اک پھیرا اپنے دیس کا (3)۔۔کبیر خان

اک پھیرا اپنے دیس کا (3)۔۔کبیر خان/عزیزہ کی شادی کی تیاریوں کا نازک ترین مرحلہ آیا تو گھر میں ایک ہنگامی صورتِ حال پیدا ہوگئی ۔ بیگم نے نہار منہ اپنی خدمتِ اقدس میں طلب فرما کر پوچھا: ’’راولاکوٹ میں دیمک پروانی ہے کیا؟‘‘۔ اس پُرسشِ احوال پر ہم کافی گہرائی تک سٹپٹا گئے ۔
’’منہ بِھیڑکر اور کان تاحدِ امکان کھول کر سُنو۔۔۔  سوال دہراتی ہوں: راولاکوٹ  میں  دیمک مستانی  ہے  کیااااا؟؟‘‘

عرض کیا دیمک تو وافر ہے، کم و بیش ہر گھر ، خاندان قبیلے ،بلکہ پورے معاشرے میں لگی پڑی ہے لیکن ہماری طویل غیرحاضری میں پاگل دیوانی مستانی ہو گئی ہوتو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔
’’ جے جے، جی جی،شی شی، کھادی ،سادی یا کسی اور مشہور برانڈ کا کوئی آؤٹ لیٹ ہے تمہارے وطنِ مالوف مِنی سرینگرمیں یا ہنوز دلّی دوراست  ۔؟‘‘

ہمیں یوں لگا جیسے ہم معاشرتی علوم کی گھنٹی میں پھنس گئے ہوں اورحشر میں ماشٹر چمڑی ادھیڑ کا سامنا ہو۔ ہم نے ادھر اُدھر دیکھا ، بھِتّ کے آگے حسبِ معمول ہمارا ہم جماعت ’’اڑھائی من کا تھوری‘‘مُرغا بنا دیا گیا تھا  ۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔ اوپر سے ڈِرلی لالہ* کارِ سرکار سے چلے گئے۔ نجانے کب لوٹیں گے، کب تفریح کا گھنٹہ بجے گا،کب راہِ نجات کھُلے گی۔ کب۔ ۔۔؟؟
’’اچھا یہ بتاؤ، مایا، ڈیانا ، مِس مرچی، ملیکہ،پُشپا وغیرہ کا گزر تمہارے شہرِ آرزو سے ہوا ہے کبھی یا
رفتار کی لذّت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنّا ہے  ؟‘‘

دست بستہ عرض کیا جن محترماؤں کا ذکرِ خیر آپ فرما رہی ہیں ، اُن کے اسما ء گرامی پہلے شاید سُنے ہوں لیکن اُن کے آؤٹ لیٹ یا اِن لیٹ دیکھنا تا حال نصیب نہیں ہوا۔ ‘‘

’’تم نے قصائی گلیاں، بوسہ گلے، ڈنگروں کی ڈھکّیاں ، کنجروں کی ہٹّیاں، بٹّوں کی راہیں اورڈھٹھوں کی ڈاہیں جیسے مقامات مع وجہ تسمیہ منہ زبانی پال رکھے ہیں ، معزّز لیڈیز اور جینٹس کے ملبوسات کی دُکانوں بارے یکسر لا علم ہو؟ ۔ وطن اور وطن کی بوُٹیوں سے پیار کے تمہارے دعوے مجھے کھوکھلے لگتے ہیں۔ تم تو کہتے ہو کہ راولاکوٹ کا چپّہ چپّہ تمہاری  چشم دید کے سامنے جنما پلا ہے ۔ اوریہ کہ تم اس شہر کے کیڑے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہیں یادگار کا رستہ نہیں ملتا ۔ آج بھی بزرگوں سےقبرستان اور نوخیزوں سے چرسیوں کے اڈّے کا رستہ پوچھ کر اپنی منزل کا تعیّن کرتے ہو۔ یہ تمہارا روڈ میپ ہے؟؟؟کچھ حیا کرو ۔‘‘

’’یاد آیا۔۔۔۔‘‘ہم نے جھٹ کہا’’بیکری کے سامنے سے منگ تھوراڑ کی طرف اُترنے کی کوشش میں مبتلا سڑک پر حاجی صاحب کی بزازی کی دُکان تھی۔ جہاں دن بھر مولویوں اور ڈوگرہ دور کے وکیلوں کا جمگھٹ رہتا تھا۔ ظہر کی نماز کے وقفہ میں وقت نکال کر حاجی صاحب ’گراہکوں‘کوبھی اٹینڈ کر لیتے تھے۔ وہ بانہوں کے گزوں اور ہاتھوں کی گرہوں کے پکّے پیمانوں میں ملیشیا ، چھینٹ اور کیمرک مہیّا کرتے تھے۔ اور ان رائج الوقت اعشاری پیمانوں کے بعد اپنی گرہ سے گِرہ بھر کپڑا جھونگے میں دے دیا کرتے تھے۔ جو ’’بھول چوک‘‘کے کھاتے میں درج ہوتا تھا۔ اب ہاتھ ، گرہ اور
بھول چوک کے کھاتے بند ہو چکے ہیں ۔ تجارت اور سیاست ڈانگوں کے گزوں سے ماپی جاتی ہے۔

مصنف:کبیر خان

کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یہاں دن کودے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہات دے ، اُس ہات لے

بیگم اس بے محل شعر پر ہتھّے سے اُکھڑ گئیں ۔اُنہوں نے ہماری معصوم بھتیجیوں سے ’’تخلیہ‘‘میں بات کی اور اُنہیں گاڑی میں بٹھا کر یہ جا وہ جا۔ ’شام ’’پئے‘‘بن شام محمد‘ لوٹیں تو لدی پھندی تھیں ۔ اُن کے ہونٹوں پر ہی نہیں ،پورے سراپے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی ۔’’یہ شی شی، یہ ملیکہ، یہ ڈیانہ،یہ شبانہ اوریہ کھادی کے سوٹ ہیں ۔ دو نالہ بازار سے،باقی منگ روڈ سے ملے ہیں ۔ کیا شاندار اور جانداراسٹور کھُلے ہیں ۔ اتنے سے راولاکوٹ پرعروس البلاد کرانچی کے طارق روڈ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ سیلز گرلز لاہور اور کرانچی سے لائی گئی ہیں ۔ کہتی ہیں یہاں کی خواتین جدید فیشن کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ ہیں ۔ دیکھ لیا؟، تم پر تکیہ کر رکھتی تو وہی تمہارے بیاہ والے کپڑے پہن کر شادی میں جانا پڑتا۔ ۔ ہونہہ‘‘

گھرکے دیگر افراد کے ساتھ ہم بھی سرتا پا تیار ہو کربروقت شادی میں پہنچنے کے لئے بے چین تھے۔ لیکن نامعلوم وجہ تاخیر روانگی میں حائل تھی۔ مقرّرہ وقت کو گذرے دو گھنٹے سے زائد ہوئے تو ہمارا پیمانہ صبر چھلک گیا۔ تاخیر کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ گھر کی تین ممبرز ابھی تک تیار نہیں ہوئیں ۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ اُن کی وریشہ میں اپائنٹمنٹ ہے،وہ وہاں گئی ہیں ۔ پوچھا وریشہ کیا ہے اوروہ آج کیوں گئی ہیں؟ ’’وریشہ بیوٹی پارلر ہے۔ اور وہیں گھر کی تینوں لڑکیوں کی اپائنٹمنٹ ہے۔۔۔‘‘کسی نےبتایا۔
’’راولاکوٹ میں بیوٹی پارلر ؟ اوراسکول کی بچیاں تیار ہونے کے لئے وہاں گئی ہیں ۔؟؟‘‘ ہم سٹپٹا گئے۔

’’انکل۔۔۔!‘‘خاندان کے ایک مرد ممبر نے کہا’’ آپ کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ہاں یاد آیا،آپ کے کسی دوست نے آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ آپ کو عرب شیوخ صحرائی جہازوں یعنی اونٹوں کو سُرما ڈالنے کے لئے بھرتی کر کے لے گئے تھے، آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ جناوروں کی آرائش زیبائش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ شاہی سواری کے ہاتھی کی مشاطگی کے لئے مغلیہ دور میں پوری پوری بٹالین مامور ہوتی تھی۔ اپنے ہاں بھی پنڈی ،لہور ،پشور میں جانوروں کے بیوٹی سیلون کھُلے ہیں ۔جہاں سانڈوں،کُتوں بِلیوں، گھوڑوں ،دُلہوں اور قربانی کے ایسے ہی دیگرجانوروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ اسی سال ڈیڑھ لاکھ کی بکری کے میک اپ پر تین لاکھ اسّی ہزار روپے لگے۔ اگر عید پربچھڑیاں اور بکریاں بیوٹی سیلون جاسکتی ہیں تو بچیاں بالیاں کیوں نہیں؟‘‘۔ ہم لاجواب ہو گئے۔

مزید ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد بچیاں جب آئیں تو ہم صرف قد بُت پر قیاس کرکے اُنہیں پہچان رہے تھے۔ ورنہ وہ تینوں کچھ اور ہی ہوکر لوٹیں تھیں ۔ بھاری اور چیختے ہوئے میک اپ کی بھِیڑ میں بچپن اور معصومیت کا قدرتی حسن کہیں غائب ہو چکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاخیر سے شادی والے گھر پہنچے تو وہاں سے ہمیں شادی ہال کی اور ڈائریکٹ کر دیا گیا۔ شادی ہال سے دُلہن کا گھر’’اسٹون تھرو‘‘فاصلے پر تھا۔ (لیکن شادی ہال کے آس پاس ’’وٹّے‘‘نہیں چند ایک ڈھیلے تھے، وہ بھی گِیلے۔ ) تعجب ہوا کہ گاؤں کے سب سے زیادہ ’’پدرے‘‘(بے حد ہمواراور مسطّح ؟) مقام پربھی بیاہ ڈھنگ اپنے گھر کی بجائے شادی ہال میں بپا کئے جاتے ہیں؟ کل کلاں ہر محلّے میں جنازہ گاہ بھی بن جائے گی۔ پھر’’کارخانے‘‘(تجہیز و تکفین ) بھی بھاڑے پر ہوا کریں گے۔ تب برادری کا مفہوم کیا رہ جائے گا؟، ہم تادیر سوچتے رہے۔ اور سوچ سوچ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ شہر جب دیہاتوں میں در آئیں تو ’’گراں برادریاں‘‘بے دخل ہو جاتے ہیں ۔ پھر دُلہنیں اور دولہے بھاڑے پرگھنٹوں بیوٹی پالر میں سجائے جاتے ہیں ۔ اس قدر کہ پہچاننے کے لئے اُن کے لبادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح کل کلاں ماتم داری پررونے کے لئے بھاڑے پررودالیاں اوربنجمن سسٹرز بُک کی جایا کریں گی۔ شادی ہال میں ہم نے برادری کے بیچ بیگانگی ناچتے دیکھی۔ اپنائیت کو شاید مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ شادی ہال میں برادری مہمان تھی اور بھاڑے کے کارندے میزبان ۔ ڈولی کی جگہ کار نے لے لی اور گھرکے کہار بے بار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ڈرلی لالہ کا اصل نام تو کچھ اور تھا لیکن ہنگامہ خیزی کی بدولت اسکول کے بچّوں میں ہی نہیں، گاوں کے بڑوں میں بھی وہ اسی لقب سے جانے مانے جاتے تھے۔ جو اُن پر خوب جچتا تھا۔ ہم نے اُن جیسا کثیرالجہت بندہ پہلے کبھی دیکھا نہ بعد ۔ وہ اسکول کے چپڑاسی، چوکیدار، آب رساں اور معاون خصوصی صدر معلّم ہی نہیں،’’ ادارہ ہذا‘‘ کے مشیر باتدبیربھی تھے )۔ ذمہ داراتنے کہ اکلوتےسرکاری سیف (ٹرنک) کی چابیوں کے گُچّھے کو ہمہ وقت اپنی عزت سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ جدھر جاتے،ازاربند سے بندھی عزت گھُٹنوں کے بیچ یوں بجتی جاتی کہ۔۔  چھنکارا جاوے گلی گلی۔
’’ ادارہ ہذا‘‘ کے انونٹری رجسٹر میں جس سرکاری اثاث البیت کا اندارج پچھلے بارہ سال سے چلا آرہا تھا اُس میں ایک عدد بوسیدہ ٹاٹ، وحدہ لاشریک لنگڑی کرسی اور طلبہ سے وصول کردہ جرمانہ کی رقم سے خریدا گیا رجسٹر غیر حاضری سرِ فہرست تھا۔ اس متاع بے بہا کوسیندھ ڈاکے سے محفوظ رکھنے کے لئے اکلوتی عمارت کی اکلوتی کھڑکی کے پٹ بھاری پتھر سے بھِیڑ کرڈرلی لالہ سرکاری کام سے چلے گئے تھے۔ واپسی کب ہوگی؟ اس کا انحصار ’’ہیڈ ماس ساب‘‘کی لالی (گائے) کے موڈ اور فریق ثانی ( مشری بھائی کے سانڈ) کے مزاج اور موسم پر منحصر تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply