نے بن مانگے مجھے یہ فلم دی۔ تب اس میں پہلی مرتبہ میں نے عرفان خان کو دیکھا جو “شیخ” کا کردار نبھا رہے تھے۔ کردار کیا تھا ایک کارپوریٹڈ ڈرگ ڈیلر تھا اور پوری فلم میں گنتی کے چند سین ہی ان پہ فلمائے گئے تھے وہ بھی انتہائی منفی قسم کے۔ لیکن تب ان کی اداکاری میرے دل میں گھر کر گئی۔ دراصل کچھ لوگ پیدائشی فنکار ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے ان کو بناتے ہوئے کسی ایک پہلو سے بھی بے نیازی نہ برتی ہو۔ یہ اداکاری نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا ہر سین حقیقت پر مشتمل ہوتا تھا۔ اور تب ساتھ ان کی شخصیت اور باڈی لینگوئج بھی ان کی معاون بن جایا کرتی تھی۔ اور ان کی کھنکتی ہوئی ساحرانہ آواز تو کردار میں جان ہی ڈال دیتی تھی۔ پھر ان کی سرخ ڈوروں والی وہ اداس سی آنکھیں جو خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہتی ہوئیں محسوس ہوتی تھیں۔ اور میں تو بس ایک ہی فلم سے ان کا گرویدہ ہو گیا۔ بلکہ سچ کہوں تو میں نے ان کی صرف، ایک یہی فلم دیکھ رکھی تھی۔

پھر پچھلے سال جب ان کے جسم میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو ایک دفعہ پھر سے دیکھنے کو ملے لیکن خبروں کی حد تک۔ اور تب تک آپ بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ ہمارے بچپن کے ایک مشہور ڈرامہ سیریل “چندر کانتا” میں بھی کردار کر چکے تھے۔

اگر آپ کو یاد ہو تو یہ ڈراما 1996ء کے سن میں بھارتی سرکاری ٹی وی چینل ‘دور درشن’ سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جو ہندی ادب کے اولین ناول نگار دیواکی نندن کھتری کے مشہور زمانہ ناول “چندر کانتا” پر بنایا گیا تھا۔ اس میں تیر تلواروں کا دور دکھایا گیا تھا اور دو ہم شکل جڑواں بھائیوں کے طور پر عرفان خان نے اس میں کردار ادا کیا تھا جن کے نام سومناتھ اور بدریناتھ تھے۔

قارئین ! بچپن کا زمانہ تھا اور ابھی تو سکول میں بھی داخل نہ ہوا تھا تو پھر کیا یاد رہنا تھا کہ عرفان نے اس میں کیا کیا جوہر دکھائے ہوں گے۔ لیکن امید ہے ان جیسے پیدائشی فنکار ہمیشہ اپنے کام کو بہتر طور پر ہی نبھاتے رہے ہوں گے۔ آج ان کی موت کی خبر سنی ہے تو مانو، دل افسردہ سا ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ فلم انڈسٹری کا وہ خلاء ہے جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا اور بالی وڈ میں شاہ رخ خان اور سلمان خان جیسے تو  شاید آتے ہی رہیں گے لیکن عرفان خان جیسا منفرد فنکار شاید ہی صدیوں میں کوئی  آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خواہش ہے جیسے یہ ایک سُچے آرٹسٹ کے طور پر اس دنیا میں خوشیاں بانٹتے رہے ویسے ہی ابدی جنتوں میں، وہاں کے مکینوں کو بھی لبھاتے رہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply