جادو اور اس کی بنیادی اقسام۔عظیم الرحمٰن عثمانی

قرآن حکیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کی دو بڑی اقسام ہیں. پہلی قسم نظر بندی یا نظر کا دھوکہ. دوسری قسم نفسی حملہ جسے عام الفاظ میں کالا جادو بھی کہہ دیا جاتا ہے.

نظر بندی یا نظر کا دھوکہ!
اس میں جادوگر ایسے حالات یا ماحول تخلیق کردیتا ہے جس سے آپ کی نظر وہی دیکھتی ہے جو جادوگر آپ کو دیکھانا چاہتا ہے. گویا یہ آپ کے خیال پر اثر انداز ہوتے ہیں. اس طرح کے جادو معمولی کرتب دیکھانے والو سے لے کر سنجیدہ جادوگروں نے اپنا رکھے ہیں. ہوا میں اڑنا ہو، پانی پر چلنا ہو، آری سے کسی کا سر کاٹ کر دوبارہ دھڑ سے جوڑ دینا ہو یا ایفل ٹاور کو ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں سے غائب کردینا ہو. یہ سب آج کے نمائندہ جادوگر کررہے ہیں جیسے ڈیوڈ کاپر، فیلڈ، کرس اینجل، ڈائنامو وغیرہ قران حکیم میں اس کا واضح ذکر ان جادوگروں کے حوالے سے ہوتا ہے جنہیں فرعون موسیٰ علیہ السلام کے مقابل لایا تھا اور جنہوں نے لوگوں پر نظر بندی یعنی نظر پر جادو کردیا تھا.

“جب انہوں نے (جادوگروں نے) ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا ( نظر بند کر دی ) اور ان پر ہیبت غالب کر دی اور بہت بڑا جادو کر دیا ” الاعراف 116
ہپناسس یا ہپناٹزم کے بارے میں موجود معلومات کی بناء پر اس جادو کی قسم کو آج سب مان لیتے ہیں.

کالا جادو!
یہ جادو کی وہ قسم ہے جس میں جادوگر اپنی نفسی طاقت سے دوسرے کے نفس پر حملہ آور ہوتا ہے اور نقصان پہنچانے کی سعی کرتا ہے. یہ نفسی قوت وہ مختلف مراقبوں، ریاضتوں، مجاہدوں اور ارتکاز کی مشقوں سے حاصل کرتا ہے. ہر انسان میں یہ مخفی نفسی صلاحیتیں پنہاں ہوتی ہیں جنہیں تقویت دینا ممکن ہے. اسکی ایک مثال نظر لگنے کی ہے جو اسلامی تعلیمات اور تجربات دونوں سے ثابت ہے. “اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر تمہیں گرادیں گے جب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں” (سورہ القلم 51). رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : العين حق “نظر (کا لگنا) حق ہے۔” [صحيح مسلم : 2188، 5702]

ہمارے اردگرد ایک غیبی دنیا ایک پیرالیل ورلڈ آباد ہے. جس میں جہاں ملائکہ ہر پل مختلف امور کو سرانجام دے رہے ہیں اور مومنین پر نصرت و سکینت نازل کررہے ہیں. وہاں دوسری جانب شیاطین جو جن و انس دونوں میں موجود ہیں، ابلیس کا مشن نبھانے میں مشغول ہیں. یہ جادوگر خود بھی شیاطین ہی ہیں اور اپنی نفسی قوت کے ساتھ ساتھ شیاطین جنات سے اسی سحر یعنی جادو کیلئے مدد لیتے ہیں. اسی حوالے سے سورہ الانعام کی ١٢٨ آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ

“قیامت کے دن جب وہ اللہ ان سب کو جمع کریں گے تو کہیں گے اے جنات کی جماعت تم نے انسانوں سے بہت فائدہ اٹھا لیا ہے اور ان کے دوست جو انسان تھے وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا لیا ہے اور جو تو نے وقت مقرر کیا تھا ہم اس مقررہ وقت یعنی قیامت کو پہنچ گئے ہیں وہ اللہ کہیں گے تمھارا ٹھکانہ جہنم ہے تم اس میں ہمیشہ رہو گے جب تک اللہ چاہے یقینا آپ کا رب خوب حکمت والا اور اچھی طرح جاننے والا ہے”

قرآن مجید کے مطابق جنات انسان سے قبل آگ سے تخلیق کیے گئے ہیں، وہ عام حالات میں انسانی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں، یہ بھی انسان کی طرح اس دارالامتحان میں ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ امتحان سے گزر رہے ہیں. کچھ جداگانہ صلاحیتیں جنات کے وجود میں ودیعت شدہ ہیں. اسی کا ایک مظاہرہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کے اس قصے میں ہوتا ہے جو سورہ النمل میں مذکور ہے “”۔اب سلیمان نے (اپنے درباریوں سے) کہا: اے اہل دربار! تم میں سے کون ہے جو ان کے مطیع ہو کر آنے سے پہلے پہلے ملکہ کا تخت میرے پاس اٹھا لائے؟”۔ایک دیو ہیکل جن نے کہا: ” آپ کے دربار کو برخواست کرنے سے پہلے میں اسے لا سکتا ہوں۔ میں اس کام کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت داربھی ہوں ..

” جادوگر شیاطین جنات کے ساتھ مل کر انسانی نفوس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں. ان کا حملہ اکثر انسانی نفسیات پر ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وہ بغض، عداوت، رنجش، غصے جیسے تباہ کن جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں. درج ذیل آیات پر غور کریں ”

اور (وہ یہودی )ان (خرافات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے ہرگز کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اس علم کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اترا تھا۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش ( کاذریعہ)ہیں چنانچہ تم نافرمانی میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (علم ) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ …” (سورہ البقرہ ۲: آیات ۱۰۳-۱۰۲)”

کالے جادو کے ماہرین کے بقول اس خبیث دنیا میں جادو کے سترہ درجات ہیں. جن میں سے پہلے کا نام ‘کنیا چماری’ اور آخری کا نام ‘کھنڈولا’ ہے. ان تمام درجات کے حصول کے لئے طرح طرح کی سفلی ریاضتیں بھی کرنا پڑتی ہیں اور شیاطین جنات کے ساتھ کے لئے غلیظ سے غلیظ تر عمل بھی کرنے پڑتے ہیں. ان میں اپنا پاخانہ کھانا، سیاہ الو یا بکرے کا خون پینا، اپنی اولاد کو ذبح کرنا، مردہ اجسام کے ساتھ جنسی تعلق یعنی شہوت کرنا اور لاش کا گوشت کھانا وغیرہ شامل ہیں. ہر درجے پر آپ کو کچھ شکتیاں حاصل ہوتی ہیں اور انسان مزید سے مزید گندگی میں غرق ہوتا چلا جاتا ہے.

پاکستان میں جادو کا گڑھ بلوچستان کی پہاڑیاں ہیں جہاں سے خاک لا کر دیگر شہروں میں جادو کی جگہ بنائی جاتی ہے. ان جادوگروں کے نزدیک ‘کالی ماتا’ جیسی شکتیاں حقیقت میں موجود ہیں جو ان سے خون اور قربانی مانگتی ہیں. آپ نے اخباروں میں پڑھا ہو گا کہ کسی پاگل عورت نے اپنی اولاد کو ذبح کردیا یا فلاں خراب ذہنی توازن والاآدمی قبر میں مردہ سے زنا کرتا پکڑا گیا وغیرہ. اخبار آپ کو بتاتے ہیں کہ ان افراد کا ذہنی توازن ٹھیک نہ تھا مگر جب کچھ جرنلسٹ نے ماضی میں ان واقعات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ سب جادو کے درجات کے حصول کے واسطے تھا. پاکستان میں ایک تحقیق کے مطابق کوئی جادوگر ایسا نہیں ہے جو بارہ درجے سے بھی اپر جاسکا ہو. البتہ ہندوستان، افریقہ اور بنگلہ دیش میں ایسے جادوگر گزرے ہیں جو پندرہ سولہ درجے تک جاپہنچے تھے. ان جادوگروں میں سب سے خبیث اور ماہر جادوگر ہندوستان کے ‘اگھوری’ سمجھے جاتے ہیں جو ننگ دھڑنگ جسم پر راکھ ملے غلیظ حالت میں گروہوں کی صورت میں گھومتے ہیں. ان کی انسانی مردے کھاتے ہوئے ویڈیوز آپ کو باآسانی یو ٹیوب پر مل جائیں گی.

یہاں یہ یاد رہے کہ ایک سچا مسلمان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کسی جادو، جادوگر یا جن کی مجال نہیں کہ وہ اذن ربی کے خلاف جاسکے. جادوگر بعض اوقات روحانیت کا جعلی چوغہ پہن کر بھی دھوکہ دیتے ہیں. جادوگر کو پہچاننے کے ویسے تو کئی طریق ہیں مگر ان میں کچھ یہ ہیں کہ وہ آپ سے اس شخص کا کپڑا مانگے گا، والدہ کا نام پوچھے گا، اس زبان میں کچھ پڑھے گا جو سمجھ نہ آئے، خود بھی گندہ ہوگا اور جگہ بھی اندھیرے و گندگی میں رکھے گا، کسی خاص جانور کی قربانی و خون مانگے گا. اس کا بھی امکان ہے کہ وہ آپ کو مرعوب کرنے کیلئے کچھ ایسی باتیں پہلے ہی بتا دے جو آپ نے اسے ابھی نہ بتائی ہوں جیسے آپ کے آنے کا مقصد وغیرہ. ہرگز متاثر نہ ہوں، یہ کرتب دیکھانا کوئی بڑی بات نہیں ہیں.

مشاہدہ ہے کہ اکثر جادو و جنّات کا شکار خواتین یا کم سن بچے ہوتے ہیں. اس کی وجہ بعض لوگ غلط طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ  جنّات حسن پرست ہیں اور اسی لئے وہ عورتوں پر عاشق ہوجاتے ہیں. بات یہ نہیں ہے بلکہ سمجھ میں آنے والی بات یہ ہے کہ بچے اور خواتین عمومی طور پر وہم کا شکار جلدی ہوجاتے ہیں. خوف کی کیفیت ان پر با آسانی طاری ہوجاتی ہے. …لہٰذا کسی جن یا جادو کا نفسیاتی حملہ ان پر کارگر ہونا زیادہ آسان ہوتا ہے. یہ نفسیاتی حملہ ایسی جگہ مزید آسان ہوجاتا ہے جہاں انسانی ذہن سستی یا خوف محسوس کرے، جیسے رات میں کوئی برگد کا پرانا درخت یا پھر کوئی بوسیدہ قبرستان. کیونکہ یہ خالص نفسیاتی معاملہ ہے، اس لیے اس کے توڑ کے لئے نفسی علوم اور ان کے ماہر موجود ہیں. یہ ماہرین ہر مذہب میں پاۓ جاتے ہیں اور انکا طریقہ علاج دین سے زیادہ ‘یقین’ پر بنیاد رکھتا ہے. . اسلام نے بھی ایسی صورت میں جن آیات کی تلاوت کا حکم دیا ہے ، وہ واضح طور پر پڑھنے والے کے یقین کو اپنے رب پر قوی کرتی ہیں.

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہندو جنتر منتر پڑھ کر، ایک عیسائی کراس یا ہولی واٹر دکھا کر اور ایک مسلمان قرانی آیات کی تلاوت کرکے جنّات و جادو کا کامیاب توڑ کرلیتا ہے. جس طرح طبیعاتی علاج میں مریض کی قوت مدافعت کے بناء کوئی بہترین ڈاکٹر بھی کچھ نہیں کر پاتا، بالکل اسی طرح ایک آسیب زدہ جب تک یہ ٹھان نہ لے کہ وہ اس بیرونی اثر کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرے گا تب تک کوئی پیر، فقیر یا عامل اسکی مدد نہیں کر سکتا. یہ بھی ملحوظ رہے کہ سفلی علم اول تو مظبوط اعصاب و نفسیات کے شخص پر کارگر نہیں ہوتا، پھر جس پر کرنا ہو اسے ایک خاص ماحول میں لانا ہوتا ہے، اس کی خاص چیزوں جیسے ناخن یا کپڑے تک رسائی درکار ہوتی ہے. لہٰذا یہ کہنا کہ اگر جادو ہے تو کوئی ڈونلڈ ٹرمپ پر جادو کیوں نہیں کرتا؟ ایک بچکانہ اعتراض ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ ایک طالبعلم کی سمجھ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تھا یا نہیں؟ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس ضمن میں اہل علم دو مخالف آراء رکھتے ہیں. یہ آپ کی اپنی تحقیق پر ہے کہ آپ کس رائے کو اختیار کرتے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply