ملا صدرا کے خیالات کی فرسودگی ۔۔۔حمزہ ابراہیم

یہ مضمون ملا صدرا کے دیومالائی خیالات (mythology) کی پڑتال کے سلسلے کا حصہ ہے۔ اگرچہ جدید دور میں ان خیالات کی حیثیت جہلِ مرکب یا شبہ علم کی سی ہے، لیکن ملا صدرا کو اس کا قصور وار اس لئے نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ ان کو اس علم تک رسائی نہ تھی جو ان کی وفات کے بعد دریافت ہوا۔ اگرچہ وہ اپنے مغربی معاصرین سے  بھی پیچھے رہ گئے تھے۔ امید ہے یہ مختصر مضامین حق کے متلاشیوں کو اس سراب سے بچنے میں مدد دیں گے۔

پچھلے مضمون ”سونے کا زرد رنگ اور ملا صدرا کی حرکتِ  جوہری“ میں ہم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سائنس کا نظریۂ نسبیت اور ملا صدرا کا حرکتِ جوہری کا تصور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نظریہٴ نسبیت کے مطابق ہر چیز اپنی نسبت سے حالتِ سکون میں ہے، یعنی غیر متحرک ہے۔ باقی اشیاء کی حرکت مشاہدے کے مقام کے سکون کی نسبت سے سمجھی جاتی ہے۔ عرضی حرکت اجزاء کی مکانی حرکت ہوتی ہے، اور اجزاء اپنی نسبت سے غیر متحرک ہوتے ہیں۔ یہی بات نیوٹن کے پہلے قانونِ حرکت میں بھی بیان کی گئی ہے جس کے مطابق ہر وہ چیز جو ہماری نسبت سے حالتِ سکون میں ہے، ساکن رہے گی جب تک اس پر کوئی قوت عمل نہ کرے۔ اور ہر وہ چیز جو حرکت میں ہے، اس کی حرکت تبھی ختم یا تبدیل ہو گی جب اس پر کوئی قوت عمل کرے۔ چیزوں کو حرکت دینے کیلئے باہر سے توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے۔ نیوٹن نے دوسرے قانون حرکت میں اس قوت کو ماپنے کا طریقہ بتایا، جس کا پہلے قانون میں ذکر ہے۔ ہملٹن صاحب کی مساوات اصل میں نیوٹن کا دوسرا قانون حرکت ہی ہے، جو جدید طبعیات میں توانائی کے بیان کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ اسکے بالکل برعکس ملا صدرا اشیاء کی اصل جوہر کو اور جوہر کو عینِ حرکت مانتے ہیں، کہ جسے حرکتِ جوہری (intrinsic∙mobility∙or∙substantial∙motion) کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں بجلی اور توانائی کا بحران کبھی نہ آتا۔ حقیقت وہی ہے جو نیوٹن نے بیان کی کہ حرکت پیدا کرنے یا اس کو ختم کرنے یا اس کی رفتار میں تبدیلی لانے کیلئے باہر سے توانائی خرچ کرنا ضروری ہے جس کی مقدار معلوم کرنے کیلئے بھی نیوٹن نے ریاضی کی مساوات بنا کر دی۔ اسی پر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دار و مدار ہے۔ ملا صدراکا حرکتِ جوہری کا تصور آغا وقار کی پانی سے چلنے والی کار کی طرح بے بنیاد ہے، جس نے ستمبر 2012ء میں پاکستانی میڈیا میں ہیجان برپا کر دیا تھا۔ ایسے جاہلانہ خیالات نیم خواندہ لوگوں کو مصروف رکھنے کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے۔

حرکت کا نظریۂ نسبیت جنابِ گلیلیو نے دریافت فرمایا تھا جس کی ریاضیاتی مساواتوں میں آئن سٹائن نے تصحیح کی۔ سابقہ مضمون میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سونے کا رنگ اسی صورت میں زرد ہو سکتا ہے اگر اس کے نیوکلیئس اور مشاہدہ کرنے والے شخص کا وقت ایک ہو، اور وہ نسبتاً ساکن ہوں۔ ملا صدرا جوہر کی شدت و ضعف کے قائل ہیں، اور حرکت کو نیاز قرار دیتے ہیں، چنانچہ کمال یافتہ چیزوں کی حرکتِ جوہری سست تر ہو گی اور اس طرح جماد اور انسان کا وقت برابر نہیں ہو سکتا۔ حرکت کی نسبیت ان واضح مثالوں میں سے ہے جہاں ملاصدرا کے خیالات خارجی حقائق کے بالکل متضاد ہیں۔ البتہ حرکت کو نیاز اور سکون کو کمال سے تعبیر کرنا بھی ملا صدرا کی کج فہمی ہے۔ نیز نظریہٴ نسبیت حرکتِ مطلق اور سکونِ مطلق کے تصور کو بھی رد کرتا ہے، اور آئن سٹائن کی تصحیح کے بعد تو زمان، مکان اور مادے کی مقدار بھی نسبی قرار پائے جہاں سے مادے اور توانائی کا تعلق معلوم ہوا کہ جو ایٹمی توانائی کی توجیہ کرتا ہے۔ گویا ملا صدرا کے تصورات کے تابوت میں آخری کیل آئن سٹائن نے ٹھونکی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملا صدرا حرکت کی تعریف میں تعصب (confirmation∙bias) کا شکار ہوئے ہیں، اور جیسا کہ صوفیاء کی روش ہے، انہوں نے پہلے سے طے شدہ نتیجے کے حصول کیلئے حرکت کی غلط تعریف وضع کی۔

سابقہ مضمون میں ہم نے یہ بھی جانا کہ حرکت کی متعدد اقسام نہیں کہ ان میں قدرِ مشترک تلاش کرنا  پڑے اور یوں حرکتِ جوہری کا جواز نکالا جا سکے، بلکہ حرکت ایک ہی قسم کی ہے اور وہ حرکتِ مکانی ہے، چاہے کل کی ہو یا اجزاء کی، اور یہ مادے اور توانائی کے تعامل کے سبب سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ حرکت کی ہر تعریف خارجی حقائق کا مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ کم و کیف و وضع کی حرکت اصل میں اجزاء کی مکانی حرکت کا اظہار ہے۔ پرانے فلاسفہ کے ہاں مکان کو حجم اور زمان کو دورانئے کے طور پر سمجھنا بھی غلطی سے خالی نہ تھا۔ مکان کی درست فہم بھی ڈیکارٹ کے کارتیسی نظام میں حاصل ہوتی ہے۔ آئن سٹائن کے کام کے بعد منکاوسکی نے زمان کو کارتیسی نظام میں شامل کر کے منکاوسکی نظام ترتیب دیا ہے جو زمان و مکان کو ایک ساتھ سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

اس مضمون میں ہم وجود کی اصالت کے مغالطے پر بات کریں گے۔ خارج میں موجود اشیاء پر جب قدیم فلاسفہ نے غور کیا تو کہا کہ اشیاء وجود اور ماہیت کا مرکب ہیں اور ماہیت اعراض اور جوہر کا مجموعہ ہے۔ اب جدید علم کی روشنی میں ہم جانتے ہیں کہ اشیاء مالیکیولز سے مل کر بنی ہیں جو ایٹموں کے مرکبات ہیں اور اعراض ان مالیکیولز کا فعل ہوتے ہیں جو مادے اور توانائی کے تعامل کا نتیجہ ہے۔ یہی انکی ماہیت ہے، جسے اصالت حاصل ہے۔ چنانچہ اندھیرے میں اشیاء کا رنگ ختم ہو جاتا ہے اور درجہٴ حرارت خاص حد تک  بڑھ جائے تو ٹھوس اشیاء مائع حالت میں آ جاتی ہیں۔ وجود ایک اعتباری چیز ہے جو اصل میں اشیا ء کا کلی مفہوم ہوتا ہے اور ہمارے ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور ماہیت سے ہٹ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ جب اجزاء الگ ہو جائیں تو کل کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ کرسی کو توڑ کر میز بنا لیا جائے تو اسکا وجود بدل کر میز بن جائے گا۔ ملا صدرا اس حقیقت کے بالکل الٹ چلے تھے اور اس مغالطے کا شکار ہوئے تھے کہ اصالت وجود کو حاصل ہے۔ بقول حسرت موہانی:

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

اصالتِ وجود(ontological∙primacy) کا مغالطہ تجربی اور نظری، دونوں میدانوں میں علم کا دروازہ بند کر تا ہے۔ اگر اعراض کو ماہیت کے بجائے وجود کا فعل سمجھا جائے تو ان کے بارے میں تحقیق کا دروازہ بند ہو جاتا ہے کیوں کہ وجود تو ہمارے ذہن سے باہر کوئی حقیقت نہیں رکھتاجس کے دوسری اشیاء سے تعامل کا کوئی بندوبست کر کے مظاہرِ فطرت کا مطالعہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف ہمارا ذہن خارجی حقائق کو سمجھنے کیلئے بہت سے کلی مفاہیم پیدا کرتا ہے لیکن ان کو خارجی حقائق کا متبادل فرض کر لینا ان کلی مفاہیم کی اصلاح کا دروازہ بند کرنا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ملا صدرا کے تصورات پچھلے چار سو سال میں فطرت کے کسی ایک مظہر کے بارے میں کسی قسم کی قابلِ تصدیق معلومات فراہم کرنے یا کوئی دقیق پیش گوئی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ملا صدرااصل میں قدیم یونانی فلاسفہ میں سے ناکام ترین شخص افلاطون کی روایت کا احیاء کرنے والے فلوطونس (plotinus، متوفٰی 270ء) کے پیرو تھے جو ڈارک ایجز کے بانیوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ سابقہ مضمون میں بیان ہوا، ملا صدرا شیعی دنیا میں سائنسی تحقیق کا خاتمہ کر کے انہیں اوہام اور افسانہ طرازی کی کھائی میں دھکا دینے والی شخصیت ہیں۔

اب جوہر کی طرف آتے ہیں۔ قدیم فلاسفہ کے ہاں جس کو جوہر کہا جاتا تھا اس کا قیاس مالیکیولز کے مرکب پر درست نہیں ہے۔ وہ جوہر کو بسیط سمجھتے تھے لہٰذا جوہر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اشیاء کی ماہیت اصل میں مالیکیولز کا مرکب اور اس کے ماحول میں موجود توانائی سے تعامل کے نتیجے میں صادر ہونے والے اعراض کا مجموعہ ہے۔ ایک مثال سے شاید بات واضح تر ہو جائے۔ جب ماں کے شکم میں حمل ٹھہرتا ہے تو وہ فقط باپ کے نطفے سے نہیں بنتا بلکہ جدید سائنس نے بتایا ہے کہ ماں کا بیضہ، جو اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف خورد بین سے نظر آ سکتا ہے، اس سے جب باپ کے نطفے کا ایک سپرم ملتا ہے تو ان کا مرکب یک خلوی بچہ (زائیگوٹ) بنتا ہے جو نو ماہ رحمِ مادر میں نشو و نما کر کے جنم لیتا ہے۔ بیضہ اور سپرم دونوں زندہ ہوتے ہیں اور انکی حیات ماں اور باپ کی حیات کا تسلسل ہوتی ہے۔ اگر جوہر حقیقت رکھتا تو ان دونوں کے جواہر بھی ہوتے اور ان سے ملنے والے زائیگوٹ کا جوہر ان دونوں جواہر کا مرکب ہوتا جس سے اس کا بسیط ہونا محال ہو جاتا۔ اگر جوہر کو مختلف قسم کے مالیکیولز کا مرکب مانا جائے تو پھر تو حرکتِ جوہری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

جدید سائنس نے یہ بھی بتایا ہے کہ جب مالیکیولز کو ملا کر کوئی شے بنتی ہے تو اسکی ایک کلی شناخت ہوتی ہے۔ لیکن جب مالیکیولز اس کل سے الگ ہوں تو وہ کوئی شناخت نہیں رکھتے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل مساوات میں بیان ہوئی ہے:

یہاں P شناخت کی تبدیلی کا اور H توانائی کا تفاعل ہے۔ تفصیلی بحث کوانٹم فزکس کی کسی کتاب میں جسیمات متماثلہ (quantum∙indistinguishable∙particles) کے ابواب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے جسمِ عنصری کی تکرار کا مغالطہ بھی حل ہو جاتا ہے اور یوں معاد کے معاملے میں ملا صدرا کے جسمِ مثالی والے مفروضے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ جب چھوٹے ذرات کسی بدن سے الگ ہوتے ہیں تو انکی کوئی شناخت نہیں ہوتی، انہیں کسی بدن سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی کل شناخت رکھتا ہے مگر مالیکیولز خود کوئی تشخص نہیں رکھتے۔ صدرائی تصوف کی ایک اور غلط فہمی وقت کے قدیم ہونے کی ہے، جسے بگ بینگ کے انکشاف نے غلط ثابت کر دیا ہے۔

اب ایک نظر علمیات پر ڈالتے ہیں۔ ملا صدرا کا نظریۂ علم شیخ اشراق سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ وہ علمِ حصولی کے ساتھ ساتھ علمِ حضوری اور علمِ شہودی کے بھی قائل ہیں۔ علمِ حصولی سے مراد وہ علم ہے جو انسان اپنے دماغ کی مدد سے خارجی حقائق کا تجزیہ و تحلیل کر کے حاصل کرتا ہے۔ اس میں غلطی کا امکان بہت ہوتا ہے اسی لیے اس کے پیش گوئی کے قابل ہونے کا اثبات کرتے رہنا چاہئیے اور کلی قواعد میں ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئیے۔ علمِ حضوری اور علمِ شہودی محض وہم ہیں۔ ملا صدرا جس دور میں گزرے ہیں اس وقت سائیکالوجی اور نیورو سائنس میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی تھی لیکن اب ہمیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ جن چیزوں کو علمِ حصولی سے الگ سمجھا گیا وہ اصل میں علمِ حصولی میں شامل تھیں یا نفسیاتی گرہیں تھیں جو کثرت ریاضت کی وجہ سے کسی مرتاض کے ذہن کو لاحق ہو جاتی ہیں اور وہ خود کو بادشاہ یا عارف سمجھنے لگتا ہے۔

یہاں کچھ مصادیق پر مختصر تبصرہ کر کے امید کی جاتی ہے کہ قاری صوفیانہ علمیات کی باقی گتھیاں خود سلجھا لے گا۔ بدیہیات ہمیشہ صحیح نہیں ہوتیں۔ ایک ان پڑھ آدمی کیلئے یہ بات بدیہی ہے کہ زمین سورج سے بڑی ہے، لیکن سائنس نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ اپنے ہونے کا احساس بچے میں پہلے دو سے تین سال میں اپنے جسم کا ناگزیر تجربہ کر کے پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی بچہ کومے کی حالت میں پیدا ہو اور وہ کئی سال بعد کومے سے باہر آ جائے تو وہ بھی چھوٹے بچوں کی طرح اپنے ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کو غور سے دیکھے گا اور اسے بھی اپنی کلی تصویر بنانے میں بہت وقت لگے گا۔ رہی درد کے احساس کی بات تو وہ دماغ میں عصبی پیغام پہنچنے کے بعد پیدا ہونے والا ردعمل ہے۔ جدید سائنس نے اسے سمجھ کر درد کش ٹیکے ایجاد کئے ہیں جن کے استعمال سے ایسا ممکن ہوا ہے کہ جراحی کے عمل کو درد کے احساس کے بغیر مکمل کیا جا سکے۔ اس سے صوفیا کی یہ غلط فہمی دور ہوتی ہے کہ علمِ حضوری خطا سے پاک ہوتا ہے۔ گرمی کے احساس کو علمِ حضوری نہ سمجھنا بھی اس گروہ کا ایک کھلا تضاد ہے جبکہ درد اور گرمی، دونوں احساسات عصبی نظام ایک ہی طریقے سے دماغ تک پہنچاتا ہے، اور دونوں صورتوں میں خاص ادویات کے ذریعے انسان کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ علم تصویر کے بغیر ہی ہوتا ہے، دماغ میں برقی ترتیب کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کا وسیلہ عصبی نظام ہی ہے اور اس میں خطا کا امکان بھی ہوتا ہے۔ منطقی بدیہیات کو ہر بچہ بچپن کے ناگزیر تجربات سے سیکھتا ہے۔ بچے کو کسی گرم چیز کو چھو کر پتا چلتا ہے کہ وہ سرد نہ تھی۔ علت و معلول کا تعلق بھی تجربے سے سیکھتا ہے۔ جزو کے کل سے چھوٹا ہونے کا علم بھی کوئی لدنی علم نہیں، ان اصطلاحوں کی تعریف کا معاملہ ہے۔ بچہ پیدا ہونے سے ہی ہر جزو کو کل سے چھوٹا دیکھتا ہے۔ ہم چیزوں کے حصوں کو انکا جزو قرار دیتے ہیں تو ان کے چھوٹا ہونے کی بنیاد پر ہی قرار دیتے ہیں۔ بچے نے اجتماعِ نقیضین کا تجربہ نہ کرنے سے اس کو محال سمجھا۔ روزمرہ کے تجربے سے حاصل ہونے والی منطق کو خطا ناپذیر سمجھنا بھی فاش غلطی ہو گی۔ اس کے بہت سے اصول ریاضی میں ٹوٹ جاتے ہیں جیسے لامتناہی سلسلے کا جمع ہونا یا کسی لامتناہی حد والے انٹگرل کا حل ہو کر ایک عدد کی شکل میں نتیجہ دینا کہ جو تسلسل کے امکان کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح جو چیزیں کوانٹم فزکس اور نظریۂ نسبیت نے بتائی ہیں ان کی توجیہ روزمرہ کے منطقی قاعدوں سے نہیں کی جا سکتی۔ علت و معلول کی ترتیب بھی کوانٹم  فزکس کے بعض مظاہر میں الٹ جاتی ہے، نینو میٹر سے چھوٹی چیزوں میں وجود اور عدم باہم آمیختہ ہوتے ہیں۔ منطقی بدیہیات نسبی طور پر برحق ہیں لیکن مطلق سچائیاں نہیں، کیونکہ خاص شرائط میں بہت چھوٹے ذرات کیلئے خاص ریاضیاتی اصول انکی جگہ لے لیتے ہیں۔ ریاضی کو بھی علمِ حضوری نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ایک قسم مہمل ریاضی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ نیز یہ دماغ کا فعل ہے۔ اگر دماغ کو چوٹ آ جائے تو بھول جاتی ہے۔ اگر برابر مشق نہ کی جائے تو بھول جاتی ہے۔ مادی کتاب پر مادی سیاہی سے لکھے ہندسوں اور مساواتوں کے بغیر ریاضی سیکھنا اور کرنا ناممکن ہے۔

جب ہم یہ دیکھیں کہ ایک طرف سائنس کے کلی اصول ہیں جن کی پیش گوئیوں کے مطابق دنیا میں نئی چیزیں بنائی گئی ہیں اور وہ کلی اصول مظاہرِ فطرت کی صحیح پیش گوئی اور باہمی طور پر ہم آہنگ تشریح کرنے کے قابل ہیں اور دوسری طرف ان کے بالکل متضاد ملا صدرا کے خیالات ہوں تو حق کس طرف ہے؟ اس کا فیصلہ اس بات کو سمجھنے سے ہو گا کہ خدا اپنی مخلوق سے مظاہر فطرت کے ذریعے سے جو کہہ رہا ہے وہ حق ہے، جیسا کہ قرآن میں بھی آفاق کی آیات کا ذکر آیا ہے (سورہ فصلت، آیہ 53)۔ سائنس کے اصولوں کی بنیاد پر ہی انسان خلا میں راکٹ بھیجنے اور ہزاروں میل دور سے ویڈیو کال کرنے جیسے فطری پابندیوں سے آزاد ہونے والے کارنامے انجام دے پایا ہے (سورہ الرحمٰن، آیہ 33)۔ نیز یہ کہ اگر علمِ حضوری وغیرہ کی شکل میں خطا ناپذیر علم ہر انسان کی دسترس میں ہو تو اختلاف ختم ہو جائے اور ہادی کی ضرورت صوفی بابے پوری کر دیں۔

اصالتِ وجود کی غلط فہمی سے صدرائی بابے مراحلِ اخلاق اور مراحلِ سلوک کی توجیہ بھی بناتے ہیں۔ انسان علم مراحل میں حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ذہن میں معلومات کے ذخیرے کے بڑھنے سے ہے، لیکن اخلاق کا تعلق غرائز  سے ہے جو جسم کے سبھی انفعالات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ علمی مراحل کا اخلاقی مراحل پر قیاس درست نہیں۔ انسان مرکب ہے۔ علم کا لازمہ اخلاقی بلندی نہیں، نہ اخلاقی اعتبار سے اچھا ہونے کا لازمہ علمی پیشرفت ہے۔ جو علم انسان سیکھتا ہے وہ اس کا حصہ بن جاتا ہے، لیکن ماہیت کے ایک حصے کو اس کا جوہرِ بسیط قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ انسانوں میں علم کی بنیاد پر درجات ہو سکتے ہیں لیکن اخلاق اور سیاسی معاملات میں سب برابر ہیں۔ اسی لیے جب قومی ریاست کا تصور ابھرا اور آئین کی شکل میں سماجی معاہدہ تشکیل پایا تو سب شہریوں کو سیاست میں برابر  قرار دیا گیا۔

مراحل میں اخلاقی پیشرفت کا مغالطہ صوفی میں خود پسندی پیدا کرتا ہے، وہ جوں جوں نام نہاد سیر و سلوک میں آگے جاتا ہے توں توں متکبر ہوتا جاتا ہے۔ اگر وہ سیاست میں آئے تو خود کو معصوم نہ سہی، محفوظ ضرور سمجھ لیتا ہے اور دوسروں کو کمتر سمجھ کر اجتماعی فیصلوں میں اپنی دھونس چلانا چاہتا ہے۔ اسی لئے فاشزم کو سیاسی تصوف بھی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ قم کے صوفیا، مصباح یزدی اور جوادی آملی وغیرہ، کے سیاسی تصورات نازی جرمنی کی سیاسی غلط فہمیوں کا عکس ہیں۔ افلاطون صاحب، کہ جن کو بابائے تصوف بھی کہا جاتا ہے، نے بھی مدینہٴ فاضلہ (utopia) کا خیال پیش کیا تھا جو ان کی زندگی میں ہی خارجی حقائق کے برعکس ثابت ہو گیا تھا جب ایک یونانی راجا ’دیانوسس‘ نے انہیں ’سیراکوس‘ کو ایسا مثالی شہر بنانے کا موقع دیا۔ ریاست کو یکساں روبوٹ بنانے کا کارخانہ سمجھنا بہت خطرناک تصور ہے جو اکثر نسل کشی کا سبب بنا ہے۔

ملا صدرا کے خیالات کو 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد جدید علوم کے مقابلے میں زور و شور سے پیش کیا گیا لیکن وہ عملی طور پر بالکل بے کار ثابت ہوئے۔ ایران کے کسی صنعتی، معاشی، سیاسی، انتظامی یا ثقافتی مسئلے کی پیش گوئی کرنے اور ان کا حل دریافت کرنے میں یہ خیالات ناکام رہے۔ ایران کے بنکوں میں اب بھی ربوی نظام ہے اور ایران کی یونیورسٹیوں میں آج بھی جدید علوم ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ اجتماعی مسائل کا حل کرنا تو دور کی بات فرد کی سطح پر بھی ایرانی نفسیاتی معالج ملا صدرا صاحب کے بجائے فرائیڈ اور جدید ماہرین  نفسیات کے وضع کردہ طریقہ علاج کی مدد سے ہی اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ البتہ قم میں سرکاری مولویوں کی ایسی کھیپ ضرور تیار ہو گئی ہے جو ملا صدرا کی پرانی عربی کی عبارتوں سے کھیلنے اور لفظی جدل کو علم سمجھتی ہے۔ چنانچہ اہل تشیع کے دوسرے بڑے مرجع آیت اللہ وحید خراسانی نے اس سرکاری تصوف بازی کو کشک، یعنی زبان کا چسکہ، قرار دیا ہے۔ گذشتہ چار سو سال میں صدرائی تصوف نے جہل مرکب اور توہم و تکبر کے سوا کچھ نہیں دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان دو مضامین کا مقصد ملا صدرا کے بنیادی تصورات کے غیر علمی ہونے کی وضاحت کرنا تھا۔ ہم سب کے کئی تصورات غیر علمی ہو سکتے  ہیں، اور ملا صدرا کے دور میں جب علم اتنا پھیلا نہیں تھا، ان کے تصورات کا غلط ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ ان مضامین کا مقصد صرف علمی تنقید اور اتمامِ حجت ہے۔ آجکل غامدی صاحب صوفیا کو اسلام کے متوازی فرقہ کہہ کر ان کی تکفیر کر رہے ہیں۔ یہ ایک غلط روش ہے۔ ہمیں صوفیا کے مغالطوں کو سمجھنا اور حل کرنا چاہئے لیکن ان کے انسانی حقوق، عقیدے اور رائے کی آزادی کے حق کا احترام کرنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انکا مسلک ہم سے الگ ہے، لیکن ان کو اسلام سے خارج قرار دینا قتل جیسے سنگین جرائم کی بنیاد بن سکتا ہے۔ احادیث میں تکفیر کی مذمت آئی ہے۔ تصوف کے بارے میں اکثر شیعہ متکلمین کی رائے جاننے کیلئے مولانا نعمت علی سدھو کی کتاب ”تحفۂ صوفیہ“ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply