پوٹھوہاری زبان و ادب کا اجمالی جائزہ۔۔۔ فرزند علی ہاشمی

 

پوٹھوہار کا تعارف:
خطہ ء پوٹھوہار دنیا کے مشہور ترین سطح مرتفع میں شامل ہے ۔ اکرام الحق راجہ کے مطابق سطح مرتفع وہ علاقہ ہوتا ہے جو ارد گرد کی زمین سے یک لخت بلند ہوتاہو اور سطح سمندر سے اس کی بلندی کم از کم ایک ہزارفٹ ہو۔ عزیز ملک کے بقول پوٹھوہار کا لفظ پوٹھ اور ہار کا مرکب ہے جو درحقیقت پٹھ آر تھا۔ پٹھ کے معنی پشت کے ہیں جبکہ آر کا مطلب ’’کی طرح یا کے جیسا‘‘ کے ہیں۔ یہ نام اس خطے کی زمینی ساخت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ زمین نشیب و فراز کے باعث ناہموار ہے جب کہ راجہ عارف منہاس کے نزدیک سرزمین پوٹھوہار کا نام بھٹی راجپوتوں کی وجہ سے بھٹی وار پڑا جو بعد ازاں ٗ پوٹھوہار کہلانے لگا کیونکہ طویل مدت تک بھٹی راجپوتوں نے یہاں حکومت کی ،اسی لئے اسے پوٹھوہار کا نام دیاگیا۔ اس دور میں موجود پوٹھوہار کا علاقہ ان کی سلطنت میں شامل تھا جبکہ دیگر پاک وہند کے علاقوں پر دوسرے راجے حکمران تھے۔ بھٹیوں کا مرکز حکومت کابل تھا جس میں ہندوستان کا خطہ ء پوٹھوہار بھی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے باقی تمام حکمران اس خطے کو بھٹی وا ر کہنے لگے۔ یہ علاقہ ہندوستان سے کٹ کر ایک الگ حیثیت رکھتا تھا اور اس کا نام ’’بھٹی وار‘‘ پڑ گیا۔ تاہم پوٹھوہار کے متعلق پہلی روایت زیادہ جاندار معلوم ہوتی ہے۔
حدود اربعہ:
پوٹھوہار کے حدود اربعہ کے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔پروفیسر کرم حیدری کے مطابق ضلع جہلم کے مضافاتی علاقہ جات سوہاوہ اور بکڑالہ پہاڑیوں سے لے کر شمال میں مارگلہ پہاڑیوں تک کوپوٹھوہار کہا جاتا ہے جبکہ مغرب میں اس کی حدود راولپنڈی اور گوجر خان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی ضمن میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی ہتھیہ سے مارگلہ تک کو ہی پوٹھوہار کہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حدود وسیع ہوتی گئیں اور دریائے جہلم اور دریائے اٹک کے درمیانی علاقے کو پوٹھوہار کہا جانے لگا۔ پوٹھوہار کی تاریخ بارے کرم حیدری خامہ فرسائی اس طرح کرتے ہیں: ’’تاریخی شواہد کے اعتبار سے بھی پوٹھوہار عام طور پر اسی علاقے کا نام رہا ہے جو دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کی آمد سے پہلے بھی اس علاقے کو پٹوار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں: ’’آج کل کے پڑھے لکھے لوگ جو اس علاقے کی تاریخ سے بھی کسی قدر واقف ہیں، دریائے جہلم سے لے کر دریائے سندھ تک اور مری کی پہاڑیوں سے لے کر سون سکیسر کی پہاڑیوں تک کے علاقے کو پوٹھوہار مانتے ہیں۔ ان لوگوں کے نقطہء نظر کے مطابق آب وہوا، طبعی حالات، رسم ورواج اور لسانی ہم آہنگی بلکہ لوگوں کے مزاج اور کردار کی ہم رنگی کے اعتبار سے یہ تمام علاقہ ایک ہے۔‘‘۔ اس بارے میں’خیابانِ مری‘ میں لطیف کاشمیری کا خیال ملاحظہ کیجئے:’’پوٹھوہار کی قدیم تاریخ دراصل ٹیکسلا کی تاریخ ہے جو یونانی اور چینی مورّخوں کے مطابق دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان کے پورے علاقے کی راجدھانی تھی۔ پوٹھوہار کے علاقے میں راولپنڈی، گوجرخان، کہوٹہ اور دریائے جہلم سے لے کر دریائے سندھ تک کے علاقے شامل تھے۔ مری کے پہاڑی سلسلوں سے سون سکیسر کے پہاڑی سلسلوں تک کا تمام درمیانی علاقہ بھی پوٹھوہار میں شامل تھا‘‘۔
افضل پرویز کے نزدیک دریائے جہلم اور دریائے سندھ کا درمیانی علاقہ اور مری سے سون سکیسرتک کا علاقہ پوٹھوہار سمجھا جاتا ہے جو جغرافیائی لحاظ سے بھی باقی ماندہ پنجاب کے مقابلے میں بہت منفرد اور مسحور کن ہے۔ جہاں سواں ندی کی وادی پچاس ہزار سال کی تاریخ پر محیط ہے ،وہاں دھنی کا سالٹ رینج پچھلے پانچ ہزار برسوں کی تہذیب و تمدن کا عکاس ہے۔ ایک جانب آریائی شاعروں نے رگ وید کے منتر لکھے تو دوسری جانب قدیم ٹیکشاسلا یونیورسٹی کے ثمرات دور دراز علاقوں تک پہنچے ۔ پروفیسر کرم حیدری کے خیال میں رگ وید کے زمانے میں اگر مختلف علوم کی ترقی کے بارے بات کی جائے تو فنون لطیفہ میں خاص طورپر شاعری کو ممتاز مقام حاصل تھا اوراس حوالے سے نظموں کے مجموعہ ’’رِک سہنیا‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی جس کا موضوع دیوی دیوتائوں کی تعریف و توصیف تھا۔
پوٹھوہاری زبان:
وقتاََ فوقتاََ اخبارات و رسائل میں پوٹھوہاری زبان سے متعلق آرا پڑھنے کو ملتی ہیں کہ پوٹھوہاری علیحدہ زبان نہیںبلکہ پنجابی زبان کا ایک لہجہ ہے جو خطہء پوٹھوہار میں بولا جاتا ہے۔اس ضمن میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ زبان کے لئے ترجمے کی ضرورت پیش آتی ہے، بصورتِ دیگر اسے زبان نہیں، بولی کہا جائے گا۔ نیز جب دو مختلف زبان سے متعلقین ایک دوسرے کی بات سمجھ جائیں تو ان کی بات چیت کو بولی کہا جائے گا، زبان نہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکور اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو اردو اور پنجابی زبان کو ہم بیک وقت سمجھتے، لکھتے اور پرھتے بھی ہیں، ہمیں کسی سطح پر ترجمے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس طرح اردو اور پنجابی کو الگ الگ زبانیں کیسے تصور کر لیا جائے؟ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زبانیں تحریری صورت میں جلوہ گر ہوتی ہیں اور معیاری ادب کی حامل ہوتی ہیں نیززبان اور بولی میں فرق کے باب میں یہ رائے پیش کی جاتی ہے کہ ایک زبان بولے جانے کے علاوہ لکھی بھی جاتی ہے جب کہ بولی کا تعلق محض بولنے کی حد تک ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے پوٹھوہاری بولی نہیں بلکہ زبان کا درجہ رکھتی ہے جو کم و بیش یک صدی سے لکھی جا رہی اور مختلف صورتوں میں ادب پیش کیا جا رہا ہے۔تاہم پوٹھوہاری زبان سے متعلق فاضل محققین اور مئورخین کی آرا ملاحظہ کیجیے: لطیف کاشمیری ’خیابانِ مری‘ میں لکھتے ہیں: ’’مری کی زبان پوٹھوہاری زبان ہی کی ایک الگ شاخ ہے اور لب و لہجہ کے معمولی علاقائی تفاوت کے ساتھ برصغیر کے اکثر شمال مشرقی پہاڑی علاقوں میں بولی جاتی ہے‘‘۔ ’بن پھلواری‘ از افضل پرویز کے دیباچے میںاحمد سلیم رقم طراز ہیں: ’’پوٹھوہاری دھرتی جغرافیائی اعتبار سے بھی باقی پنجاب سے بڑی مختلف اور دلآویز ہے‘‘۔ ’گلِ صحرا۔آغا ضیا‘ میں امجد اقبال کا خیال دیکھیے: ’’راول پنڈی اور گرد و نواح کے علاقوں میں جو زبان بولی جاتی ہے، اسے پوٹھوہاری کہتے ہیں۔ اس زبان کا تذکرہ ’تزکِ جہانگیری‘ میں بھی ملتا ہے‘‘۔ زبان کے حوالے سے حبیب شاہ بخاری اپنی کتاب ’’بھٹھوار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پوٹھوہاری زبان نہ صرف پوٹھوہار میں بولی جاتی ہے بلکہ پوٹھوہاریوں کی نمائندہ زبان ہے جو اپنی ہئیت ترکیبی، اپنی شیرینی اور اپنی لذت کی وجہ سے اپنی شناخت آپ ہے۔ یہ اپنی اصلی اور قدیم حالت میں موجود ہے جو کہ سنسکرت کا ہی ایک رُوپ ہے جسے خطہء پوٹھوہار کی اکثریت بولتی ہے بلکہ معمولی تغیر سے آزاد کشمیر کے علاقہ اندرہل، سہنسہ اور کوٹلی تک بولی جاتی ہے‘‘۔پنجابی اور پوٹھوہاری میں ٖفرق کے ضمن میں آپ مزید لکھتے ہیں ’’پنجابی درحقیقت دوآبہ کی زبان ہے، مرکزی لاہوری ٹکسالی پنجابی سے الگ ہے جبکہ جانگلی پنجابی ان دونوں سے مختلف ہے۔

پوٹھوہاری زبان خود مرکزی ٹکسالی زبان ہے‘‘۔ ان کے مطابق مغلیہ دور سے پوٹھوہار، صوبہ پنجاب میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ پوٹھوہار کو پنجاب کا اور پوٹھوہاری کو پنجابی کا ایک حصہ گردانا جاتا ہے۔ منشی چند امین نے اپنے سفرنامے مطبع 1859ء میں بھی لکھا کہ سلطان محمود غزنوی نے پوٹھوہار کو صوبہ کشمیر سے علیحدہ کر کے گکھر شاہ کو تفویض کیا تھا۔پروفیسر کرم حیدری اپنی کتاب ’’سرزمینِ پوٹھوہار‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’پوٹھوہار کے علاقے میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، اس پر فارسی زبان کے عمل دخل سے پوٹھوہاری زبان وجود میں آئی، جو پراکرت بھی تھی، وہ سنسکرت کی ہی شاخ تھی۔۔۔مغلوں کے زمانے تک یہ زبان بیشتر ارتقائی مراحل طے کر چکی تھی اور اس کی ہئیت و ترکیب اس وقت تک متعین اور متشکل ہو چکی تھی۔ چنانچہ جہانگیر اپنی توزک میں جس زبان کو گکھڑوں کی زبان کہتا ہے ، وہ یہی پوٹھوہاری زبان ہی تھی‘‘۔’تاریخِ راولپنڈی‘ میں راجہ محمد عارف منہاس کے مطابق ’’اس خطہ کے نام کی مناسبت سے زبان اور ادب کا نام بھی پوٹھوہاری زبان و ادب ہے جو پنجاب کی دیگر زبانوں سے مختلف ہے‘‘۔ اس حوالے سے افضل پرویز اپنی کتاب ’بن پھلواری‘ میں لکھتے ہیں: ’’مختلف تاریخی شواہد کی رُو سے پوٹھوہار دریائے سندھ اور ہڈاسپس(جہلم) کا درمیانی علاقہ ہے۔ یہی علاقہ سندھ ساگر دوآب بھی ہے‘‘۔ ڈاکٹر محمد یٰسین ظفر اپنی کتاب ’پوٹھوہار دی پنجابی شاعری‘ میں پوٹھوہار کی لسانی و ادبی حدود یوں بیان کرتے ہیں: ’’مغرب سے دریائے سندھ، جنوب مشرق سے کوہستان نمک اور شمال مشرق سے آزاد کشمیر کا وہ علاقہ جہاں کشمیری زبان کی حدود شروع ہوتی ہیں اور اس طرح اس میں یہ علاقے شامل ہوں گے‘‘۔پروفیسر کرم حیدری پوٹھوہاری زبان سے متعلق لکھتے ہیں:’’چونکہ پوٹھوہاری زبان کا اپناایک مستقل ذخیرۂ الفاظ موجود ہے۔ افعال کی بناوٹ اور ضمائر کی ساخت کے قاعدے بھی اس کے اپنے ہیں اور اس کے اپنے مستقل ذخیرۂ الفاظ کے اندر تصانیف نظم و نثر بھی ملتی ہیں۔ اس لیے اصولِ لسانیات کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ایک مستقل زبان ہے ‘‘۔

اختر امام رضوی کے بقول ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اپنی کتاب ’’سرائیکی اور اس کی ہمسایہ زبانیں‘‘ میں پوٹھوہاری کا ذکر کرتے ہوئے اسے قدیم دَردئی زبانوں کی ایک شاخ قرار دیا اور کہا کہ پوٹھوہاری آج شمالی پنجاب کی ایک سوا شناخت کی حامل زبان ہے جو ساخت کے اعتبار سے مختلف ہے۔ پوٹھوہاری زبان سے متعلق یاسر کیانی کا خیال ہے کہ یہ سنسکرت سے پہلے بولی جانے والی پراکرتوں میں سے ایک پراکرت ہے اور کسی بھی زبان کو زبان ہونے کے لئے اس کی اپنی گرامر کا ہونا ضروری ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ زبان دیگر زبانوں سے مختلف انداز کے ساتھ جملے بناتی ہے یا اس سلسلے میں انھی کی پیروی کرتی ہے۔ زبان سے متعلق مولوی عبدالحق کی رائے ملاحظہ کیجیے: ’’زبان نہ کسی کی ایجاد ہوتی ہے اور نہ کوئی اسے ایجاد کر سکتا ہے۔ جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی، پتے نکلتے، شاخیں پھیلتی، پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتاہے، اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی، بڑھتی اور پھیلتی پھولتی ہے‘‘۔
بیسویں صدی میں پوٹھوہاری ادب:
بیسویں صدی کے اوائل تک پوٹھوہاری شعروادب میں جدید اصناف کاوجود کم کم دکھائی دیتا ہے البتہ پوٹھوہاری لوک ادب کی جڑیں بہت پرانی ہیں، جس کی عمر پروفیسر کرم حیدری نے چھ ، سات صدیوں کے قریب بتائی ہے۔ یہ لوک ادب کتابی صورت میں نہ سہی لیکن لوگوں کے حافظے میں محفوظ رہا اور سینہ بہ سینہ سفر کرتا رہا۔ اس باب میں ’’ماہیا‘‘ اور’’ڈھولا‘‘ نہایت اہمیت کے حامل ہے۔’’ڈھولا‘‘ سے متعلق پروفیسر کرم حیدری کی رائے ملاحظہ کیجیے:’’ڈھولا‘‘ تو خالصتاً پوٹھوہاری لوک گیت ہے۔ اس کی تکنیک ’’ماہیا‘‘ سے قدرے مختلف ہے۔’’ماہیا‘‘ کے بول چال میں پہلا مصرع چھوٹا اور دوسرا طویل ہوتا ہے اور عام طورپر ان درنوں میں معنوی ربط بھی نہیں لیکن ڈھولا کے دونوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں اور دونوں میں معنوی ربط موجود ہوتا ہے‘‘۔
پوٹھوہاری زبان سے متعلق عزیز ملک کی رائے ملاحظہ کیجیے:’’دوبیتے ، ٹپے، ڈھولے، ماہیے ہمیشہ سے محفلوں کی جان رہے ہیں۔ پوٹھوہاری زبان کی ان تخلیقات سے عوام کی والہانہ دلچسپی کا اندازہ مقامی ریڈیو کی نشریات سے بآسانی ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی خطہ کی بولی ہی وہاں کے لوگوں کے دلوں کی ترجمان ہوتی ہے۔ شہری علاقوں میں بلاشبہ اردو اور پنجابی زبانیں بولی جاتی ہیںمگر شہر سے میل ڈیڑھ کے فاصلے پر آج بھی گھروں میں خالص پوٹھوہاری بولی جاتی ہے۔ پوٹھوہاری شعر و ادب میں تہوّر بھی ہے شیرینی بھی۔ بر ہا کے گیت مٹیاروں کی زبان پر ہیں تو صوفی شاعروں کا کلام بھی پہروں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا اور سناجاتا ہے‘‘۔
پوٹھوہاری کے قدیم ادب میںلوک گیت، مثنوی کی طرز پر نظم، سی حرفیاں، ماہیے،دوہے اور چار بیتے شامل ہیں جبکہ جدید ادب میں حمد، نعت، سلام، منقبت، غزل، نظم، گیت، ہائیکواور نثر میں ناول، ڈرامہ، افسانہ، افسانچہ، خاکہ،کالم، فیچر، ترجمہ اور تنقید ایسی اصناف میں تخلیقی و تحقیقی کام پوری تب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ پوٹھوہاری قواعد کی کتب،قرآنِ مجید و مولانا رومؒ کی کہانیوں کے تراجم،سیرت النبیؐ، پوٹھوہاری لغات، علاقائی و عالمی ادب کے تراجم کے علاوہ پوٹھوہاری میں ڈرامے اور فیچرز بھی تواتر سے لکھے جا رہے ہیں۔پوٹھوہاری کی تقریباََ یک صد تصانیف و تالیفات منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔
بیسویں صدی میں پوٹھوہاری ادب کی ذیل میں شہرِ راولپنڈی کا ذکر از بس ضروری ہے۔ بشیر سیفی کے مطابق بیسویں صدی کے اوائل میں، راولپنڈی میں جن پنجابی شعرا کا ذکر ملتا ہے ان میں پیر سید مہر علی شاہؒ ، سائیں احمد علی ایرانی،رجب علی جوہر ٗ غلام نبی کامل ٗ اللہ داد چنگی ٗ نذر شاہ مضطر ٗ مرزا عبدالکریم ٗ ہمسر ٗ چوہدری محمد ذاکر اور عنایت حسین اسیر کے نام شامل ہیں۔ان میں بیشتر شعرا نہ صرف سائیں سے متاثر تھے بلکہ ان کے شاگرد بھی تھے ۔ راولپنڈی کے علاوہ سی حرفی اور بیت گوئی کی روایت پورے پوٹھوہار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پہلے پہل شعرا نے پنجابی اور ہندکو میں بیت کہے۔ اس ضمن میں قمر محمود عبداللہ کے بقول میاں محمدابراہیم ، کوٹلوی ، فیض بخش فیض، خان زمان خان کوٹلوی ، پیر محمد شاہ بخاری، سراج الدین، شیرزمان مرزا، عبدالخالق قلی ، پیر محمد شاہ بخاری، انور فراق ، ماسٹر نثار، راجہ زمرد، سائیں ویران، دلپذیر شاد، غلام اکبر طالب ، محراب خاور، راجہ ولایت اظہر، حبیب شاہ بخاری، حنیف حنفی، فاضل شائق ، عبدالحمید شمس ، شبیر طاہر، بابو اکرام کلیامی، خان زمان کیانی، محمود ملنگی، انور حفتی، جبار دانش، سائیں گل فیاض ، فراق صابری ، مختار حسین شاد، قاضی عبدالرشید، نواز آتش، بابو غضنفر علی شاد،راجہ نذیر بشیر ، پیر محبوب شاہ، نساء بی بی ، یونس چہال ، خداداد دکھیا، قاض ضیا، مسعود عالم شامی، بابا عالم سوزی، بوٹا خان راجس، جابر آزاد، محمد عاصم عاجز، مجیدزکی، سلیم رضا ، نذیر عاجز، رفاقت حسین نازش ، جمیل قلندر، شاہد رشید،نثار یاور ، یاسر کیانی ، اشفاق، سائیں رحیم، راجہ وحید قاسم اور ازرم خیام نمایاں ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ فنِ بیت گوئی میں بھی تغیر و تبدل آیا، جس میں خاص طور پر پوٹھوہاری لفظیات شامل ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ بیت گوئی کے ضمن اب خالصتاََ پوٹھوہاری زبان میں بیت لکھا جا رہا ہے۔ بیت گوئی کے حوالے سے اختر امام رضوی، دلپذیر شاد کی شعری تصنیف کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’بیت گوئی ساڑھی شاعری ناں منڈھ اے۔ ساڑھیاں سینیاں وچ اس نی گت جاگنی رئی‘‘۔ جدید بیت گوئی کے ضمن میں بالترتیب یاسر کیانی اور عظمت مغل کا نمونہ ء کلام دیکھئے:
کدے جینڑیں تیں زندہ درگور ہوئے، کدے حرصاں نیاں ہتھاں وچ چڑھی ہوئے آں
کدے پیٹ تے پگ ای تہھوڑپٹی ، کدے قاضیاں نی فکر سنگ لڑی موئے آں
کدے نفرت نی اَگی پر باہے پانڑیں ، کدے عشقے نی آتش وچ سڑی موئے آں
حرفاں نال پریا سرنینہ دغا کیتا، ہیرے فن نی چھاپ وچ جڑی موئے آں

پھوٹا پھٹیا وا نویں مول نکلے، امب جھنڈی دھریکاں کی بورپئی گے
جذبے پیار پریم نیں اچھی پہچے ، ٹھاٹھاں مارنے انت شعور پئی گے
بوہے یار نیں کول کہہ پہچناں سا ، پورے راہ وچ تپڑیں تندور پئی گے
عظمت عشق نیں رستے وچ خاک چھانڑیں ، نیڑے رہنڑ والے بڑے دُور پئی گے
پوٹھوہاری جدید ادب:
پوٹھوہاری کے جدید ادب میں باقی صدیقی کو اولین شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ، جن کے ہاں خالصتاً پوٹھوہاری زبان میں کہی غزلیات اور نظمیں موجود ہیں۔ اس باب میں سلطان ظہور ، اختر امام رضوی ، رشید نثار، دلپذیر شاد، زمان اختر ، سید طالب بخاری، سید طارق مسعود، عارف ادیب کیانی اور حبیب شاہ بخاری کا نام اہم ہے۔ بعدازاں شیراز طاہر ، سید تراب نقوی، قدرت حسین قدرت ، مختار آزاد کربلائی، شریف شاد، محمداکرم میرپوری، شعیب خالق، نذیر بٹ ، جاوید احمد ، سلیم مرزا، یاسر کیانی، عابد جنجوعہ ، عظمت مغل ، علی احمد قمر، اختر عثمان ٗ قمر محمود عبداللہ منور حسین عاصی، نزاکت علی مرزا، مبین مرزا، سعیداکبر کیانی، شاہد لطیف ہاشمی، فرید زاہد، اشفاق ہاشمی، ضیا ء الحسن ضیاء ، شکور احسن ، ثاقب امام رضوی، آل عمران، شہزاد اختر مغل، عبدالرحمان واصف کے نام نمایاں ہیں۔ شاعرات کے باب میں کاملہ انجم کامی، چندا خیری، فرزانہ جاناں، شمسہ نورین، پھولبر سلطانہ اور صغری یوسف کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
عصرِ رواں میں پوٹھوہاری ایک معتبر ادبی زبان کے طورپر آشکارہو ئی ہے، جس میں مذکور شعری و نثری اصناف میں طبع آزمائی کی جا ر ہی ہے۔پوٹھوہاری زبان جہلم تا اٹک ، کشمیر و دیگر میدانی و پہاڑی علاقوں میں بولی اور لکھی جانے والی زرخیز زبان ہے جس کے متعدد لہجے تھوڑے بہت تبدل کے ساتھ نمودار ہوئے ہیں، جن میں سے دھنی ، چھاچھی، گھیبی ،جہلمی اور پہاڑی لہجہ نمایاں ہے۔ عصر حاضر میں حفیظ اللہ بادل ، جہانگیر افضل، عرفان بیگ، جہانگیر عمران، ظہور نقی، سلطان حرفی، حسنین ساحر، الیاس بابر اعوان، فرزندعلی ہاشمی، اسد منیر بھٹی، نعیم اختر اعوان، نعمان رزاق ، جواد اقبال، عامر حبیب، یعقوب انجم ، باسط علی راجہ، جنید غنی، شمشیر حیدر، احمد رضاراجہ، خالد حسین خالد، محمد رضوان راجہ، بلال انجم، محمداخلاق دولتالوی ، اکرام رشید قریشی، محمدتوقیر ملک، باسط شمائل راجہ ، اخلاق انجم ، محمود شابی، عمران راجہ ، ندیم رانا ، عصمت حسین، عادل سلطان خاکی ، حبیب راٹھور، قیصرلال جنجوعہ، تجمل حسین جرال ، اویس راجہ ، علی عمران کاظمی، علی ارمان ، محمد آصف مغل، یاسر یابی،یاسر وحید، عمران عاصی ، حمید کیانی، شبر محمود راجہ، وحید قاسم، فیصل عرفان، صبور ملک ، ذاکر محمود ذاکر، تیمور اکبر جنجوعہ، فیصل شہزاد ، راشد محمود شام، عامر آزاد ، مبشر حسین بشر، محمدقمر افضال، زبیر احمدوارثی، راجہ نثار یاور، فرحان عباس بابر، غلام عباس، سجاد حیدر اور قاسم علی قاسم کے نام اہم ہیں۔
ُپوٹھوہاری رسائل و جرائد:
پوٹھوہاری شعروادب کی ترویج میںرسائل و جرائد کا کردار بھی فقیدالمثال ہے۔ مثلاََ ’’سنگی‘‘ کے مدیر طارق محمود، ’’سرگ‘‘ کے مدیر آل عمران، ’’چانن انٹرنیشنل کے مدیر مرزا سلیم اور بہ طور خاص ’’پُرا‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ شیراز طاہر، مدیر نعمان رزاق اور اعزازی مدیر یاسر کیانی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ نیز رسائل کے باب میں ’’چٹکا‘‘ بھی ایک اہم حوالہ ہے۔مذکور رسائل و جرائدنے پوٹھوہاری تخلیقات کو تواتر کے ساتھ شائع کیا اور تخلیق کاروں کی بہر طور حوصلہ افزائی کی۔ حال ہی میں راقم نے سالنامہ ’’دبستانِ پوٹھوہار‘‘ کے اجرا کا اعلان بھی کیا ہے جو کہ پوٹھوہاری ادب کی ترویج میں ایک اہم کڑی ثابت ہو گا۔ علاوہ ازیں پوٹھوہاری شعر وادب کو پروان چڑھانے میں ریڈیو پاکستان راولپنڈی نے بھی اہم کردار ادا کیا، جہاں باقاعدگی سے ڈرامے، کالم، دستاویزی فیچر اور شاعری نشر ہوتی رہی۔ پوٹھوہاری پروگرام مثلاََ جمہور نی واز، پوٹھوہاری رنگ، وسنے رہنڑ گراں اور سخن مشالاں نے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے افق پر انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں۔
پوٹھوہاری ادبی تنظیمیں:
پوٹھوہار اور اس سے متصل علاقوں میںپوٹھوہاری شعروادب تخلیق کئے جانے کی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں پوٹھوہاری زبان و ادب کی ترویج کے لئے ادبی تنظیمیںفعال ہیں۔ مثلاََگوجر خان میں ’’بزمِ سخن گوجر خان‘‘ اور ’’کنڑیاں‘‘ کے نام سے تنظیمیںخدمات سرانجام دے رہی ہیں جہاں شکور احسن اور شیراز اختر مغل کا شمار مذکور تنظیموں کے فعال اراکین میں ہوتا ہے۔ کلر سیداں میں ’’پوٹھوہاری ادبی سنگت‘‘ دلپذیر شاد کی ادبی کاوشوں کا ثمر ہے۔ اسی طرح مندرہ کی ادبی تنطیم ’’مشال‘‘ جناب قمر عبداللہ، شیراز طاہر اور نعمان رزاق کے باوصف سرگرم ہے۔ راولپنڈی میں ’’پوٹھوہاری ادبی سوسائٹی‘‘ اور فرید زاہد کا نام لازم و ملزوم ہے۔ واہ کینٹ میں ’’انجمن ادب پوٹھوہار‘‘ کی خدمات قابل تحسین ہیں، منور عاصی جس کے فعال رکن ہیں۔ اسی طرح چونترہ میں ’’تریل‘‘ نامی تنظیم عبدالباسط اور یاسر محمود یابی کے دم قدم سے دنیائے ادب پر فروزاں و تاباں ہے جب کہ میرپور میں’’پوٹھوہاری ادبی دوست فورم‘‘کا نام پوٹھوہاری ادبی افق پر حال ہی میں نمودار ہوا ہے، پروفیسر صغیر آسی جس کے فعال رکن ہیں۔ علاوہ ازیں امسال راقم نے ’’دبستانِ پوٹھوہار، اسلام آباد‘‘ کے نام سے ادبی تنظیم تشکیل دی ہے، جس کے زیرِ اہتمام ہفتہ وار تنقیدی نشست اور مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ُپوٹھوہاری شاعری:
یہاں باقی صدیقی ، سلطان ظہور، دلپذیر شاد، اختر امام رضوی، رشید نثار اور عارف ادیب کیانی کانمونۂ کلام دیکھیے، جس میں خالص پوٹھوہاری رنگ و آہنگ موجود ہے۔ باقی صدیقی ’’آزادی‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:اُچیاں کندھاں،ڈک نہ سکّن، پھُلاں نی خشبو۔ نظم ’’بڑھاپا کی لائنیں دیکھیے: گڈی لنگھ گئی، تے پچھے رہ گیا، بھاں بھاں کرنا ٹیشن، تے شاں شاں کرنے کن۔ دیگر شعرا کا نمونہء کلام دیکھیے:

شاہ رگ توں وی نیڑے ایں پَر فِروی اتنی دُوری
ٹُر ٹُر تھکیے راہ نہ مُکے عجب ہوئی مجبوری

اپُر کیوں نہے تکنا یارا کیوں نئیں آ کج دسنا
نیلی چھتری والا سوہنا سب لیخاں کی لخنا
(سلطان ظہور)
ایہہ ساون وی سُک مسُکّا نہ گزرے
بدلاں نے رُخ کیتا اے دریاواں ناں
منیا دینی جان سوکھَلّی نیئں اے پر
مُلّ نہ کوئی تہاڑیاں یار اداواں ناں
(دلپذیر شاد)
سوہنڑیاں سجناں حزماں نے فِر جندرے کھول
اکھیاں کھول کے تکنڑ والیا مونہوں بول
توں وی کہھلا میں وی کہھلا ویلا ازلوں چہھلا
کیوں نہ دوئے سمی پا کے جُلیئے سجناں کول
(ڈاکٹر رشید نثار)
چہڑی نئیں سی بانڑیں اوہ وی بانڑیں پئی اے
اس نے دردوں مینہ وی غزل سنانڑیں پئی اے
چہھٹے کہھڑی نی گل ہونڑیں تے کوئی گل نئیں سی
عمراں سیتی کفنی گل وچ بانڑیں پئی اے
(اختر امام رضوی)
ون سوَنیّ دنیا نے وچ
کوئی ننگے کوئی کجے ہونڑیں
ادھے اندر ادھے باہر
مٹی نے وچ دبے ہونڑیں
(عارف ادیب کیانی)
جتنا ویں پٹھوار ہے سنگیو
جس ناں اس وچ کہار ہے سنگیو
اس نے لخنے آلیاں اپّر
اس بولی ناں دھار ہے سنگیو
(زمان اختر)
عصرِ رواں میں بھی خالص پوٹھوہاری زبان میں شعر و ادب تخلیق کیا جا رہا ہے۔ غزل ہو یا نظم، پوٹھوہاری کے محاورات اور ضرب الامثال کے علاوہ ثقیل پوٹھوہاری لفظیات پوٹھوہاری زبان کی سوا شناخت پر دال ہیں۔ ذیل میں بطورِ مثال چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں، جو پوٹھوہاری اور پنجابی زبان کے مابین حدِ فاصل کھینچتے ہیں۔
؎لدھے ویلے گلیوٹاں تے پھنبھیراں نیں، دسے اَج
کٹ کلاڑی نال پھواڑی سنویں نیاں اندرُوٹھاں وچ
(یاسر کیانی)
؎پُہھکھ پہھانگڑے، ہتھ مونہہ سَخڑیں ہر دَل پِنڈے پھرنی
جنہاں نے وے پوٹے نینھگے ناراں اَر پئے پخڑیں
(شیراز اختر مغل)
کیہہ دساں پوٹھوہار نی کہھانڑِیں
قدرت دتا ماخِیں پہھانڑِیں
(اشفاق ہاشمی)
درد اساں ناں مُکسی کسراں
اے تِرول کوئی پُنڑسی کُتھے
(شمسہ نورین)
شام کاتی لغی اجاڑی تے
رات گالی دلے ناں بیں، سرکی
(عبدالرحمٰن واصف)
اَنھیں مَنج پلیار ترَپَّے
بنڑیا ہُنڑ پلیار تماشا
(فرزند علی سرور ہاشمی)
ُپوٹھوہاری نثر:
پوٹھوہاری نثر کی ذیل میں ناول، ڈارامہ، افسانہ، افسانچہ، خاکہ، کہانی، فیچر، کالم، تنقید اور تراجم کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس سلسلے میں تواتر کے ساتھ نثری تخلیقات منظرِ عام پر آ رہی ہیں اور نثری کتب وقتاََ فوقتاََ شائع ہو رہی ہیں۔پوٹھوہاری ادب میں جہاں دیگر نثری اصناف کو ترویج حاصل ہوئی وہاںفنِ ترجمہ کاری بھی خوب پروان چڑھا۔
خطہ ء پوٹھوہار کے تخلیق کار، مترجم شریف شاد نے حال ہی میں قرآن مجید فرقان حمید کا پوٹھوہاری زبان میں ترجمہ کیا ہے جوکہ مولانا فتح محمد جالندھری کے اردو ترجمے سے ماخوذ ہے۔ اس باتوفیق کام کے منصہ شہود پہ آنے سے قبل، ان کی متعدد کتب منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں پوٹھوہاری اردو لغت، سیانڑیاں ناں کھانڑ اے، شیخ سعدی نیاں کہانڑیاں اور کوثر پوٹھوہاری گریمر نمایاں ہیں۔ ان کی پوٹھوہاری زبان میں تخلیقات، رشحات، تصانیف و تالیفات مادری زبان کے ساتھ ان کی رغبت کا بین ثبوت ہیں۔ شریف شاد نے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کا معروف پروگرام ’’جمہور نی واز‘‘ مسلسل بارہ سال پیش کیا۔ جمہور نی واز کی ابتدا ’پنڈی دیس‘ کے نام سے ہوئی تھی، ازاں بعد جس کا نام ’جمہور نی واز‘ ہو گیا۔ شریف شاد نے اپنے خطے کو، قرآن مجید کے پوٹھوہاری ترجمے کی صورت میں ایک نادر تحفہ عطا کیا ہے، امید ہے کہ ا س سعی سے علوم قرآنیہ کی بہتر طریقے سے تفہیم ہو سکے گی۔ وہ بلاشبہ بولی کو زبان اور زبان کو ادبی زبان کی سطح پر لانے میں معاون ہوئے ہیں۔
شریف شاد نے قرآن مجید کا پوٹھوہاری زبان میں ترجمہ کیا تو فنِ سیرت نگاری بھی اُبھر کر سامنے آیا۔ جناب سلطان محمود چشتی نے ’’محمدرسول اللہﷺ‘‘ کے نام سے اردو سے پوٹھوہاری میں سیرتِ طیبہ کا ترجمہ کیا جو کہ سادگی، سلاست اور روانی کے اعتبار سے طبع زاد معلوم ہوتا ہے۔ سیرت کے ضمن میں یہ اولین کتاب تھی جو پوٹھوہاری ادب کا حصہ بنی۔ علاوہ ازیں جناب قمر عبداللہ نے سیرت النبیؐ کے موضوع پر ’’ خلقت نے سردار‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی ہے جو تخلیق و تحقیق کے اعتبار سے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں آقائے نامدارؐ کے حالات و واقعاتِ حیات ہیں، ارشادات و معجزات ہیں۔ خصائص و خصائل، عبادات و کرامات اور شمائل مذکور ہیں۔ نیز حضور سرورِ کائناتؐ کے اخلاق، سفروحضر و دیگر پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قمر عبداللہ نے سرکار دوعالمؐ کی حیاتِ مبارکہ کو بہت سلیقے اور قرینے سے پوٹھوہاری زبان میں تحریر کیا ہے۔ یہ سیرت النبیؐ کے موضوع پر اولین کتاب ہے جوکہ طبع زاد ہے۔

قمر عبداللہ نے فنِ سیرت نگاری کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام تراہم اور بنیادی مآخذومصادر مثلاََ قرآن مجید، احادیث نبویؐ، کتبِ مغازی و کتبِ تاریخ و شمائل اور کتبِ اسما الرجال و کتبِ علم الانساب وغیرہ وغیرہ سے استفادہ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب میں تخلیق و تحقیق کے مابین ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ قمرعبداللہ کی یہ تصنیف پوٹھوہاری زبان و ادب میں بلاشبہ ایک گراں قدر اضافہ ہے۔قمر محمود عبداللہ کی تالیف ’’خلقت نے سردار‘‘ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ ملا اور اسے صدارتی ایوارڈ یافتہ اوّلین پوٹھوہاری کتاب ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ مئولف کی دیگر تصانیف و تالیفات میں ’جلوئہ عشق‘، ’بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں‘، ’دہشت گرد‘ (اردو ناول)، ’سانجھاں وچ تریڑاں‘ (پوٹھوہاری افسانے) اور ’پوٹھوہار میں شعر خوانی‘ نمایاں ہیں۔
پوٹھوہاری ادب میں شعری و نثری تخلیقات کا اضافہ خوش آئند ہے جوکہ آئندہ نسل کے لئے تقویت کا سبب ہے۔ اب کہ پوٹھوہاری زبان پوری شدومد کے ساتھ دنیائے ادب پر آشکار ہو رہی ہے۔ زبان ڈھانچے اور ہئیت کے اعتبار سے سخت جان ثابت ہوئی ہے، اس لئے کہ اس پر چاروں اور سے حملے بھی ہوئے کہ اس میں پنجابی زبان کی آمیزش ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اس نے حرف حرف، لفظ لفظ، گرامر، املا، اسلوب اور رنگ و آہنگ، ہر اعتبار سے اپنا وجود ثابت کیا۔ اس کے ہاں نادر تشبیہات و استعارات، محاورات اور ضرب الامثال ہیں نیز دیگر زبانوں کے الفاظ قبول کرنے اور انھیں اپنے اندر جذب کرنے کی استعداد موجود ہے۔ اس کے ہاں مترادفات کا ایک ایسا ذخیرہ ہے جو اسے دیگر زبانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

شیراز طاہر اپنی حالیہ تحقیق ’’پوٹھوہاری ادب کی تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ زبانیں اپنے اندر چوں کہ دیگر زبانوں کے الفاظ تو جذب کر لیتی ہیں، ان لسانی اصولوں کے مطابق جتنے قبائل آگے پیچھے خطہ ء پوٹھوہار میں آتے رہے، ان کی زبانوں کے اکثر الفاظ پوٹھوہاری زبان میں شامل ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی پوٹھوہاری زبان میں منڈاروی، دراوڑی، ویدی، سنسکرت اور پالی کے الفاظ بھی ملتے ہیں‘‘۔
پوٹھوہاری زبان کی سخاوت ہے کہ اس نے دیگر علاقائی اور قومی زبانوں کو قبول کیا ۔ پوٹھوہاری زبان کے جید تخلیق کار و محقق یاسر کیانی کے بقول پوٹھوہاری زبان کی قدامت کی یہ بھی ایک مضبوط سند ہے کہ اس کے کئی الفاظ دیگر زبانوں میں مروج ہیں نیز پوٹھوہاری زبان کے بہت سے الفاظ اور حروف ایسے بھی ہیں جو محض اس کے بولنے والوں میں ہی مستعمل ہیں جو ہمیں کسی دوسری زبان میں دکھائی نہیں دیتے۔
پوٹھوہاری کی جدید املا:
پوٹھوہاری کی جدید املا، نصف صدی قبل لکھی جانے والی املا سے قدرے مختلف اور شفاف ہے جو کہ لکھنے اور پڑھنے میںآسان ہونے کے ساتھ ساتھ پوٹھوہاری آوازوں کی بہ خوبی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ بدلائو اس وقت آیا جب پوٹھوہاری کے فاضل شعرا و ادبا اس نتیجے پر پہنچے کہ پوٹھوہاری اسی طرح لکھی جانی چاہیے، جس طرح بولی جاتی ہے تاکہ ثقیل آوازیں تحریر کی صورت میں محفوظ ہو سکیں۔ بالفاظِ دیگر جو لفظ جس انداز سے بولا جاتا ہے، اسے قریب ترین درست املا کے ساتھ رقم کیا جائے تو الفاظ معدوم ہونے سے بچ سکتے ہیں اور نتیجتاََ زبان محفوظ ہو سکتی ہے۔ اس طرح نظم و نثر میں خالص پوٹھوہاری لفظیات کا دخیل ہوا اور پنجابی و دیگر زبانوں کے الفاظ کے استعمال سے احتراز برتا گیا، بالخصوص جن الفاظ کے مترادفات پوٹھوہاری زبان میں موجود ہیں۔ الفاظ کے دروبست میں آوازوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں مولوی عبدالحق کی رائے دیکھیے: ’’زندہ زبان کے قواعد نویس کو سب سے اوّل بول چال کا خیال رکھنا چاہیے اور اسی سے قاعدے بنانے چاہئیں۔ قواعد میں اوّل درجہ آواز کا ہے اور اس کے بعد حروف کا۔ پہلے بول چال ہے اور بعد تحریر‘‘۔ پوٹھوہاری کی جدید املا کے حوالے سے یہاں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ مثلاََ حرف ’’ڑ‘‘ سے شروع ہونے والے بیشتر الفاظ پوٹھوہاری زبان کا ہی حصہ ہیں۔ یہی اس کا تخصص ہے۔ حرف ’’ڑ‘‘ سے متعلق یاسر کیانی کی رائے ملاحظہ کیجیے: ’’اردو جیسی بلیغ زبان آج تک ’’ڑ‘‘ سے پہاڑ اور ’’آڑو‘‘ کے الفاظ بنیادی قاعدوں میںدرج کرتی رہی ہے۔ ’ڑ‘ دراصل معیاری پشاچی کی وہ پلٹے دار آواز ہے جو آج تک صرف اور صرف پوٹھوہاری نے سنبھال رکھی ہے ‘‘۔ ’’ڑ‘‘ کے علاوہ انھوں نے نون غنہ اور ’ڑ‘ سے تشکیل پاتے صوتیے ’’نڑ‘‘ ُپر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے اور نون کے اوپر ’ط‘ ڈالنے کے بجائے’نڑ‘ لکھنے پر زور دیا ہے، اس لئے کہ یہ صوتیہ ہماری مخصوص آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے اور جو الفاظ ہم ادا کرتے ہیں، ان کے وجود کو مکمل طور پر ظاہر کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ مثلاََ رکھنڑ، تکنڑ، ڈیکنڑ، چکھنڑ وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں کھانڑاں، جانڑاں، رکھنڑاں، تکنڑاں، پانڑِیں، کانڑِیں اور اس قبیل کے الفاظ میں بھی ’’نڑ‘‘ مستعمل ہے۔ ’ڑا‘، ’ڑاں‘، ’ڑیں‘ ایسی آوازیں اور الفاظ سنسکرت اور پراکرتوں میں بھی موجود ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو کے الفاظ ’’ہونا‘‘، ’’جانا‘‘ کو ’’ہونڑاں‘‘ اور ’’جانڑاں‘‘ سے نہیں بدلا گیا بلکہ یہ آوازیں، املا اور تلفظ اردو زبان کے وجود سے بہت پہلے پوٹھوہاری زبان کے ہاں موجود تھا جس کا ذکر سید قدرت نقوی نے اپنے مقالے بعنوان ’’کیا پوٹھوہاری پر دراوڑی کا اثر ہے؟‘‘ میں بھی کیا ہے۔

اس کے مقابل نون کے اوپر ’ط‘ لکھنے کی روش کو قبولِ عام حاصل نہیں ہو سکا، اس لئے کہ پوٹھوہاری میں الفاظ کے ہجے بآسانی کیے جا سکتے ہیں، ان کا جوڑ توڑ اور پھر مکمل وجودکے ساتھ الفاظ رقم بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں یاسر کیانی رقمطراز ہیں: ’’دیوناگری رسم الخظ میں یہ آواز ’’نڑ‘‘ کی صورت میں لکھی جاتی رہی۔ اسے لکھنے کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب زبانوں کو بجائے دیوناگری، عربی پٹی اور رسم الخط میں لکھنے کی کوشش کی گئی۔ عربی کے پاس نہ صرف یہ کہ ’’نڑ‘‘ کی آواز نہ تھی بلکہ ’’ڑ‘‘ ہی سرے سے موجود نہ تھی، یوں ’’نڑ‘‘ کی آواز کو لکھنے میں دقت پیش آئی اور ’’ڑ‘‘ کی عدم موجودگی کی بنا پر نون پر ’’ط‘‘ لگا کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پوٹھوہاری اور دیگر علاقائی زبانوں، جن کی پٹی میں نون غنہ اور ’’ڑ‘‘ موجود ہے، ان کا ایسا کرنا نہ صرف خلافِ فطرت و عقل ہے بلکہ خود ساختہ لسانی دانشوروں کی کم فہمی پر مہر تصدیق بھی‘‘۔ اس ضمن میں جدید املا کے تحت الفاظ مثلاََ لخنڑیں کو لخڑیں، آخنڑیں کو آخڑیں، جاغنڑیں کو جاغڑیں، رکھنڑیں کو رکھڑیں اور سکنڑیں کو سکڑیں رقم کیا جا رہا ہے، اس لئے کہ درمیان میں نون غنہ نہ بھی لکھا جائے تو لفظ اپنی ہیئت اور معنی نہیں بدلتا اور اس کا وجود قائم رہتا ہے۔جہاں نون غنہ اپنی آواز ظاہر کر رہا ہو، وہاں لکھا جانا چاہیے بصورتِ دیگر اس کے بغیر الفاظ رقم کرنے چاہئیںتاکہ کسی غیر پوٹھوہاری کو خواندگی کے دوران کوئی دقت پیش نہ آئے۔ اس طرح زبان اب مزید نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔
جدید املا کے باب میں ’’ہھ‘‘ نہایت اہمیت کے حامل ہے، جسے پوٹھوہاری ہھ یا دوہری ہھ کہا جاتا ہے۔ یہ پوٹھوہاری میں استعمال ہونے والا ایسا صوتیہ ہے جو پوٹھوہاری کی بنیادی آوازوں کو متشکل کرنے میں مدددیتا ہے۔ مذکور صوتیے کے بغیر الفاظ اپنی اصل سے ہٹ جاتے ہیں اور مفہوم بدل لیتے ہیں۔ مثلاََ بھائی کو دوہری ہھ کے ساتھ ’’پہھرا‘‘ اور ’’بھلا ‘‘ کو دوہری ہھ کے ساتھ ’’پہھلا‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اگر یہ الفاظ صرف ہ ہوز سے رقم کئے جائیں تو اردو کے الفاظ ’’پہرا‘‘ اور ’’پہلا‘‘ سامنے آئے گا۔ ’’ہھ‘‘ ایسا صوتیہ ہے جس نے درمیانی یا جھٹکے دار آواز کو قرطاس پر لانے میں بھرپور مدد کی ۔ مثلاََ پہھار، تہھکا، کہھار، چہھول، ٹہھول کی قبیل کے الفاظ ’’ہھ‘‘ سے ہی لکھے جائیں گے۔ اس سلسلے میں یاسر کیانی کی رائے دیکھیے: ’’دوسری خاص آواز جو پوٹھوہاری کے پاس ہے، وہ دوہری ہ ہے۔ ’’ہھ‘‘ ہائے ہوز اور ہائے دوچشمی کے ادغام سے بنتی ہے۔۔۔

مخارج کے مطابق الفاظ کی املا نہایت ضروری ہے، لہذا اس ثقیل آواز کی املا کے لئے دوہری ’’ہھ‘‘ کا مصمتہ رائج کیا گیا‘‘۔ انھوں نے سترہ مخصوص آوازوں کا حوالہ بھی دیا جو صرف پوٹھوہاری میں موجود ہیں۔ مثلاََ پہھ، تہھ، چہھ، جہھ، دہھ، ڈہھ، رہھ، فہھ، کہھ، گہھ، لہھ، مہھ، نہھ، وہھ وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں کوئی لفظ جب کسی ایک زبان سے کسی دوسری زبان میں آتا ہے تو اپنی ہیئت بدل لیتا ہے اورپھر بدلی ہوئی صورت ہی قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس طرح دیگر زبانوں کے ایسے الفاظ جن کا پوٹھوہاری میں دخیل ہوا اور پوٹھوہاری زبان نے اپنے طور پر انھیں ایک الگ ہیئت و صورت دی، اب اسی ہیئت و صورت کو استناد کا درجہ حاصل ہو گا۔ اس لئے پوٹھوہاری لکھنے کے دوران پوٹھوہاری زبان کی طرف سے دیا گیا تلفظ ہی ذہن میں رکھنا چاہیے اور برتنا چاہیے۔ اس لئے کہ الفاظ کا یہ بدلائو فطرتی ہے جس کا علاقہ زبان کی فطرت سے ہے۔ پوٹھوہاری زبان کی یہ وسعت ہے کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ کو اپنے ہاں جذب کرتے ہوئے خود سے تلفظ دیتی ہے اور وہ تلفظ اس طور سے مروج ہو جاتا ہے کہ وہ لفظ یا تلفظ واقعتاََ اس کا اپنا دکھائی دیتا ہے۔ وہ الفاظ جو الف، ہ، ح وغیرہ سے شروع ہوتے ہیں، پوٹھوہاری ان الفاظ کا پہلا حرف حذف کر دیتی ہے۔ مثلاََ ’آواز‘ ’واز‘ ’ہوا‘ ’وہھا‘، ’حلال‘ ’لہھال‘اور ’حرام‘ ’رہھام‘ میں بدل جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اسمائے نکرہ و اسمائے معرفہ اگر اپنی اصلی حالت میں ہی لکھے جائیں تو مضائقہ نہیں۔ اسی طرح پوٹھوہاری میں ’ب‘ ’و‘ سے، ’د‘ ’ت‘ سے، ’ڈ‘ ’ٹ‘ سے، ’گ‘ ’غ‘ سے بدل جاتا ہے۔ نتیجتاََ ’’بابا‘‘ ’’باوا‘‘، ’’دھول‘‘ ’’تُہھوڑ‘‘، ’’ڈھوک‘‘ ’’ٹہھوک‘‘ ’’جگہ‘‘ ’’جغہ‘‘ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
مآخذ:
(۱) اکرم الحق راجہ ،تاریخ گوجر خان ٗ لاہور : مکتبہ داستان (پرائیویٹ)لمیٹڈپٹیالہ گرائونڈ ٗ باراشاعت اول ، ۱۹۹۴ء
(۲) عزیز ملک ٗ پوٹھوہار ٗ اسلام آباد: لوک ورثہ اشاعت ٗگھر ،اشاعت دوم ، ۱۹۸۷
(۳) راجہ محمد عارف منہاس ٗ تاریخ پوٹھوہار ٗ راولپنڈی: پاکستان بک ڈپو،اشاعت اول، ۱۹۷۸ء
(۴) کرم حیدری ٗ سرزمین پوٹھوہار ٗ راولپنڈی: مکتبہ المحمود،اشاعت دوم ،۱۹۸۰ء
(۵) افضل پرویز ٗ بن پھُلواری ٗ اسلام آباد: ادارہ ثقافت پاکستان،اشاعت دوم ، ۱۹۸۴ء
(۶) بشیر سیفی ،شعرائے راولپنڈی ٗ راولپنڈی: شاخسار پبلشرز،اشاعت اول، ۱۹۸۲ء
(۷) مولوی عبدالحق، قواعدِ اردو، لاہور: سیونتھ سکائی پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء
(۸) شیراز طاہر، پوٹھوہاری ادب کی تاریخ(۱۹۴۷ء تاحال)، اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، ۲۰۲۲ء
(۹) یاسر کیانی، پوٹھوہاری زبان و گرامر، سرصوبہ شاہ: قریشی آرٹ اینڈ پرنٹنگ سنٹر، ۲۰۰۵ء
(۱۰) رشید نثار، وادیء پوٹھوہار، راولپنڈی: پنڈی، اسلام آباد ادبی سوسائٹی (پیاس)، ۱۹۹۷ء

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply