ہماری قومی ترجیحات۔۔عطا اللہ جان

سیاست پر کچھ لکھنا اور اس پر دوستوں کے ساتھ بحث کرنا،مَیں وقت کا زیاں  سمجھتا ہوں، میں ہر محفل میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرتا ہوں  کچھ سیکھنے کی غرض سے، لیکن سیاسی محفل سے میں فوراً کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں، لیکن کچھ ایسے سیاسی مسائل ضرور ہوتے ہیں جس پر بطور ایک محب وطن شہری کم علمی کے باوجود اپنا موقف بیان کرنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں، نجانے کیوں مگر اس جشنِ آزادی کو منانے کیلئے میرے دل میں کوئی بھی جذبہ نہیں جاگا۔ اس کی وجوہات شاید وطنِ  عزیز کی روز بروز بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتِ حال ہے۔

یہاں قانون کی پاسداری کی گرتی ہوئی ساکھ،سیاستدانوں کی ملکی ترجیحات پر اپنے ذاتی  مفادات کو مقدم رکھنے کی ر وش  ہے۔  سوشل میڈیا پر ایک خبر  پڑھی  کہ پڑوسی ملک اپنے جشن آزادی پر مکمل طور پر اپنے ملک میں تیار شدہ الیکٹرک کار کا  افتتاح کررہا ہے  اور اس کے مقابلے میں ہمارے  نیا  ملی نغمہ  لانچ کیا گیا۔

اس سے ہماری قومی ترجیحات  بالکل واضح  ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں ،نہ کسی کو ملک کی اقتصاد کا خیال ہے نہ اس کی عزت ووقار کا ،نہ اس کے نوجوانوں کا اور نہ اس کے وسائل کے   زیاں  کا۔

عوامی سطح پر کچھ ایسے لوگ ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کے بارے اور ملکی وسائل سے استفادے کےلئے نا  صرف سوچتے ہیں بلکہ عملاً  میدان میں اُتر چکے ہیں ان میں جناب سلیم صاحب المعروف ابنِ فاضل اینڈ کمپنی خوشحال پاکستان والے ،ہشام سرور صاحب بیئنگ گورو،ریحان اللّٰہ والا یو ٹیوب سے استفادہ سکھانے والے،جنید احمد پاکستان سکالرشپ لیگ والے،وقار احمد سکالرشپ نیٹورک والے،قاسم علی شاہ صاحب موٹیویشنل سپیکر وغیرہ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ شخصیات اس حوالے سے کافی کچھ کر رہی  ہیں مگر ان لوگوں کو کوئی حکومتی تعاون حاصل نہیں ۔ایسے لوگوں کے تعاون سے حکومت کو اپنے پانچ ، دس سالہ اور پچیس سالہ منصوبے بنانے چاہیئں  اور جدید ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال نوجوانوں کو سکھانا اور اس کے بُرے استعمال سے روکنے کے لیے  سدِ  باب کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply