بغاوت سے پچھتاوے تک(دوم،آخری حصّہ)۔۔افتخار بلوچ

کنول کے لیے اپنے خاوند کو برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا اور اس کا دل آصف کی باتوں میں لگنے لگا۔ آصف بھی ہر سوچ کے پردے پر کنول کو خوش کرنے کے کردار تخلیق کرتا رہتا۔ یوں زندگی نے کچھ اور دن پلکوں سے ڈھلکا دیے۔
ایک دن حسب معمول کنول صبح کے وقت سوچ میں گم تھی جب اسے یوں محسوس ہوا جیسے گھر کی دیواریں اسے سننے کے لیے بیتاب ہیں۔ جیسے یہ پتھر جواب دیں گے! فوراً دیواروں کی جانب دیکھتے ہوئے کنول نے کہا۔۔
“عاشر تو تمہارے قابل بھی نہیں میں تو پھر کنول ہوں، جیتا جاگتا انسان, ایک عورت!”
“مگر اب تو میں ٹھیک ہوں! ہاں، بالکل بہتر ہوں۔ عاشر جائے جو کرنا ہے اسے وہ کرے۔ عاشر کو اس گھر میں کبھی میں برداشت نہیں کروں گی۔ اسے مجھ کو طلاق دینا ہوگی لازمی دینی  ہوگی اور طلاق کی شرائط پوری کرتے کرتے اس کی زندگی ختم ہو جائے گی۔ مجھے ملک کا قانون انصاف لے کر دے گا!”
تھوڑی دیر بعد ہی آصف آ گیا اور کنول کو سوچ میں گم دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔
“کیا ہوا؟ کس سوچ میں آپ گم ہیں”
“میں نے عاشر سے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا ہے!”
کنول کی بغاوت ایک حد تک پہنچ چکی تھی اور جائز تھی بلکہ یہ بغاوت بھی نہیں تھی یہ اس کا حق تھا۔
آصف یہ بات سن کر ششدر رہ گیا مگر اس نے کنول کے فیصلے کی تائید کی۔ اس سے کنول کے اندر کی بغاوت اور سبز ہو گئی۔ رات کو عاشر جب گھر لوٹا تو کنول کا فیصلہ سن کر دم بخود رہ گیا۔ کافی دیر بحث و مباحثہ کے بعد بالآخر عاشر دوسرے کمرے میں جا کر سو گیا مگر نیند کی اسے بھیک نہ ملی۔ وہ مسلسل ازالے کا سوچتا رہا۔ سیما کا تعلق اس کا گناہ تھا مگر کنول کے لیے اس کے دل میں چاہت تھی جس کی قدر و قیمت کو آصف بخوبی جانتا تھا۔ کچھ دن تک طلاق ہی گھر میں ہونے والی بحث کا موضوع رہا۔
کنول کے لیے دل کا غبار نکالنے کا واحد راستہ آصف تھا۔ باقی سارا وقت عاشر کے خلاف بغاوت اس کے وجود میں دہکتی رہتی۔ اس کا یہ روپ بغاوت تھی کہ ناراضگی مگر طلاق کے تقاضے کی حد تک جائز تھی۔ اس دلیل نے کنول کے دل کو عاشر کے لیے مزید تنگ کر دیا تھا۔ کبھی کبھی اس کا دل یہ بھی کہتا تھا کہ عاشر کو معاف کر دیا جائے مگر فوراً وہ تصویریں اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جایا کرتی تھیں۔
زندگی کے قافلے میں لمحے ماتم خوانی کرتے ہیں اور انسان یہ نہیں سمجھ پاتا کہ یہ کس سانحے کی آہ و زاری ہے۔ ماضی کی دیوار سے لہو پگھلنے لگا ہے یا مستقبل کے کسی خوف کو کوئی شکل مل گئی ہے۔ یونہی گزرتے دنوں میں آصف اور کنول کے درمیان کا تکلف اٹھ سا گیا اور اُنس بھری قربت نے ڈیرے ڈال دیے۔ عاشر ان حالات کو بالکل نہ سمجھ پایا۔ اسے آصف بھی مایوس محسوس ہوتا اور کنول بھی زبان کو انگارہ کیے ہوئے دکھائی دیتی۔
آصف اور کنول کی یہ قربت اتنی بڑھی کہ کنول کو حمل رہ گیا! اور جیسے ہی کنول کو اس بات کا اندازہ ہوا وقت اس کے لیے الٹی سمت گھومنے لگا۔ اب اسے اپنے باغی روپ سے نفرت ہونے لگی خود سے وحشت ہونے لگی اور گزرتے لمحوں میں کسی کسی لمحے میں عاشر معصوم نظر آنے لگا کیونکہ اس کے خیال میں تو مرد ہی فطرتاً خطاکار تھا مگر اس سے یہ سب کیسے ہو گیا؟ یہ سوال اژدہا بن گیا، بغاوت کردار کا داغ بن گئی اور اس احساس سے جان لیوا چیز کوئی اور نہ تھی۔
یہ خبر سن کر آصف تو جیسے زمین میں دھنس گیا۔ اسے شدید احساس ہوا کہ کاش وہ کنول کو جانتا ہی نہ ہوتا۔ کاش وہ عاشر کا دوست ہی نہ ہوتا! اس نے کنول سے کہا
“بچہ ضائع کروا دو ضائع کروا دو پلیز!” اس کے لہجے میں منت تھی بے بسی تھی۔
“میں کوئی اتنی نیک نہیں مگر بچہ ضائع کروانے کا سوچ کر مجھے ایک آواز ضرور آتی ہے اور وہ یہ کہ زنا جتنا بڑا جرم ہو قتل سے کم ہے۔ تم اس بچے کے باپ ہو!” کنول نے ایسے فیصلہ کن لہجے میں کہا کہ آصف کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔
آصف اسی شام شہر سے ہجرت کر گیا اس نے فون بند کردیا۔ وہ دونوں عاشر اور کنول سے شدید خوفزدہ ہو چکا تھا۔
کنول بھی فرار ڈھونڈنے کے لیے کچھ دن کے لیے والدین کے گھر چلی گئی۔ شدید پچھتاوے کی پیدائش سے طلاق کا تقاضا اسے گزرے ہوئے وقت کا کوئی لطیفہ لگتا۔ عاشر کی زندگی میں بھی کچھ ٹھہراؤ آ گیا مگر وہ اس طرح آصف کے جانے پر ضرور حیران تھا۔
زندگی کی نمو کب تک چھپائی جاسکتی ہے۔ زندگی باطن سے خروج کرتی ہے اور ظاہر میں وارد ہوتی ہے اور یوں ہوتی ہے کہ باقی ہر شے کو شکست فاش دے دیتی ہے۔ زندگی نے بول کر اپنے ثبوت دیے ہیں کنول بھی کب تک اس بات کو چھپا سکتی تھی۔ کنول جب اپنے والدین کے گھر سے واپس آئی تو اس نے عاشر کو حمل کے بارے میں بتا دیا مگر خوف کی وجہ سے یہ صاف چھپا لیا کہ یہ حمل کس سے ہوا ہے!
عاشر کو یہ خبر سن کر ہی ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کائنات کی ہر شے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہو۔ جیسے اس کے گناہ کا ازالہ اتنی جلدی ہو گیا ہو کہ احساس گناہ کے پرورش پانے سے پہلے خوشی نصیب ہو جائے۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبائیں اور اس نے فرط جذبات میں بڑھ کر کنول کو سینے سے لگا لیا۔
“شکر ہے شکر ہے اب تو طلاق بھی نہیں ہو سکتی! قدرت نے مجھے موقع دیا ہے ۔ اتنے وقت میں کنول تمہارا دل بھی بدل جائے گا بس معاف کر دو مجھے۔ مجھے بہت احساس ہو چکا ہے تم فکر مٹا ڈالو ہر قسم کی کہیں بچے پر کوئی اثر نہ پڑ جائے” عاشر کے لہجے میں خوشی نے بہار پیدا کردی تھی۔ مگر اس کا ایک ایک لفظ کنول کے لیے شدید پچھتاوے کا اشارہ تھا۔ کنول یہ الفاظ سن کر اندر سے ختم ہو رہی تھی اسے اپنی زندگی سے اتنی نفرت کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس وقت ہو رہی تھی۔
کنول یہ سن کر رو پڑی۔ بے اختیار اس کے آنسو بہنے لگے اسے خود سے وحشت ہونے لگی اور اسے عاشر دنیا کا نیک ترین مرد محسوس ہونے لگا۔ رات کو کافی دیر تک عاشر اس کے ساتھ پیار بھری باتیں کرتا رہا مگر کنول اندر ہی اندر خود کو کوستی رہی۔ دن گزرتے گئے۔ عاشر نے خود کو کنول کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ وقت کی اس حسین خماری میں آصف بھی اس کے ذہن سے محو ہو گیا۔
جوں جوں کنول کا بوجھل پن زیادہ ہوتا گیا اسکی آواز خاموش ہوتی گئی۔ اس کی آنکھیں ویران ہوتی گئیں اور رخسار گلاب کی سوکھی ہوئی پتیوں کی مانند ہوتے گئے جن کی سرخی مائل رنگت پیلاہٹ سے بدلتی گئی۔ عاشر ان سب علامات کی وجہ پیٹ میں موجود بچے کو سمجھتا رہا وہ کنول کی ذہنی اذیت سے لاعلم ہو چکا تھا۔ وہ ایک روبوٹ بن کر رہ گیا تھا جس کی حس ادراک ختم ہو چکی تھی۔ اور کنول تھی کہ جب بھی حقیقت بتانے کا سوچتی تو اسے لگتا جیسے عاشر خنجر لے کر کھڑا ہے اور پہلے ہی وار میں بچے کی گردن کاٹ دے گا اور کنول کو دھیمی موت مرنے کے لیے چھوڑ دے گا۔ کبھی اس کے ذہن میں آتا کہ عاشر اسے باندھ کر کسی جنگل میں پھینک آئے گا۔ اسے آصف سے نفرت ہوتی مگر اس سے کہیں زیادہ اپنے آپ سے نفرت ہوتی۔ کبھی وہ رونا چاہتی تو صرف افسوس ہوتا آنسو نہ ڈھلکتے۔ ایک مرتبہ تو اس نے یہ بھی خود کلامی میں کہا۔۔۔
“کاش! یہ بچہ خود ہی مر جائے۔ حرام تو پہلے سے ہی اس دنیا میں اتنا موجود ہے کہ اور حرام کی گنجائش نہیں۔ کہیں میں بھی تو حرام نہیں ہوں؟” کنول کی ذہنی اذیت اب دیوانگی کا در کھٹکھٹا رہی تھی۔
ایسی جان لیوا کیفیت میں جو واحد شے اس کے دل کو کبھی کبھی تسلی دیتی وہ یہ تھی کہ کنول کو اپنی زندگی سے زیادہ اس بچے کی زندگی عزیز تھی جس نے ابھی زندہ ہونا تھا اور آنکھیں کھولنا تھیں۔ وہ اس بات پر فکر مند تھی کہ احساس گناہ کی اتنی شدت کے باوجود بھی اس نے زندگی کا راستہ نہیں روکا تھا۔ اور اس کیفیت میں اسے اپنی موت عزیز تھی۔ مگر یہ افتخار اتنا طاقتور نہیں تھا کہ اس کے دل میں موجود پچھتاوے کے ناگ کو مار ڈالے۔ دن بہ دن کنول کی حالت دگرگوں ہوتی گئی۔ وہ ختم ہو رہی تھی اور عاشر خوش تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ کنول پر کیا بیت رہی ہے۔ اس کے جرم نے کنول پر جو زخم لگایا تھا اب اسے کنول کی اپنی نزاکت گہرا کر رہی ہے۔ وہ بہت خوش تھا اس بات پر کہ وہ باپ بننے والا ہے اس کی نسل چلنے لگی ہے!
کنول کی شخصیت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ موہوم ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے گناہ کا سارا بوجھ اپنے ہی کندھوں پر لاد لیا تھا۔ آصف بھی اس کے ذہن سے اترتا جا رہا تھا مگر وہ اسے ہر وقت یاد رہتا۔ جسم میں ہر اٹھتے درد کے ساتھ اسے اپنی سسکیاں اور آصف کے قہقہے سنائی دیتے۔ عاشر کی خوشی اور اسکی خدمت گزاری دیکھ کر کنول کا احساس گناہ اور بڑھتا جارہا تھا۔ اب تو عاشر نے ایک خادمہ بھی مقرر کردی تھی۔ عاشر کنول کے پاؤں بھی زمین پر پڑتے ہوئے نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اسے دل میں کنول کے لیے ایسی محبت محسوس ہوتی جیسے اس نے کنول کو اپنے اندر سمو لیا ہو!
جوں جوں پیدائش کے دن قریب آتے گئے کنول کی خاموشی سناٹا بنتی گئی۔ عاشر نے لاکھ جتن کیے مگر اس رویے میں کوئی فرق نہ آیا۔ کنول کی والدہ بھی کنول کے پاس آ گئی تھیں مگر کنول کو یہ سب لوگ دیوار میں جڑے ہوئے مجسمے نظر آتے۔
ایک رات جب کنول کے پہلو میں بیٹھا ہوا عاشر اسے ہنسانے کی کوشش میں مصروف تھا کہ اس نے کنول سے پوچھا۔۔۔
“ہم اپنے بچے کا کیا نام رکھیں گے؟”
یہ سنتے ہی کنول زاروقطار رو پڑی۔ اسے ہچکیاں جاری ہو گئیں۔ بہت دیر رونے کے بعد جب آنسو بجھنے لگے تو کنول نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔
“عاشر! خدا کے لیے مجھے معاف کر دینا۔ خدا کا واسطہ ہے! میں نے تمہیں معاف کردیا تم بھی مجھے معاف کردینا۔ یہ آصف کا بچہ ہے! مجھ پر ظلم مت کرنا مجھے معاف کر دینا” کنول پھر سے رونے لگی۔۔
یہ سنتے ہی عاشر کے ذہن کو سمتیں بھول گئیں وہ چکرا کر رہ گیا اس نے بولنا چاہا مگر اس سے کچھ نہ بولا گیا۔۔
کچھ دیر رونے کے بعد کنول نے پھر ہمت باندھی اور کہا۔۔
“خدا کا واسطہ عاشر میری ماں کو نہیں بتانا اتنی بدکردار بیٹی کا سن کر وہ مر جائیں گی اس سے اچھا ہے میں ہی مر جاؤں یہ بچہ مر جائے آصف مر جائے!”
عاشر کے دل کو پہلی بار تینوں کے مرنے کا خیال اچھا لگا اور اس کا ایک آنسو رخسار سے ڈھلک کر بیڈ شیٹ میں جذب ہو کر رہ گیا۔
عاشر کو اس دن کے بعد گھر سے نفرت ہو گئی وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک دفتر بیٹھا رہتا وہاں سے اٹھتا تو آوارگی کرتا اور رات گئے جب گھر آتا تو اس کے قدم ڈگمگا رہے ہوتے۔ کنول کی والدہ دونوں کی اس حالت پر شدید پریشان تھیں مگر لاعلمی صرف ان کا تجسس ہی بڑھاتی اور وہ دونوں خاموش اس تجسس کا مداوا نہ کرتے۔ کچھ دن بعد دفتر میں بیٹھے ہوئے عاشر کو اس ہسپتال سے فون آیا جہاں کنول کو داخل کیا گیا تھا۔ وہ ایسی کراہت اور بیزاری سے ہسپتال آیا کہ اس کے قدم بہت تیز تھے شائد کنول کی محبت نے آخری انگڑائی اس کے دل میں لی ہو۔ جب وہ وارڈ میں داخل ہوا تو کنول کی والدہ ایک جھولے کے سامنے بیٹھی ہوئی دیوانہ وار رو رہی تھیں۔ ان کے آنسو قطار کی صورت ان گنت تعداد میں گرتے چلے جا رہے تھے۔
نرس نے عاشر کو آ کر بتایا کہ
سر! وی آر سوری! آپ کی مسز ڈیلیوری کے دوران فوت ہوگئیں” اور بچے کی طرف اشارہ تھا۔ وہ لڑکا تھا جس کی آنکھیں ابھی کھلنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
عاشر نے بڑھ کر بچے کو اٹھا لیا۔ اس کے آنسو بہنے لگے اور سینہ گھٹ گیا۔ ان گنت امکانات، گناہ کا احساس اور خوف اس کے ذہن میں بھر گئے وہ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہ تھا۔ وہ کنول کا قاتل تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply