5جولائی, ہاں ہم سب غلطی پر تھے-

ہماری ستر برسوں کی تاریخ الزامات سے بھری ہوئی ہے مگر اعترافات سے خالی ملے گی-
پاکستان کے حکمرانوں میں سیاسی رہنما, فوجی جرنیل, قانون دان, جاگیردار, صنعت کار گزرے ہیں لیکن کسی کے ضمیر نے اسے مجبور نہ کیا کہ اقتدار کے سنہری دور کے ان تاریک دنوں کا ذکر بھی کیاجائے جب ان کے غیر منصفانہ اور جاہلانہ فیصلوں نےقوم او ر وطن کو ترقی کے بجائے پستی کے سفر پر ڈال دیا-
آمرانہ رویے, شخصی آزادیوں پر پابندی, سیاسی مخالفین کے ساتھ تذلیل آمیز رویے اور پھر ان کو منظر سے غائب کروا دینا, شہریوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کی خلاف ورزی, صوبائی خود مختاری پر عمل در آمد نہ کرنا, کرپشن, لوٹ مار, اقربا پروری, پیچیدہ ترین محلِ وقوع کے ملک کے لیئے پائدار خارجہ پالیسی کا فقدان, لسانی, علاقائی اور مسلکی تنازعات کا مستقل حل تلاش نہ کرنا,ایک طویل فہرست ہے ان ناکامیوں اور ناکام پالیسیوں کی جو ریکارڈ پر موجود ہیں-

ایک جے آئی ٹی(JIT) تاریخ کی بھی ہے جس کے کٹہرے میں آمر اور جمہوری, دونوں مجرم اپنے اعمال ناموں کے ساتھ منتظرِ قضا دکھائی دے رہے ہیں-
وہ تحریر غیر منصفانہ ہوگی جو ماضی کی حکومتوں کے جرائم کی داغدار تصویر تو دکھائے مگر انہی آمروں اور سول حکمرانوں کی خدمات اور کامیابیوں کی عکاسی نہ کرے- آمروں کے مظالم اور جرائم کی داستانیں ہمارے جمہوریت پسند اور حقوقِ انسانی کے علم برداروں کو ازبر ہیں اور ان داستانوں کے حفاظِ کرام اخباری صفحات اور چینلز پر معزز دانشور کہلواتے ہیں-مگر افسوس کہ ان آمرانہ ادوار میں ملک کی صنعتی, دفاعی, زرعی اور سائنسی ترقی کے روشن میناروں تک ان جمہور دوستوں کی بینائی کی رسائی نہیں ہے۔کیا ہم کسی سول حکمران سے محض نظریاتی یا سیاسی اختلاف کی بنیاد پر اور اس کی ناقص پالیسیوں اور سیاسی یا انتظامی غلطیوں کی وجہ سے اس کے کارناموں اور خدمات کو یکسر بھول جائیں-

یاد رہے کہ دو دساتیر کی تیاری اور تنسیخ کے تلخ تجربات کے بعدپاکستان کو پہلا وفاقی, جمہوری دستور سول حکمرانوں اور اس دور کی سیاسی قیادت کی کاوشوں سے ہی حاصل ہوا-ملک میں اسکولوں, کالجوں اور دیگر اداروں کا قیام سول حکمرانوں کے دور میں بھی ہوا-صوبائی خود مختاری کو دستور میں ترامیم کے ذریعے نافذ کیا گیا- نئے ادارے قائم ہوئے اور لوگوں کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوئے-ملک کے دو لخت ہونے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟۔۔۔دونوں جانب ان گنت دلائل ہیں اور بے شمار تحقیقی کتابیں ہیں-

ہم سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری کی کیفیت اور کمیت کی بحث کو ایک جانب رکھا جائے تو اس وقت کے آمر حکمران, سیاسی قیادت(استثنا موجود) , تمام ادارے, بشمول میڈیا اور ہم سب بحیثیتِ مجموعی اس سانحے کے مجرم ہیں-ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری تاریخ شخصی اور جمہوری حکمرانوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی مشترکہ تاریخ ہے-۔۔۔ہیرو یا ولن, سب ہمارے اپنے تھے اور اپنے ہیں-ماضی میں متعدد کامیاب اور ناکام کوششیں ہوئیں کہ متضاد سیاسی نظریہ اور منشور رکھنے والے کسی اتفاق تک پہنچ سکیں , مگر افسوس جمہور تمام تر ثمرات سے محروم رہے-ہماری سیاسی قیادت نے 1958 سے کیا سیکھا؟۔۔شاید 1969 یا 1971 سے کچھ سیکھا؟۔۔ممکن ہے کہ 1977 سے بہت کچھ سیکھا ہو؟۔۔۔1998 نے بھی تو کچھ سبق سکھایا, پڑھایا, سمجھایا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم روشنی کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں-ہم اپنی بالغ النظر سیاسی لیڈرشپ سے خوش گمانی رکھتے ہیں جب انہوں نے”میثاقِ جمہوریت”کے نام سے ایک نئی سول سوسائٹی کے قیام کا عہد نامہ رقم کیا-وائے ناکامی کہ پھر سانحات کا ایک زنجیری سلسلہ شروع ہوگیا ,امید کا ایک مدہم سا دیپ بھی بجھ گیا-5 جولائی 1977 کا دن ہماری سیاسی ناکامیوں کی کتاب کا نمایاں ترین دن ہے,جب ہماری اعلٰی دماغ, روشن خیال, باکردار, محبِ وطن, بلند نگاہ سیاسی و قومی لیڈر شپ
وقت کے حساس لمحات کا اندازہ نہ لگا سکی,جب پچھلے پہر وارد ہونے والے شب خون کی آہٹ نہ سن سکی,اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی-

Facebook Comments

مجید رحمانی
لکھاری اور تجزیہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”5جولائی, ہاں ہم سب غلطی پر تھے-

Leave a Reply