مکھیوں کے ایکسرے ۔ جین (7) ۔۔وہاراامباکر

جینیات کی سٹڈی میں مکھیوں والے کمرے کا ایک خاص مقام ہے۔ گلے سڑے کیلے اور مکھیوں کے مرتبان ۔۔۔ بائیولوجی کی اہم دریافتوں کا باعث بنے (تفصیل نیچے لنک سے)۔ اس کمرے نے کئی لوگوں کو نوبل انعام کا حقدار بنایا جن میں سے ایک تھامس میولر تھے۔ جینیات پڑھنے والوں کے لئے میوٹیشن والی مکھیاں اہم تھیں، لیکن یہ کبھی کبھار ہی پیدا ہوتی تھیں۔ میولر نے سوچا کہ کیا اس عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ گرمی سے؟ روشنی سے؟ یا توانائی کے تیز برسٹ سے؟

اس کے لئے میولر نے ایکسرے استعمال کی۔ جن پر کی گئی تھی، وہ مر گئیں۔ اس کی ڈوز کم کر کے تجربہ کیا۔ یہ آگے نسل چلانے کے قابل نہیں رہیں۔ 1926 کی سردیوں میں ایک اور تجربہ اس سے بھی کم ڈوز کے ذریعے کیا۔ ایکسرے والے نروں کا ملاپ مادہ سے کروایا اور دودھ کی بوتلوں میں ان کے بچے پیدا ہوئے۔ دیکھتے ساتھ ہی ایک ڈرامائی نتیجہ نظر آ رہا تھا۔ میوٹیشن والی مکھیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ پچھلی تین دہائیوں میں پچاس میوٹنٹ پیدا ہوئے تھے۔ اس ایک رات میں پچیس!

یہ بھی پڑھیں :جراثیم کی چوری ۔ ٹرانسفورمیشن ۔ جین (6) ۔۔۔وہاراامباکر

میولر کو اس دریافت سے بین الاقوامی شہرت مل گئی۔ اس سے دو نتائج نکلتے تھے۔ پہلا یہ کہ جین مادی شے ہیں۔ آخر کار، ریڈی ایشن فقط توانائی ہی تو تھی۔ اس سے پہلے گرفتھ جینز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا چکے تھے۔ میولر نے جین کو تبدیل کر دیا تھا۔ جین، جو بھی ہے، حرکت کر سکتی ہے، منتقل ہو سکتی ہے اور توانائی اس میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہ خاصیتیں کیمیائی مادے کی ہیں۔

لیکن جو چیز سائنسدانوں کے لئے سب سے زیادہ حیران کن تھی، وہ جین کے بدلنے کی خاصیت تھی۔ اس قدر تیزرفتار تبدیلی؟ بائیولوجی کی سکیم میں جاندار اشیاء عام طور پر جینیاتی لحاظ سے تبدیل نہیں ہوتی تھیں۔ فطری چناوٗ سے ارتقا کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی تھی لیکن میولر کے تجربات نے ظاہر کر دیا تھا کہ میوٹیشن کا ریٹ خود بھی یکساں نہیں۔ یہ تیزی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ “فطرت میں کسی بھی شے میں مستقل سٹیٹس کو کا تصور نہیں۔ یہاں تک کہ تبدیلی کی رفتار بھی مستقل نہیں۔ مستقل تبدیلی فطرت کا قانون ہے، اس کا متبادل ناکامی اور ختم ہو جانا ہے”۔ میولر نے بعد میں لکھا۔ میوٹیشن ریٹ کو تبدیل کر کے اور ویری انٹ کا چناوٗ کر کے میولر نے اندازہ لگایا کہ وہ ارتقائی چکر کو تیزرفتار کر سکتے ہیں۔ نئی انواع بنائی جا سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر مکھیںوں میں تبدیلی کی جا سکتی ہے تو کیا انسانوں میں بھی؟ یہ فطری طور پر اٹھنے والا اگلا سوال تھا۔ تبدیلی انسانی ہاتھوں میں؟؟ اپنے دور کے سائنسدانوں اور سوشل سائنٹسٹ کی طرح میولر بھی یوجینکس سے متاثر تھے۔ بطور طالبعلم، مثبت یوجینکس کو سپورٹ کرتے رہے تھے۔ لیکن یوجینکس کا عملی اطلاق دیکھ کر ذہن بدل رہا تھا۔ کہیں کوئی بنیادی غلطی تو نہیں؟ میولر اس خیال کے حق میں تھے کہ جینیات سے تکالیف کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن کس قسم کے معاشرے میں ایسا ہونا ممکن ہے؟ اگر معاشرے میں عدم مساوات ہو گی تو غریب ہونا، ان پڑھ ہونا بھی جینیاتی خامی کہلائے گا؟ یوجینکس تحریک کا خیال تھا کہ جینیات تبدیل کر کے کمزور معاشرے کو طاقتور کیا جا سکتا ہے۔ میولر کا خیال اس سے برعکس تھا۔ اگر انصاف نہ ہو تو جینیات پر کنٹرول معاشرے پر طاقتور لوگوں کا کنٹرول مضبوط کر دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میولر کا سائنسی کیرئیر عروج پر تھا۔ وہ اپنے معاشرے سے تنگ آ چکے تھے۔ وہ اسے گندی سیاست والا خود غرض معاشرہ کہتے تھے۔ (ان کی خودکشی کی کوشش کامیاب نہیں رہی تھی)۔ انہوں نے امریکہ چھوڑ کر برلن جانے کا انتخاب کیا۔ ایک لبرل جمہوریت جہاں پر سوشلزم کی طرف جھکاوٗ تھا۔ ٹوین کے مطاق ایسا شہر جہاں سائنسدان، ادیب، فلسفی اور دانشور مستقل کا معاشرہ بنا رہے تھے۔ 1932 میں انہوں نے سامان باندھا، دس ہزار شیشے کی ٹیوبیں، ایک ہزار بوتلیں، ایک مائیکروسکوپ ساتھ رکھیں اور قیصر ولہلم انسٹی ٹیوٹ روانہ ہو گئے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ ان کا نیا پڑاوٗ جینیات کی سائنس کا بدترین روپ سامنے لے کر آنے والا ہے۔ اس کی بنیاد اسی ادارے سے رکھی جائے گی جہاں پر جانے کا انہوں نے انتخاب کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply