سید علی گیلانی کی یاد میں ۔۔آصف محمود

لیگل فورم فار کشمیر اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز نے جناب سید علی گیلانی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا ، گویا فرض کفایہ تھا جو انہوں نے ادا کیا ۔ لازم ہے کہ ہر دو اداروں کا شکریہ ادا کیا جائے۔ حریت فکر انسانی تہذیب کا مشترکہ ورثہ ہے۔ یہ سکاٹ لینڈ کا ولیم ویلس ہو ، لیبیا کا عمر مختار ہو ، میسور کا ٹیپو سلطان ہو ، خوارزم کا جلا ل الدین ہو یا سری نگر کا سید علی گیلانی یہ لوگ نسل انسانی کا مشترکہ ورثہ ہیں ۔ یہ ایک تذکیر کی صورت زندگی گزارتے ہیں کہ لوگو! تمہیں تمہاری ماؤں نے آزاد پیدا کیا ہے۔

سیمیناروں میں جانے سے جان جاتی ہے۔ یہ میری شعوری رائے ہے کہ وقت ضائع کرنے کے لیے سیمینارز سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لیکن سیمینار اگر سید علی گیلانی جیسی شخصیت کی یاد میں ہو رہا ہو تو وہاں حاضر ہونا لازم ہی نہیں اعزاز بھی ہوتاہے۔ تقریب میں جناب پروفیسر خورشید احمد صاحب ، سید علی گیلانی کے داماد جناب افتخار گیلانی اور مسلم لیگ( ن) کے چیئر مین جناب راجہ ظفر الحق نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر خورشید صاحب کی حیثیت میرے جیسوں کے لیے ایک استاد کی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ان کی گفتگو ہماری فکری رہنمائی کا وسیلہ ہوا کرتی تھی۔ سینیٹ میں ان کی تقاریر کو ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ ایک پارلیمنٹیرین کیسا ہونا چاہیے۔ ایک طویل عرصے کے بعد انہیں سنا اور دیکھا تو بہت خوشی ہوئی۔ برادرم افتخار گیلانی نے سیر حاصل گفتگو کی ا ور بتایا کہ سید علی گیلانی کی فکر کیا تھی۔ جہاد اور حکمت عملی کے حوالے سے یہی باتیں ووہ روزنامہ 92 کے اپنے کالموں میں بھی لکھ چکے ہیں۔ان کی گفتگو کے دوران بعض شرکاء محفل میں بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔جب انہوں نے احوال بیان کیا کہ بھارتی فورسز سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو کس توہین آمیز طریقے سے گھر سے لے کر گئیں تو وہ جذبات پر قابونہ رکھ سکے۔وہ مزید گفتگو بھی نہ کر سکے۔ وہ استنبول میں بیٹھے تھے ، میں اسلام آباد میں مگر کیفیات مشترک تھیں۔

اس سیمینار کا حاصل برادرم ڈاکٹر محمد مشتاق کا خطاب تھا۔ ان کی تقریر درد دل اور بصیرت کا مجموعہ تھی۔ کشمیر پر اپنی حکومتوں کی کوتاہیوں پر جس قانونی پیرائے میں انہوں نے گرفت کی اور انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں جس طرح اس معاملے کی مبادیات کو واضح کیا وہ قابل تحسین چیز تھی۔ کشمیر میرا بھی موضوع ہے اور عشروں سے ہے اور قانون بھی ظاہر ہے میرے لیے اجنبی نہیں لیکن اس پس منظر کے باوجود ڈاکٹر مشتاق صاحب کی گفتگو سنی تو اس کا حاصل ایک تحسین آمیز حیرت تھی۔کشمیر کے باب میں نئی نسل کی معلومات واجبی سی ہیں اور قانونی مبادیات سے آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کمی کا ازالہ ڈاکٹر مشتاق جیسے اہل علم ہی کر سکتے ہیں جنہیں بین الاقوامی قانون پر بھی گرفت ہے اور جنہیں بات کہنے کا سلیقہ بھی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے جب کشمیر پر قانونی تناظر میں اپنی بات کر لی تو ایک شکوہ کیا کہ انہیں آج صبح نو بجے حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے پیغام ملا کہ آج علی گیلانی صاحب کی برسی پر ، پروگرام ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کا شکوہ بجا تھا کہ حکومت کو یہ اہتمام بروقت کرنا چاہیے تھا۔ اسی شکوے کا اظہار مجھ سے خود تحریک انصاف کے کشمیری رہنما بھی کر چکے تھے کہ عین برسی کے روز یا اس سے ایک روز پہلے یہ فیصلہ کرنا اصل میں اس بات کا اعلان ہے کہ حکومت کی اس معاملے میں وابستگی کی سطح کیا ہے۔ میں نے بھی، سید علی گیلانی صاحب پر اپنی گفتگو کے ساتھ ساتھ یہ شکوہ کیا کہ ایسی ہی تقاریب کا اہتما م حکومت پاکستان کو بھی کرنا چاہیے تھا۔ میں نے یہ گلہ بھی کیا کہ آج جب ہم سید علی گیلانی کو یاد کر رہے ہیں تو یسین ملک جیل میں پڑے ہیں۔کیا ہم ان کی آواز نہیں بن سکتے۔ کیا ہم اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یسین ملک بھی بھارتی جیلوں میں شہید ہو جائیں اور ہم ایک تعزیتی بیان جاری کر کے سرخرو ہو جائیں۔میں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ اسلام آباد میں جب سید علی گیلانی کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا عمران خان چند قدم پر بیٹھے تھے لیکن انہوں نے شریک ہونا گوارا نہ کیا۔ یہ بھی عرض کی کہ موجودہ حکومت کو بھی کوئی اسی کا قول یاد کرا دے کہ ایک شرم ہوتی تھی اور ایک حیا ہوا کرتی تھی۔

جب اختتامی کلمات ادا کرنے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے سربراہ خالد رحمن صاحب سٹیج پر آئے تو انہوں نے حکومتوں کی محبت میں وہ قرض اتارنے شروع کر دیے جو نہ ان پر واجب تھے نہ ہی جنہیں ان سے کوئی نسبت تھی۔انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ تنقید کر کے ہم اصل میں بھارتی ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہے ہوتے ہیں۔اس ’’ فتوے‘‘ کے بعد انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تنقید کرنے والوں کی حب الوطنی پر تو شک نہیں لیکن یہ تنقید بھارتی ایجنڈے کو طاقت پہنچا رہی ہے۔ اب تنقید تو میں نے اور ڈاکٹر مشتاق صاحب نے کی تھی۔ ہماری اس تنقید پر میزبان کا یوں بد مزہ ہوناسمجھ سے باہر تھا۔ یہ بات کوئی مقرر کرتا تو اور معاملہ ہوتا۔ لیکن تقریب کا میزبان ہی اگر آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر دے ، آپ کی حب الوطنی پر خود ہی سوال اٹھا دے ، اور خود ہی کمال شفقت سے پھر آپ کو غدار بننے سے بچا لے تو یہ اہل اقتدار کی کوزہ گری تو ہو سکتی ہے ، علم اور تہذیب کی دنیا میں اس رویے کا کوئی اعتبار نہیں۔

ہتھیلی پر یہ سوال رکھا ہے کہ عمران اور شہباز شریف حکومتوں کی کشمیر پالیسی پر تنقید بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیسے ہو گئی اور بعض اہل تقوی کے پاس کسی کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے کا حق کہاں سے آگیا۔اس سے بڑی گالی بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ اظہار خود پرستی میں لپٹی پروگرام کی کمپیئرنگ پر بالکل سوال نہیں اٹھاؤں گا جو زبان حال سے دعویٰ کر رہی تھی کہ علی گیلانی کے بعد اگر کوئی رجل رشید ہے تو وہ وہی ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حاکم وقت کا کوئی کوزہ گرہماری حب الوطنی پر انگلی اٹھائے۔ حب الوطنی کا کوئی ’’ پوپ ‘‘ نہیں ہوتا۔اور نہ آئین پاکستان میں کہیں لکھا ہے کہ حب الوطنی کی سند انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز سے جاری ہوا کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دل چسپ بات یہ کہ اس بھاشن کے بعدجب مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق صاحب نے خطاب کیا تو انہوں نے مسلم لیگ کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اس دفعہ یوم دفاع نہ منا کر بھارت کی خوشنودی کی کوششیں کر رہی ہے۔ تو کیا خیال ہے راجہ صاحب بھی بھارتی ایجنڈے کو فرو غ دے رہے تھے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply