راز پر لب کشائی۔۔۔خط نمبر 3 اور 4۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

معزز قارئین!
“Sharing  the  Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)  مقدس مجید
خط نمبر03
سفرکاآغاز
عزیز ڈاکٹر سہیل!
مجھے خوشی ہے کہ آپ میرے ساتھ اس سفر کو طے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ آپ کی مدد اور سہارے سے میں یہ سب کر پاؤں گی۔
ہم ،میرے تعلقات اور ماضی کے اس راز کا جائزہ لے سکتے ہیں جو آج بھی میری روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
میں صرف بیس سال کی تھی جب میں نے پہلی مرتبہ کسی ماہر نفسیات کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دنوں میں یونیورسٹی میں صحافت میں ماسٹرز کر رہی تھی اور اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ گھر والوں سے دور ہونے سے پیش آنے والے مسائل سے نمٹ رہی تھی۔ چونکہ میں اپنی والدہ کے بہت قریب تھی اس وجہ سے انھیں بے پناہ یاد کرتی تھی۔ میں ایک مشکل ڈگری کر رہی تھی اور مجھ پر پاس ہونے کا بہت پریشر تھا۔ کینیڈا کی یونیورسٹی نے میری امریکہ سے حاصل کی ہوئی انڈر گریجویٹ ڈگری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مجھے پہلے تین مہینے نصابی پروبیشن پر رکھا۔ بہت کچھ تھا جو مجھے ثابت کرنا تھا۔ جیسے جیسے اپنے بل بوتے پر جینے کا دباؤ اور کامیاب ہونے کا پریشر بڑھا، میرا ڈپریشن بھی بڑھتا چلا گیا۔ مجھ میں خودکشی کے خیالات پیدا ہونے لگے۔  ایک شدید ضرورت ابھرتی کہ مجھے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے بار بار دروازوں کے تالے، چولہے، ٹونٹیاں اور برقی آلات چیک کرنے چاہئیں جو کہ میرے ڈپریشن کو بڑھاوا دیتی۔ یہ سب اتنا برا ہو گیا کہ میں اپنے بیچلر اپارٹمنٹ سے صرف تب باہر نکلتی جب میری کوئی کلاس ہوتی۔ بعض اوقات چیزوں کو بار بار چیک کرنے کا یہ رویہ اتنا بڑھ جاتا کہ میں بیماری کی اطلاع دے کر کلاس چھوڑ دیتی۔ میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ باہر جانے یا پارٹی کرنے کی پیشکش کو بھی رد کر دیا کرتی۔
ڈاکٹر خالد سہیل
ایک دن میں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں چل رہی تھی اور عام دنوں سے کہیں زیادہ مرجھائی ہوئی اور بے چین تھی۔ میں نے ان طریقوں کے متعلق سوچنا شروع کر دیا جن سے میں اپارٹمنٹ جانے کے بعد خود کو نقصان پہنچا سکوں۔ بعد میں میں خود کو تیز آلات والے دراز کے پاس سے گزرتے ہوئے  اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ایک چاقو نکال لینے سے روک نہ پائی۔ میں چیزوں کو بار بار چیک کرنے والے رویے اور اسکول کے پریشر کو مزید برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ میرا ذہن اتنا کیوں الجھا ہوا تھا؟ میں یہ بار بار چیک کرنے سے باز کیوں نہیں آ رہی تھی؟ میں احمق تھی۔ عام طور پر لوگ چیزوں کو اس حد تک چیک نہیں کرتے جیسے میں کیا کرتی تھی۔ مجھے اچانک سے احساس ہوا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے یا پھر بالآخر میں خود کو نقصان پہنچا لوں گی۔ میں مڑی اور کاؤنسلنگ سنٹر کی جانب چل دی۔ وہاں ڈیسک تک پہنچنے اور ایک کاؤنسلر سے ملنے کی درخواست کرنے تک مجھے بہت ہمت سے کام لینا پڑا۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی ایک درمیانی عمر کی خاتون نے وضاحت کی کہ ڈاکٹر سمتھDR  SMITH  ایک ماہرِ نفسیات ہیں جن سے میں اگلے ہفتے مل سکوں گی۔ میں نے ان سے ملاقات کا وقت تو لے لیا لیکن اگلے چند دنوں میں میں اس ملاقات کو کینسل کرنے کے بارے میں سوچنے لگی۔ کیا میں واقعی اتنی بیمار تھی کہ مجھے کسی نفسیاتی معالج کی مدد کی ضرورت تھی؟ یقیناً میں ایک مشکل وقت سے گزر رہی تھی لیکن میں اس سے خود بھی تو نمٹ سکتی تھی؟ میں کچھ اس وجہ سے بھی پریشان تھی کہ ماہر نفسیات کہیں مجھے پاگل سمجھ کر ہسپتال میں داخل نہ کر دے۔ پھر سکول سے چھٹی ہو جائے گی اور میں اپنے والدین اور سابقہ یونیورسٹی کے پروفیسر کو مایوس کر دوں گی جنھوں نے میری ماسٹرز کے پروگرام میں داخلے میں مدد کی تھی۔ میں اس بات سے بھی خوفزدہ تھی کہ  پچھلے پانچ سال سے میرے بوائے فرینڈ کو جب میرے ہسپتال میں داخل ہونے کے بارے میں علم ہو گا تو وہ کیا محسوس کرے گا؟
وہ ہفتہ بہت آہستہ آہستہ گزرا۔مجھے یوں لگا جیسے وقت رک سا گیا ہو۔ کسی طرح میں نے ہمت باندھی اور ڈاکٹر سمتھ سے ملی۔ ڈاکٹر سمتھ پچاس ساٹھ سال کی ایک بوڑھی خاتون تھیں۔ وہ اچھی خاتون تھیں اور مجھے پر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔  میں اپنے سادہ پن میں حیران تھی کہ ڈاکٹر سمتھ نے ڈاکٹروں والا سفید کوٹ کیوں نہیں پہنا؟ حالانکہ وہ ڈاکٹر تھیں۔ ڈاکٹر سمتھ نے پوری کوشش کی کہ میں کھل کر بات کروں مگر میں محتاط رہی۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں اپنی والدہ اور گھر والوں کو بہت یاد کرتی ہوں، مجھ پر اسکول کا بہت پریشر ہے اور مجھے رات کو سونے میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن  ان سے بات کرتے وقت ہمیشہ میرے ذہن میں یہ سوچ گردش کرتی رہتی کہ میری کہی ہوئی کوئی بھی بات ان کو وجہ دے سکتی ہے کہ وہ مجھے پاگل خانے میں داخل کر لیں۔ ان کے پاس اختیار تھا۔ میں خوفزدہ تھی کہ وہ میرے ہر لفظ کو پرکھ رہی ہیں اور مجھ میں ذہنی امراض کی نشانیاں تلاش کر رہی ہیں۔ تین مہینوں میں میں ان پر اتنا اعتماد قائم کر پائی کہ میں نے انھیں اپنے ڈپریشن کے متعلق بتایا۔ میں نے خود میں خودکشی کے خیالات پیدا ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا شاید انھیں اندازہ ہو گیا تھا اسی لیے انھوں نے مجھے مزید ملاقاتوں کے بارے میں کہا اور جب کبھی بھی ضرورت محسوس ہو ہیلپ لائن CRISIS HELP LINEپر کال کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے کبھی انھیں چیزوں کو بار بار چیک کرنے والی عادت کے متعلق نہیں بتایا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ اگر میں انھیں چیزوں کو بار بار چیک کرنے والی عادت کے متعلق بتاؤں گی کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے کس قدر گھبراہٹ اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مجھے پاگل سمجھیں گی۔ میں نے سوچا کہ جب میں خود جانتی ہوں کہ میں پاگل ہوں وہ بھلا کیوں نہیں سمجھیں گی۔  میں ان کو یہ سب بتانا چاہتی تھی۔ انھیں بتانا چاہتی تھی کی مجھے اپنا آپ کتنا برا محسوس ہوتا ہے اور بار بار ہر چیز چیک کرنے والی عادت سے مجھے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ کچھ ایسے دن بھی تھے کہ میں اس عادت سے تنگ آ کر مر جانا چاہتی تھی تا کہ مجھے دوبارہ کسی دروازے کو چیک نہ کرنا پڑے۔ میں انھیں اس گہری جذباتی اذیت کے متعلق بتانا چاہتی تھی جو میں ہرروز محسوس کرتی تھی لیکن میں جس جذباتی اذیت کی جہنم میں جل رہی تھی ہم نے اس کی سطح پر بھی بہت کم بات کی۔ ڈاکٹر سمتھ کی مدد سے میں نے اپنا پروگرام ختم کیا اور ڈگری حاصل کی۔ اب میں اپنی زندگی کا اگلا مرحلہ شروع کرنے کے لیے تیار تھی جو شادی اور اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ زندگی شروع کرنے کا مرحلہ تھا لیکن اذیت نے میری جان نہیں چھوڑی۔
یہ میرا کسی ماہرِ نفسیات سے ملنے کا پہلا تجربہ تھا لیکن یہ آخری تجربہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر سمتھ کے ساتھ اس تجربے سے مجھے اندازہ ہوا کہ ماہرینِ نفسیات اتنے بھی خوفناک نہیں ہوتے جتنا میں ان کو سمجھتی تھی۔ وہ بہت اچھی، مہربان اور شفیق تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ان کے ساتھ پوری طرح کھل کر بات نہ کر سکی۔ شاید وہ میری اور بھی مدد کر سکتیں اگر میں انھیں ایک موقع دیتی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو اذیت ایک عرصے تک میرے ساتھ چلتی رہی میں اس سے بچ سکتی تھی اگر میں ڈاکٹر سی سے کھل کر بات کرتی اور انہیں ساری کہانی سناتی لیکن میں اس وقت تیار نہیں تھی۔ ایسے کرنے کے لیے مجھ کو ایک لمبا عرصہ لگا۔۔۔۔۔
مخلص
جیمی
ـــــــــــــــ—————————————————-
خط نمبر04
گھرسےدوری
محترمی جیمی!
ہمارے تھراپی کے اس تعلق پر اس قدر اعتماد رکھنے پر میں آپ کا مشکور ہوں۔ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میں تہہِ دل سے آپ کی صحت اور خوشی چاہتا ہوں۔ ہمیشہ سے میرا اس بات پر یقین رہا ہے کہ انسان خیال کرنے والے تعلقات کی کوکھ میں پلتے اور آگے بڑھتے ہیں ۔ چاہے وہ ذاتی تعلقات ہوں، خاندانی یا پیشہ ورانہ۔
پہلی مرتبہ گھر سے دور جانا ایک مشکل تجربہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اس جدائی پر بے چینی کے شکار ہو جاتے ہیں اور اگر  یونیورسٹی میں پڑھائی کا اضافی پریشر اور نئے لوگوں میں گھلنے ملنے کے مسائل بھی اس میں شامل ہو جائیں تو یہ بےچینی جذباتی بحران میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ بہت سے ایسے طالب علم ہیں جو گھر سے جدائی کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہونے پر پہلی مرتبہ کسی اعصابی بریک ڈاؤن NERVOUS BREAKDOWN کے شکار ہوتے ہیں۔  آپ کی دونوں جذباتی کیفیات، ڈپریشن اور او سی ڈی
 OBSESSIVE COMPULSIVE DISORDER…OCD…
 نے ایک دوسرے کو بدتر بنا دیا۔ آپ کی عقلمندی تھی کہ آپ نے ماہرِ نفسیات کی مدد حاصل کی اور آپ کی خوش قسمتی یہ کہ آپ کو ماں یا نانی جیسی بڑی، مہربان، خیال کرنے اور سمجھنے والی ماہرِ نفسیات ملیں۔ اپنے آپ کو مت کوسیں۔ کسی بھی اجنبی شخص کے سامنے اپنے آپ کو کھل کر بیان کرنا اور دل کی بات کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ  اس سے آپ کو شرمندگی بھی ہو سکتی ہے۔
آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ ہمارے کلچر میں ذہنی امراض کسی کلنک STIGMAسے کم نہیں سمجھی جاتیں۔ ماہرینِ نفسیات کو “شرنک” SHRINKجبکہ مریضوں کو پاگل کہا جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ آپ کسی اجنبی کو اپنی ذاتی اور گہری تفصیلات بتانے سے گھبرا رہی تھیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سمتھ نے آپ کی ڈگری مکمل کرنے اور شادی کے لیے تیار ہونے میں مدد کی۔
عزیزی جیمی!
ماضی میں آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ وھٹبی کے نفسیاتی ہسپتال
WHITBY PSYCHIATRIC HOSPITAL
میں بھی داخل رہیں۔ ڈاکٹر سمتھ کے بعد اور ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے بھی کیا آپ نے کسی اور ماہر نفسیات یا تھراپسٹ سے رجوع کیا؟
کیا آپ ہمارے قارئین کو اپنی آج کل کی مصروفیات اور ہمیشہ سے اپنے شوق  کے متعلق بتا سکتی ہیں؟ اس سے قارئین کو آپ کے ماضی، حال اور مستقبل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ کیا آپ کے مستقبل کے متعلق کوئی ارادے ہیں؟ آپ اپنے خاندان کو اس سب میں کہاں دیکھتی ہیں؟
مجھے آپ کے اگلے خط کا انتظار رہے گا۔
مخلص
 ڈاکٹر سہیل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply