اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔۔شائستہ مبین

ایک بار کسی کہنے والے نے ایک جملہ کہا تھا کہ” بلوچستان کو لاشیں رقبے کے لحاظ سے ملتی ہیں اور فنڈز آبادی کے لحاظ سے ملتے ہیں “،پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں ، فلڈ کیمپ اور امدادی سرگرمیاں دیکھ کر ایمان پختہ ہوگیا کہ ہاں شاید  بلوچستان بھی ایسے تباہ کُن سیلاب میں ایک بار پھر روایتی سلوک کا شکار ہوگیا ہے ،یہی سوچ کر ٹوئٹر کھولا کہ دل کا غُبار نکال سکوں کیوں کہ مین سٹریم میڈیا تو سیلاب کی کوریج کرنہیں رہا ،ہر طرف لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں لیکن ٹویٹر پر پہلی ٹوئیٹ رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب صاحبہ کی نظر آئی جس میں وہ ڈی سی سبی منصور قاضی کو اُنکی سیلاب زدگان کی مدد کے حوالے سے خراج ِ تحسین پیش کررہی ہیں، ٹوئیٹ میں یہ بتایا گیا کہ ناڑی روڈ پر سیلاب کی وجہ سے تین سو فُٹ گہرے شگاف کو 48 گھنٹوں کی اَنتھک محنت سے پُر کرکے سبی شہر کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا لیا گیا، اور اِس امدادی کام کی نگرانی منصور قاضی نے بذات ِ خُود کی ۔

ٹوئیٹ پڑھ کر کچھ تسلی ہوئی لیکن ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس موضوع پر سیاسی سوشل میڈیا ہینڈلز کی مجرمانہ خاموشی سے دل اک عرصے سے اچاٹ ہے، سوچا خود بھی ڈی سی صاحب کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ۔

تحقیق شروع کی تو ابتداء  میں جو بات نہایت خوش آئند محسوس ہوئی وہ ڈپٹی کمشنر منصور قاضی کا متاثرہ علاقوں میں بوائے سکاؤٹس اور گرل گائیڈز کو فعال کرنا اور بحالی کے کاموں کا اختیار دینا تھا،جہاں بوائے سکاؤٹس امدادی سرگرمیوں میں فرنٹ لائن پر موجود تھے وہیں گرل گائیڈز بھی خواتین کی مدد کے لئے موجود تھیں، لیڈی ہیلتھ وزٹرز اور نرسز کے ہمراہ گرل گائیڈ زمستورات کو سینٹری اور میٹرنٹی کٹس بانٹتی بھی رہیں اور آگاہی بھی دیتی رہیں۔ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں خواتین کو ایسی تحریکوں میں اپنے شانہ بشانہ کھڑا کرنا واقعی ایک نہایت احسن قدم ہے ۔

دوسری طرف جب کیمپس میں ملیریا کی وبا پھیلی تو انکے لیے فوری میڈیکل کیمپ کا قیام، ڈاکٹرز ،لیڈی ہیلتھ ورکرز اور خواتین کیلئے میٹرنٹی کیمپ قائم کئے گئے جہاں لیڈی ڈاکٹرز اور کمیونٹی مڈ وائف کی سہولیات فراہم کی گئیں اور انہی کیمپس میں  خواتین نے کئی بچوں کو جنم بھی دیا ۔

سیلاب سے متاثرہ بے گھر بچوں کی کاؤنسلنگ کیلئے کیمپس میں سکول بنائے گئے اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امدادی کاموں کی نگرانی کرنے والوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ سیلاب سے متاثرہ خاندان اور خصوصاً  بچے ان حالات کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت کا شکار تھے اور انہیں کتابیں اور سٹیشنری بھی فراہم کی گئی، اسی دوران جب کرکٹ میچز شروع ہوئے تو سیلاب متاثرین کی دلجوئی کے لئے ان کو کیمپس میں سکرینز پر کرکٹ میچ لائیو سٹریم کرکے دکھائے گئےنیز اُنہیں وبائی امراض سے بچانے کیلئے صحت و صفائی سے متعلق ورکشاپس اور سامان فراہم کیا گیا، کیمپس کے پاس ہیئر ڈریسر مہیا کیے گئے، مچھر دانیاں اور دیگر ادویات بھی دی گئیں اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ بچوں اور خواتین کو اس آزمائش کے دوران آسانیاں فراہم کی جائیں ۔

حکومت کی طرف سے ان کیمپس کے متاثرین کیلئے 800 راشن بیگ فراہم کیے گئے تھے لیکن منصور قاضی نے اپنے دوستوں کی مدد سے مزید 900 خاندانوں کیلئے راشن اور رہائش کا بندوبست کیا، اور اس کارِ  خیر میں اپنا حصہ ملانے کے لئے لاہور،اسلام آباد اور فیصل آباد سمیت ملک بھر کے دوست معاونت کیلئے آگئے۔اس سے قبل بھی پولیوبھی پولیو مہم اور پسماندہ علاقوں میں اس متعلق آگاہی میں ڈی سی سبی کا ایک نمایاں نام اور کام سامنے آیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں عوام اپنی مدد آپ کے تحت خود سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کی بحالی اور مدد کے کام کررہی ہے وہیں نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مس وزیر اور سبی کے ڈپٹی کمشنر منصور قاضی نے عوام کے تحفظ کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ ہمارے ملک کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہیں۔ ہم سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کام کرنے والے ان تمام ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو مشکل کی اس گھڑی میں عوام کی مدد کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔ جہاں حکومتی ایوانوں میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے لٹ جانے کی خبر سیلاب کا پانی اتر جانے کے بعد پہنچی وہاں ایسے لوگ قابل تحسین ہیں جو اپنا فرض نبھا رہے ہیں اور اپنی اولادوں کو کسب حلال سے پال رہے ہیں۔ منفی تنقید ہمارے ارد گرد منفی رویوں کو پروان چڑھاتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ مثبت رویے پس پشت چلے جاتے ہیں ۔ منصور قاضی اور محترمہ وزیر جیسے مثبت محرک معاشرے کی ضرورت ہیں ان کی نشاندھی ہمارے اندر تحریک پیدا کر سکتی ہے۔ آئیے اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں تاکہ تاریکیوں کے گہرے بادل چھٹ جائیں۔

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply