برطانوی مسلمان دوسرے درجے کے شہری قرار

(نامی نگار /فرذانہ افضل)نیشنلٹی اور بارڈر بل کے لوگوں سے نیشنلٹی چھیننے کے اختیارات میں توسیع کا ہدف خاص طور پر مسلمان ہیں۔ ذرائع کے مطابق 80  فیصد برطانوی مسلمانوں کی شہریت کو کم کر کے دوسرا درجہ دے دیا گیا۔ انسٹیٹیوٹ آف ریس ریلیشنز ( آئی آر آر ) کا کہنا ہے کہ ایسی طاقتوں کا نشانہ زیادہ تر صرف مسلمان ہیں۔ جن میں اکثریت کا تعلق جنوبی ایشیائی ورثہ سے ہے۔ اس قانون کا مقصد امتیازی سلوک اور کم تر شہریت کو متعارف کروانا ہے۔ آئی آر آر نے 11 ستمبر کو شمیمہ بیگم کے متنازع کیس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے، شمیمہ بیگم جس کو 15 سال کی عمر میں سمگل کر کے اسلامی ریاست پہنچا دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ نیشنلٹی اور بارڈر بل ایکٹ کے تناظر میں جس میں متعلقہ شخص کو مطلع کیے بغیر شہریت چھینے کی اجازت دی تھی اب قانون کی کتابوں پر آ رہا ہے۔ آئی آر آر کے وائس چیئرمین فرانسس ویبر نے اس بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے یہ شہریت سے محرومی کے اس 2002 میں بنے قانون اور اس کے نفاذ کا پیغام خصوصی طور پر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف بھیجا گیا ہے۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ برطانوی پاسپورٹ ہونے کے باوجود بھی یہ لوگ نہ تو آبائی شہریوں کی طرح حقیقی شہری بن سکتے ہیں اور نہ ہی آبائی باشندوں کی برابری کر سکتے ہیں۔ جبکہ ایک آبائی برطانوی شہری جس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے، اگر کسی خطرناک جرم کا ارتکاب بھی کرے تو بھی اس کی شہریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ اندازا ًچھ ملین یعنی 60 لاکھ برطانوی شہری جن کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل ہے برطانوی شہریت کی دائمی نوعیت پر اعتماد محسوس نہیں کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برطانوی حکومت کا دعویٰ  یہ ہے کہ یہ اختیارات صرف ان لوگوں کے خلاف استعمال کئے جائیں گے جو قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں یا جنہوں نے گھناؤنے جرائم کیے ہیں۔ جب کہ انسٹیٹیوٹ آف ریس ریلیشنز آئی آر آر کی رپورٹ “شہریت، استحقاق کا حق” کا موقف یہ ہے کہ بعض لوگوں کو دوسرے درجے کی قابل تلف اور عارضی نوعیت کی شہریت دی گئی ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply