مرثیے،نوحے،قصیدے۔۔سیّدمہدی بخاری

نوحے، قصیدے، منقبتیں، مرثیے، سلام
بخشا ہے یہ ادب کو قبیلہ حسین نے 

واقعہ کربلا اور امام عالی مقام کی لازوال قربانی نے اردو ادب پر بھی گہرے اثرات ثبت کیے  ہیں ۔ میدانِ  کربلا میں حضرت امام حسین نے تاریخِ انسانی کی ایسی قربانی پیش کی کہ آج لگ بھگ 14 صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ان کی یاد اور غم کی چادر چہار سو پھیلی دیکھی جا سکتی ہے۔۔اسے کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک تو وثائی ادب ہے جس میں مرثیہ، نوحہ ، سلام، سوز اورمنقبت وغیرہ شامل ہیں جن میں خالصتاً کربلا اورامام حسینؑ اورا ن کے جانثاراں کے عظیم کارنامے کونا  صرف بیان کیا گیا بلکہ اپنی عقیدت کااظہار بھی کیا گیا۔ یہ ایک اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ جس کی اہمیت اور معنویت مسلم ہے۔ اس کے علاوہ بھی اردو غزل اور نظم میں جابجا کربلا، قربانی، علم، پیاس، خون وغیرہ کا ذکر استعارے کے طور پر شعرا ء  نے کیا ہے ۔۔۔ امام عالی مقام نے اپنی اور اپنے رفقا کی قربانیوں سے انسانیت کو الوہی بنیادوں پر استوار کیا تو دوسری جانب ادب کو بھی ایک پورا قبیلہ بخشا ہے۔

میر انیس سے لے کر جوش ملیح آبادی تک اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سے لے کر فیض احمد فیض تک سب کے سب کربلا سے متاثر نظر آتے ہیں۔ موجودہ دور کے شعرا نے بھی اپنی اپنی بساط اور عقیدت کے مطابق کربلا کے مختلف پہلوؤں کو موضوع سخن بنایا ہے ۔۔ میر انیس اور میرزا دبیر نے مرثیہ نگاری کو موضوع سخن بنایا ہے ۔مرثیہ میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو اردو شاعری اور ادب کی دیگر اصناف میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً فصاحت و بلاغت،واقعہ نگاری،تشبیہات و استعارات،رزمیہ شاعری، کردار نگاری، منظر کشی،رجز،جذبات نگاری،تصادم و کشمکش،مکالمہ، حالات و ماحول کی عکاسی،غزل کا تغزل، نظم کی روانی، داستان کا تسلسل یہ سب خصوصیات ہمیں مرثیہ نگاری میں ملیں گی۔

مرثیہ نگاری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حق اور باطل کا فرق واضح کیا جاتا ہے۔مرثیہ نگاری سے ظالموں،جابروں سے نفرت اور مظلوم کی مظلومیت کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ سننے والے کے ذہن میں واقعہ کا پورا نقشہ کھنچ جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مرثیہ میں نیکی اور بدی کا فرق واضح کیا جاتا ہے اور خیر اور شر کی آویزش کو بہت واضح کر کے دکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر فیض احمد فیض کے مرثیہ کے اشعار ہیں

اورنگ نہ افسر ،نہ علم چاہیے ہم کو
زر چاہیے ،نہ مال و درہم چاہیے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اک حرفِ یقیں و دولت ِایماں ہمیں بس ہے
طالب ہیں‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌صداقت کے پرستار
انصاف کے نیکی کے مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں‌ وہ منکرِ‌دیں‌ ہے

علامہ اقبال نے تو “معنی حریت اسلامیہ و سرِحادثۂ کربلا” کے عنوان کے تحت عقل و عشق اور کردار حسین (ع) کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اظہار فرمایا ہے اور اس کے ذریعے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی اور بیداری کی کوشش کی ہے، علامہ نے اس عظیم واقعہ کو ذبح عظیم سے تعبیر کیا ہے۔

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

اور پھر کہا

نقشِ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطرِ عنوان نجات مانوشت

علامہ اقبال کی اردو شاعری میں بھی یادگار اور فکر انگیز اشعار نسل انسانی کی رہنمائی اور کربلا سے ان کے تعلق و تمسک کا بہترین اظہار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

اور اس شعر میں ایک تاریخ کو کیسے سمایا ہے اقبال نے

غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل

اقبال نے عشق و صبر کا تصور یوں پیش کیا ہے:

صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں، بدر و حنین بھی ہے عشق

ایک جگہ اقبال نے امت مسلمہ میں لیڈرشپ کی کمی کو کربلا کے پس منظر میں پیش کیا ہے

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات

’’بال جبرائیل ‘ ‘ میں علامہ ’’فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اک فقر سکھاتا ہے صیاد کونخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی ، سرمایہ شبیری

علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

غزل گو شعراء نے بھی اپنی غزلوں میں ظلم و ستم اور قربانی و ایثار و وفا کی اس داستان کو اپنے کلام کا حصہ بنایا۔ مثال کے طور پر مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر دیکھئے:

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

غزل کی زمیں میں نجم آفندی کی غزل کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں

جاں نثاروں نے ترے کر دیئے جنگل آباد
خاک اُڑتی تھی شہیدانِ وفا سے پہلے

بہادر شاہ ظفر نے کربلا کی پیاس کا استعارہ اس شعر میں استعمال کیا ہے:

ترسا نہ آبِ تیغ سے ظالم تو کر شہید
کوچہ نہیں ہے تیرا کم از کربلا مجھے

پروین شاکر کی غزل کا یہ شعر بھی پیاس و تشنگی کی علامت لیئے ہوئے ہے:

پہروں کی تشنگی میں بھی ثابت قدم رہوں
دشتِ بلا میں، روح مجھے کربلائی دے

جوش ملیح آبادی کا شہرہ آفاق شعر ملاحظہ ہو

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

منیر نیازی ہمارے عہد کے ایک اہم اورمنفرد آواز ہیں جنہوں نے اپنے مجموعے’’دشمنوں کے درمیان‘‘ کاانتساب ہی امام حسین علیہ السلام کے نام سے کیا ہے۔

خواب جمال عشق کی تعبیر ہے حسینؑ
شام ملال عشق کی تصویر ہے حسینؑ

میز نیازی کے مزید اشعار پیش خدمت ہیں :

دل خوف میں ہے عالم ِفانی کو دیکھ کر
 آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر

ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں

میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پر جھیل کے دیکھے

احمد ندیم قاسمی نے کچھ یوں شعروں میں سمویا ہے:

یہ شہادت ہے اس انسان کی کہ اب حشر تلک
آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں

قاسمی صاحب کی غزل سے ہی دو مزید اشعار پیش ہیں

جب تجھ سے ہوئے مرے تشنہ دہن کے لب
اے دشت کربلا تری قسمت بدل گئی
یہ راہ حق میں صرف شہادت نہ تھی ندیم
اک زندگی فنا سے بقا تک نکل گئی

جون ایلیا کو کون نہیں جانتا ۔۔۔ جون ایلیا نے اپنے اشعار میں واقعہ کربلا کو استعارے کے طور پرکچھ یوں پیش کیا ہے:

ایک عجیب کربلا صبح سے تھی وہاں بپا
عرصۂ دل میں شام تک کوئی بچا بھی یا نہیں

علی سردار جعفری:

درد دریا ہے ایک بہتا ہوا
جس کے ساحل بدلتے رہتے ہیں
وہی تلوار اوروہی مقتل
صرف قاتل بدلتے رہتے ہیں

مجید امجد فرماتے ہیں:

سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جوتیرا حکم، جوتیری رضا، جوتوچاہے

مجیدامجد عہدرفتہ کا ایک منفرد شاعر ہے جب بھی چند بڑے شعراء کانام لیاجاتا ہے تومجید امجد کانام ضرور لیاجاتا ہے حضرت زینب عالیہ ؑ کی خدمت میں یوں نذرانہ پیش کرتے ہیں:

وہ قتل گاہ، وہ لاشے، وہ بے کسوں کے خیام
وہ شب، وہ سینہ کونین میں غموں کے خیام
وہ رات، جب تری آنکھوں کے سامنے لرزے
مَرے ہوؤں کی صفوں میں، ڈرے ہوؤں کے خیام
یہ کون جان سکے ، تیرے دل پہ کیا گذری
لٹُے جب آگ کی آندھی میں ، غمزدوں کے خیام
ستم کی رات، کالی قنات کے نیچے
بڑے ہی خیمہ دل سے تھے عشرتوں کے خیام
جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا
اکھڑچکے ہیں ترے آنگنوں کے خیام

مصطفی زیدی کاایک نامکمل مرثیہ’’کربلااے کربلا‘‘ بہت مشہور ہے اس کے علاوہ ان کے اشعار میں کربلا کے حوالے سے ذکر ملتا ہے۔

نام حسینیت پہ سر کربلائے عصر
کس کاعلم ہے کس کے علمدار دیکھنا
مجھ پرچلی ہے عین بہ ہنگامۂ سجود
اک زہر میں بجھی ہوئی تلوار دیکھنا

شہرت بخاری جدید اردو غزل کے نامور شعراء  میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے کلام سے پیش ہے:

جز حسینؑ ابن علیؑ مرد نہ نکلا کوئی
جمع ہوتی رہی دنیا سرمقتل کیاکیا

ایک جگہ فرماتے ہیں :

پھرکوئی حسینؑ آئے گا اس دشت ستم میں
پرچم کسی زینب کی ردا ہوتی رہے گی

افتخار عارف کی شاعری میں کربلا کی تمام علامات نئے روپ لئے ہوئے ہیں:

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کارشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑنا ہے اورگھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس جس کوجانا ہے

افتخار عارف نے واقعہ کربلا پر اور امام عالی مقام کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے کلام میں جگہ جگہ استعارے استعمال کیئے ہیں

خلق نے اک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
پتھر پہ سر رکھ کرسونے والے دیکھے
ہاتھوں میں پتھر نہیں دیکھا بہت دنوں سے

ان کی ایک غزل پیش ہے :

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے
موت رُسوا ہو چکی ہے زندگی سجدے میں ہے
وہ جو اک سجدہ علی ؑ کا بچ رہا تھا وقتِ فجر
فاطمہؑ کا لال شاید اب اُسی سجدے میں ہے
سنتِ پیغمبرؐ خاتم ہے سجدے کا یہ طول
کل نبیؐ سجدے میں تھے آج اک ولی سجدے میں ہے
وہ جو عاشورہ کی شب گُل ہو گیا تھا اک چراغ
اب قیامت تک اُسی کی روشنی سجدے میں ہے
حشر تک جس کی قسم کھاتے رہیں گے اہلِ حق
ایک نفسِ مطمئن اُس دائمی سجدے میں ہے
نوکِ نیزہ پر بھی ہونی ہے تلاوت بعد عصر
مصحف ناطق تہِ خنجر ابھی سجدے میں ہے
اِس پہ حیرت کیا لرز اُٹھی زمین کربلا
راکبِ دوشِ پیمبرؐ آخری سجدے میں ہے

ہمسایہ ملک ہندوستان کے شعرا نے بھی اپنے انداز و لہجے میں کربلا کو موضوعِ سخن بنایا ۔۔ چند مشہور شعرا کے کچھ اشعار پیش کیئے دیتا ہوں

خلیل الرحمن عظمی(آف انڈیا):

سپاہ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا

شاذ تمکنت(آف انڈیا):

کچھ لوگ تھے جودشت کوآباد کرگئے
اک ہم ہیں جن کے ہاتھ سے صحرا نکل گیا

شہریار(آف انڈیا):

حسینؑ ابن علیؑ کربلا کوجاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

فارغ بخاری:

ہے فخر نسبت شبیر پرہمیں فارغ
بغاوتوں کی روایت ہمارے گھر سے چلی

کچھ نامور شعرا کے کلام سے مزید پیش ہے

عبیداللہ علیم:

اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کادن
اب رہ گیا ہے شام کابازار دیکھنا

سلیم کوثر:

یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں

جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہوسلیمؔ
اہل حق ہوں تو بَہتر(72) بھی غضب ہوتے ہیں

اقبال ساجد:

تونے صداقتوں کانہ سودا کیا حسینؑ
باطل کے دل میں رہ گئی حسرت خرید کی

امیرمینائی:

جوکربلا میں شاہ شہیداں سے پھرگئے
کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھرگئے

اے۔جی جوش:

کی دفن جویزید نے اقدار دین کی
پھرزندہ کرگئی ہے کرامت حسینؑ کی

ڈاکٹر بیدل حیدری:

دشت کرب وبلا کاحال نہ پوچھ
دورتک گرد یاس ملتی ہے
بھوک ملتی ہے پیاس ملتی ہے
لیکن اس دشت میں مسافر کو
ایک مینار نور ملتا ہے
جس سے درس شعور ملتا ہے

نثار سید:

نہ سرپہ چادر زہرا نہ ساتھ بھائی کا
تیرے نصیب میں زینب عجب سفر آئے
حسینیت سے کرو اخذ رسم حق گوئی
سواد جبر میں جب مشکل گھڑی آئے

قمر جلالوی:

اصغر جگر کوتھام کے روتی ہے فوج شام
تم تیر کھا کے آئے ہویا تیر مار کے

گلزار بخاری:

کسی سے اب کوئی بیعت نہیں طلب کرتا
کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کاہے

محسن نقوی:

اس نہج پر انسان نے سوچا ہی کہاں ہے
شبیر زمانے میں رسالت کی زباں ہے
یہ ابر کا ٹکرا جو بکھرتا ہے فضا میں
سادات کے جلتے ہوئے خیموں کا دھواں ہے

محسن نقوی کے دو اشعار مزید ملاحظہ ہوں

اس کم سنی میں یوں صف اعدا سے انتقام
اصغر توابتدا میں ہوا انتہا پسند
ثابت ہوئی یہ بات دیارِ دمشق میں
زینب خدا کے دین کوتیری ردا پسند

مجبوریِ اختصار کے باعث کئی شعرا اکرام کے کلام سے امام عالی مقام کی لازوال قربانی سے متعلقہ اشعار پیش نہیں کر سکا ۔۔۔ چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی آج تک غمِ حسین انسانوں کے دلوں اور ذہنوں پر چھایا ہوا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے دو اشعار پر اختتام کرتا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ جو نورِ چشمِ بتول تھا ، وہ جو گلِ ریاضِ رسول تھا
اسی ایک شخص کے قتل سے میری کتنی صدیاں اُداس ہیں
وہ ہیں لفظ کتنے گراں بہا جو نبھا سکیں تیرا تذکرہ
میرے آنسوؤں کو قبول کر یہ میرے حروفِ سپاس ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply