قطع نظر مذہب و ملت کے، انسانیت اور فطرت سلیمہ اخلاق و اقدار کی حامی و پاسبان ہوا کرتی ہیں ۔ فطرت سلیمہ کبھی برائی، بے حیائی، فحش و منکرات کو نہ قبول کرتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے، بلکہ ان سے باز رہنے اور ترک کی تلقین کرتی ہے۔ دین اسلام نہایت اعلی و پاکیزہ مذہب ہے، جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے اور افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتا ہے اور کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی پاکیزہ زندگی گزارے۔
مغربی ممالک جو آزادی وانسانیت اور حریت کے علمبردار سمجھتے جاتے ہیں انھوں نے آزادی اور حریت کی گرہوں کو اس قدر ڈھیلا کردیا کہ انسان اپنی حقیقت و ماہیت سے تجاوز کرکے حیوانیت و بہیمیت کے زمرہ میں شامل ہو گیا، بلکہ بعض امور میں تو حیوانیت کی حدود کو پار کرگیا اور ان سے بڑھ کر بے حس و بے حیاء ہو گیا۔ اس کو اس برائی کا عیب نہیں نظر آرہا ہے اور وہ برائی و بے حیائی کو کھلے عام انجام دے رہا ہے۔ انسان کے پاس عقل و ہوش اور قلب و دماغ ضرور ہے، لیکن وہ برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے۔ اس کے پاس آنکھ اور کان ضرور ہیں ، لیکن اسے برائی نہیں نظر آرہی ہے اور نہ ہی وہ اس کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار ہے۔
ہم جنس پرستی وہ قبیح فعل ہے جسے مغربی تہذیب نے قریب قریب گلے لگالیا ہے اس تہذیب مغرب نے ہم جنس پرستی جیسی خلاف فطرت فعل کے حق میں زبردست پروپیگنڈا کیا، اسے جائز قرار دینے کیلئے قانون سازی کی۔ بلکہ انسانی حقوق، آزادی اور جدیدیت کے نام پر اس کے فروغ کےلئے مکروہ کوششیں کیں ،ہم جنس پرستی : 113/ ممالک میں قانونی اور 76/ میں غیر قانونی ہے. کئی برسوں کے بعد آخرکار دنیا کے113 ممالک نے ہم جنس پرستی کی حقیقت کو کلی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے جب کہ76 ممالک نے اس کو نامنظور کرتے ہوئے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن اور سوڈان میں تو اس فعل کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے تاہم مالی، اردن، انڈونیشیا، قازغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا ہرزے گوینا اور آذربائیجان وہ مسلم ممالک ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے.
ہم جنس پرستی کے بارے میں معلومات اور حقائق اقوام متحدہ کی مختلف دستاویزات سے حاصل کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوبی صومالیہ اور نائیجریا کی12 ریاستوں میں ہم جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں افغانستان میں طالبان کے دورحکومت اور 2001ء میں صدام حسین نے عراق میں ایک حکم کے ذریعے ہم جنس پرستوں کے لئے سزائے موت تجویز کی تھی۔ سوڈان میں اگر کوئی فرد تین مرتبہ اس فعل کا مرتکب پایا جائے تو اسے یا تو سنگسار کیا جاتا ہے یا پھر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ بہرکیف سوڈان میں پہلی یا دوسری مرتبہ ہم جنسی کے فعل پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ ایران دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو ہم جنس پرستی کے ارتکاب پر سب سے زیادہ سزائیں دی ہیں ۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی حکومت نے چار ہزار ہم جنس پرستوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔
انٹرنیشنلlesbian.لزبین,gay گے،bi sexual بائی سیکسوئل، ٹرانس اور انٹر سیکس ایسوسی ایشن کا پتہ 1978ء میں ہوا اب تک110 ممالک کی سات سو تنظیمیں اس کی رکنیت حاصل کر چکی ہیں ۔ تنظیم کی انتھک کوششوں کے بعد اسے اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب18 دسمبر2008ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے66 ممالک کے تعاون سے گے اور لیزبین افراد کے حقوق کو تسلیم کیا۔ 19 ویں صدی کے آخر تک تمام مغرب میں ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں جن کا مقصد ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرنا تھا اور ان کے حقوق مثال کے طور پر شادی، اولاد کی تحویل کا حق، روزگار اور صحت سے متعلق تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ دو سال قبل امریکی حکومت کے دستخطوں کے ساتھ2009ء میں 67 ممالک کے تعاون سے اقوام متحدہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ اس دستاویز پر تمام یورپی اور مغربی اقوام نے اپنے اپنے دستخط ثبت کیے تاہم دوسری جانب57 مسلمان ممالک نے اقوام متحدہ کے اس اعلامیے کے خلاف اعتراضی بیانات بھی داخل کئے۔ اس سال تقریباً 85 ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے روبرو ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سزائیں دیے جانے کی پرزور مذمت کی ہے۔
ہم جنس پرست عورتوں کے لئے ”لیزبین“ اور مردوں کے لئے ”گے“ کی خاص اصطلاحات رائج ہیں حالانکہ ”گےgay“ عام طور پر ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ دی نیوز انٹرنیشنل کی ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں دہلی ہائی کورٹ نے2 جولائی2009ء کو ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا ہے جب کہ امریکا میں 2003ء میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا گیا تھا تاہم امریکہ نے ہم جنس پرست مردوں پر اس بات کی پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ اپنا خون بطور عطیہ نہیں دے سکتے کیونکہ ان میں ایڈز لاحق ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں ۔برطانیہ اور بیشتر یورپی ممالک میں بھی ہم جنس پرست افراد اپنا خون عطیہ نہیں کر سکتے،افریقہ کے38 ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں جو ہم جنس پرستی کو ایک جرم تصور کرتے ہیں جب کہ بعض ممالک میں اس کی سزا موت ہے اور بعض ملکوں میں سزائے قید دی جاتی ہے۔ ایشیا میں 23 ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سے4 ایسے ہیں جہاں اس جرم کی سزا موت ہے۔
بہرنوع سماجی سائنس اور کردار کے علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستی انسانوں کے جنسی عمل کا ہی ایک نارمل اور مثبت اظہار ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جس نے ہم جنس پرستی کو ایک ذہنی خلل اور عارضہ قرار دے رکھا تھا 1977ء میں اپنا یہ اعتراض واپس لے لیا۔ چین نے بھی2001ء میں اسے ایک ذہنی بیماری تصور کرنے سے انکار کر دیا۔ آج کل کچھ سائنٹفک ریسرچ یہ کہنے لگی ہیں کہ ہم جنس پرستی جینیٹک (پیدائشی) ہے، یہ ریسرچ پہلے بھی سامنے آئی تھی اور بعد میں اسے مکمل غلط ثابت قرار دے دیا گیا تھا اور جس سائنس داں نے یہ ریسرچ کی تھی وہ خود ہم جنس پرستی کے نشے کا بری طرح شکار تھا۔ اس بات کا اب تک کوئی سائنٹفک پروف نہیں ہے کہ یہ پیدائشی یا فطری چیز ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ڈارون کی تھیوری کی طرح کچھ ملکوں نے اسے بھی حالات کے پیش نظر اور عوام کے مطالبات۔ کورٹ کیسزکی بنیاد پر قانونی طور پر مان لیا اور مرد کی مرد سے۔ عورت کی عورت سے بھی شادی کو یا رشتہ کو لیگل قرار دے دیا۔ لوگ ایسے لوگوں کے حق میں پروگرام کر رہے ہیں جلسے نکال رہے ہیں ۔ اپنی ڈی پی رنگین لگا رہے ہیں ، اس سے معاشرے کو اور خاندانی زندگی کو ، آنے والی نسلوں کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے انہیں شاید اس بات کااندازہ نہیں ہے. جبکہ اس عادت کا پیدائشی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں نہ ہی سائنس میں کوئی لا۔ فیکٹ یا پرنسپل ہے. قرآن میں سورہ اعراف کی۔ 81۔ 80، آیت دیکھیں : اور ہم نے لوط کو بھیجا۔ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ: تم ایسا فحش کام کرتے ہو۔ جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہاں والوں میں سے نہیں کیا۔ تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو۔ عورتوں کو چھوڑ کر۔ بلکہ تم تو حد ہی سے گزر گئے ہو.
دراصل یہ قوم مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتی تھی، یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا تھا۔ اور اس گناہ کا نام ہی صدومیت پڑ گیا . بہرنوع تمام آسمانی مذاہب نے جن میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت شامل ہیں ، لواطت کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے ایک ایسا گناہ قرار دیا ہے جو قدرت کے فطری نظام اور اصولوں کے خلاف ہے. اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں ۔ ان ہی امتوں میں سے ایک قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’بے شک ہم نے جہنم کے لئے جنات اور انسانوں میں سے بہت سے افراد کو پیدا فرمایا وہ دل رکھتے ہیں مگر وہ سمجھ نہیں سکتے، اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں مگر ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے، اور وہ کان رکھتے ہیں مگر وہ ان سے سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ، وہی لوگ غافل ہیں ‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۷۹)۔ ہم جنس پرستی سخت حرام بھی ہے اور لاجکلی، سائیکولوجکلی بھی مکمل نقصان دہ عمل ہے۔ یہ صرف ایک قیاس ہے کہ یہ فطری اور پیدائشی ہے۔۔ جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے. اب یہ بتاتا ہوں کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔ اگر فطری نہیں تو۔۔ نفسیات ہمیں یہ بتاتی ہے کے آپ کوئی بھی عمل حد سے زیادہ کرلیں تو اس میں سے لذت ختم ہونے لگتی ہے پھر ایک پوائنٹ پر آکر اس عمل میں تسکین باقی ہی نہیں رہتی آپ کے لئے۔۔
اللہ نے فطری طور پر جنس مخالف میں کشش رکھی ہے انسان۔ جن اور بندر میں ، اس کے علاوہ تمام مخلوقات کے لئے لذت یا تسکیں نہیں محض بنیادی ضرورت ہے یہ سائنس کہتی ہے۔ جب کوئی حد سے زیادہ ایک ہی عمل کرے تو دل بھر جاتا ہے پھر غیر فطری اور غیر قدرتی عمل کرنے کا دل کرتا ہے اور انسان الگ الگ راستے اور طریقے ڈھونڈتا ہے جنس مخالف میں ۔ یا ہم جنس کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ جب ایک ہی عمل کو بے لگام اور لگاتار کیا جائے تو انسان اس سے فیڈ اپ ہو جاتا ہے نفسیاتی طور پر اور آپ اب مزید انجوائمنٹ کے متلاشی ہو جاتے ہیں جو عمل نارمل ہوتا ہے وہ آپ کی اس ہوس کو مکمل تسکین نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کے سائنٹیفک فیکٹس کہتے ہیں : A person who has no extra marital affairs enjoys the sexual life with his/her wife/husband maximum..
اب سوال اٹھتا ہے کے یہ عادت بچوں میں بھی دیکھی گئی ہے جو بالغ بھی نہیں ہوتے اور ان کے ایسے کوئی تجربات بھی نہیں ہوتے ؟ بچوں میں بھی یہ عادت پیدائشی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجوہات فحش میڈیا۔ والدین کے ساتھ سونا اور دوران عمل جاگ جانا۔ پورنوگرافک موویزیا بلو فلمز دیکھنا۔ یہ حرام کام ہیں اور ان کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بچے بہت تیزی سے اس کے اثر میں آجاتے ہیں , اور لڑکا لڑکی کا فرق دیکھے بغیر جہاں موقع مل جائے وہی سب دہرانے کی کوشش کرتے ہیں جوان کے ذہنوں پر بری طرح سوار ہوتا ہے۔ والدین کا بچوں کے سامنے غیر اخلاقی حرکتیں کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور پھر اسکول وغیرہ میں جاکر مزید بچوں میں یہ بات پھیلتی ہے، مغربی ماحول میں اس کا شدت سے پروان چڑھنے کا یہی نتیجہ ہے، نفسیاتی تاثر بچوں پر زیادہ شدت سے اثر بھی کرتا ہے اور بڑوں کی لاپرواہی اس آگ کو مزید ہوا دیتی ہے۔ یہ بات قرآن و سنت، لاجک۔ نفسیات و مستند سائنس اور عقل و دلیل سے بالا تر ہے کہ ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ ہم جنس پرست پیدا ہوا۔۔ اس مثال کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو جو زنا کا عادی ہیں وہ پیدا بھی زانی ہوا ہوگا، چور بھی پیدائشی چور ہوگا۔ ایک پیشہ ور قاتل یا ڈاکو جو حالات اور ماحول کی وجہ سے بنا کیا وہ پیدائشی قاتل اور ڈاکو کی فطرت لےکر پیدا ہوا تھا ؟ ہرگز نہیں ۔ ۔ یہ عقل میں نہ آنے والی بات ہے۔
آج کل موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ایک کلک میں بچہ ہو یا بڑا کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور کیا کچھ دیکھ سکتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں ۔ ہائی سوسائیٹی میں ہر بچے کا کمرہ الگ ہوتا ہے جس میں اس کو پرسنل موبائل۔ لیپ ٹاپ۔ ٹی وی وغیرہ کی سہولت میسر ہوتی ہے، کمرہ میں آنے کے بعد اندر سے کمرہ لاک کرنا اس کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے، اس کے کمرے میں اس کی اجازت داخل ہونا اس کی پرائیویسی کو ڈسٹرب کرنا انتہائی غیر اخلاقی حرکت سمجھا جاتا ہے، اس کی مرضی ہوتی ہے وہ چاہے جیسے بھی دوست لڑکا ہو یا لڑکی۔ ان کو اپنے کمرے میں لے جا کر دروازے پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کا سائین لگا کر اندر جو چاہے کرتا پھرے۔۔ جو جو وجوہات اوپر بیان کی گئی ہیں وہ سب تو مرد پر بھی اور عورت پر بھی لاگو ہوتی ہیں، پر لڑکیوں میں کچھ مزید چیزیں انھیں اس طرف لے جاتی ہیں ۔ بچپن میں گھر کے بڑوں کا گھر کی عورتوں سے برا سلوک بچیوں کے ذہن میں مرد ذات کے لئے نفرت پیدا کر دیتا ہے۔ یا پھر کم عمری کی محبتیں اور ان میں دھوکے بھی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ایک اور وجہ لڑکی کے دل میں مرد ذات سے احساس کمتری کا شکار ہو جانا کہ ہر جگہ مرد کو زیادہ حق ملنے کی غلط فہمی بھی بنتی ہے، اور جیلیسی کی بنیاد پر وہ لڑکیوں کو ہی پسند کرنے لگتی ہے اور مرد سے دور۔
عمومی طور پر لڑکی کا اسلام میں ایک لڑکی سے جو شرعی پردہ ہے وہ بھی نہیں کیا جاتا اور اک دوجے کے سامنے کپڑے وغیرہ بدلنا یا اپنی دوست سے ہر طرح کی باتیں شئیر کرنا بھی صنف نازک کو صنف نازک کی طرف مائل کرتا ہے۔ صحبت اور قانونی اجازت ہونے کی وجہ سے بھی بچیاں ایک دوسرے سے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور بعد میں لت لگ جاتی ہے۔ کسی بھی وجہ سے نفرت کی انتہا کوپہنچ جائے تب بھی یہ ممکن ہے اور شادیاں لیٹ ہونا لڑکے لڑکیوں کا بھی ایک بنیادی نقطہ ہے اس بیماری میں پڑ جانے کا شوہر کی بے رخی یا مصروفیت یا الگ شہروں ۔ ملکوں میں ملازمت بھی قریبی عورتوں سے قربت بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح لڑکوں کی بھی کچھ خاص وجوہات ہوتی ہیں ۔ایسے گھروں میں اکثر gay , lesbian, homosexual, bisexual, tri sexual پروان چڑھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کے یہ پیدائشی ایسے تھے اور اللہ نے سزا دی یا آزمائش میں ڈال کر امتحان لیا جب کے ٹی وی چینلز اور کیبل کی طرف بھی کبھی ہمارا دھیان نہیں جاتا کے اس میں کھلے عام کیا کیا آتا ہے اور بچوں کی پہنچ سے دور نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ پورنوگرافک چینلز کی تعداد گلوبل ورلڈ میں باقی تمام چینلز سے زیادہ ہے، اس میں پیسہ بھی بہت ہے اور فری میسنز کی سازش بھی سب کے سامنے کھلی کتاب ہے کہ فحاشی کو ممکنات سے بھی زیادہ پھیلانا ہے، وہ مجاہدین اور فہیم لوگوں سے ڈرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کو چومتے ہیں. جب بچہ میڈیا پر یہ سب دیکھے گا تو وہی کرنے کا بھی دل کرے گا جیسے بچے کرکٹ دیکھ کر کرکٹر بننے کی ضد کرتے ہیں ۔ فٹبال دیکھ کر فٹبال کھیلنے کا دل کرتا ہے۔ فلمیں دیکھ کر خود کو ہیرو ہیروئین سمجھنے لگتے ہیں اور ریسٹلنگ دیکھ کر طاقت ور بننے کی خواہش جاگتی ہے۔ یہی عمر تو عادتیں بناتی اور بگاڑتی ہے، اس عمر میں بھٹکنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور بچپن میں ہم جنس کے ساتھ کسی عمل میں انھیں لذت آ جائے تو اکثر پھر مخالف جنس کی طرف دیکھتے بھی نہیں ,وہ نفسیاتی طور پر خود کو ڈیفیکٹڈ پرسن سمجھ جاتے ہیں اور اسی غلط فہمی میں اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ۔ غلطی کس کی ؟ میڈیا۔ ماحول، سربراہ اور پرورش وغیرہ کیوں والدین اجازت دیتے ہیں ؟ وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ نا کہ اللہ۔ ۔
اسلامی معاشرے کو ایسی گندی، خبیث، گھناؤنی عادات سے بچانے کے لئے اﷲ نے اس جرم کے مرتکب کے لئے سخت سزا تجویز فرمائی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور تم میں سے جو بھی کوئی بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو ایذا پہنچاؤ، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں تو انہیں سزا دینے سے گریز کرو، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔(النساء، 4 :16) ابومسلم اصفہانی نے درج بالا آیت کو ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں اس آیت میں لواطت کی سزا بیان کی گئی ہے۔(رازی، التفسير الکبير، 9/ 187)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تصنیف سنن ترمذی میں اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل کرنے کے بعد اس پر آئمہ کرام اور علماء کی آراء بیان کی ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ: نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو قوم لوط جیسا عمل کرتے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔
اس باب میں حضرت جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں ۔ ہم اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی طریق سے پہچانتے ہیں ۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا اور فرمایا قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون ہے، قتل کا ذکر نہیں کیا۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ چوپائے سے بدفعلی کرنے والا بھی ملعون ہے۔
بواسطہ عاصم بن عمر، سہیل بن ابی صالح اور ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاعل اور مفعول (دونوں ) کو قتل کر دو۔ اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے عاصم کے سوا کسی اور نے سہیل بن ابی صالح سے روایت کیا ہو۔ عاصم بن عمر حفظ کے اعتبار سے حدیث میں ضعف ہے، لوطی کی سزا میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک شادی شدہ ہو یا کنوارہ اس پر رجم ہے، یہ امام مالک، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اﷲ کا قول ہے۔ بعض فقہاء و تابعین جن میں حضرت حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اﷲ شامل ہیں ، فرماتے ہیں لواطت کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ رحمہم اﷲ کا بھی یہی قول ہے۔(ترمذي، السنن، 4: 57، رقم: 1456، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)مذکورہ بالا احادیث کو امام حاکم، ابنِ ماجہ، امام نسائی، امام بیہقی، امام احمد بن حنبل، امام طبرانی، امام عبدالرزاق اور امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیھم اجمعین سمیت کئی محدثین نے روایت کیا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ہم جنس پرستی ایک مہلک متعدی مرض کی طرح ساری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، اس کے حامیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تقریباً نصف دنیا نے اس کو قانونی جواز دے دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کناڈا، فرانس، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ، برازیل، بیلجیم، ارجنٹینا، ناروے، پرتگال، اسپین کے بشمول امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک نے باضابطہ اس کو قانونی جواز فراہم کردیا ہے۔ مشرق وسطی اور ایشیائی ممالک کی اکثریت اس کے خلاف ہے، لیکن دنیا کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی ہم جنس پرستی کی تائید کر رہی ہے اور ہر سات میں سے ایک فرد اپنے مخالفانہ ذہن کو تائید و حمایت میں تبدیل کر رہا ہے۔ ستر فیصد بالغ افراد اس کی حمایت میں ہیں ۔ ہماری صفوں میں بھی بعض ایسے نام نہاد مسلمان ہیں ، جو ہم جنس پرستی کو اسلام میں جائز و مباح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں ، جب کہ از روئے شریعت یہ فعل قبیح ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ جو کوئی اس کو حلال سمجھے گا، نص قرآنی کے انکار کی بناء وہ اسلام سے خارج ہے اور جو اس کو حرام سمجھتے ہوئے مرتکب ہوگا، وہ شرعاً فاسق و فاجر، گناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم کا مرتکب ہوا اور از روئے شرع اپنی زندگی کے حق کو وہ کھودیتا ہے۔ ایسا شخص انسانی معاشرہ میں رہنے، بسنے اور جینے کے قابل نہیں ہے، اس کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن مجید میں بعض سابقہ امتوں کو ان کے کفر و شرک اور فسق و فجور کے سبب ہلاک و برباد کردینے کا تذکرہ متعدد مقامات پر کیا ہے، تاکہ لوگ اس سے درس عبرت حاصل کریں اور ان قوموں کے کفر اور ناشکری و معصیت سے بچ کر اللہ تعالی کے عذاب و عتاب سے محفوظ ہوں ۔ ان ہی امتوں میں سے ایک نہایت بدبخت و شرپسند قوم حضرت لوط علیہ السلام کی ہے، جو اللہ تعالی کی نافرمانی، فحش و منکرات، بے حیائی اور ہم جنسی کے سبب اللہ تعالی کے سخت ترین عذاب کی حقدار ہوئی۔ حضرت لوط علیہ السلام، ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہوتے ہیں ۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رہے، بعد ازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام بحرین کے قریب مقیم ہوئے، جہاں متعدد بستیاں آباد تھیں ۔ کئی سال تک حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالی کی طرف بلایا اور ان کو فسق و فجور، بے حیائی اور منکرات سے دور رہنے کی تلقین کی۔ وہ نہایت ہی بدبخت، بے حیاء اور ظرف سے عاری قوم تھی۔ وہ پہلی قوم ہے، جس نے ہم جنس پرستی کا آغاز کیا اور برسر عام اس جرم کا ارتکاب کرتے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے مختلف سورتوں میں حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’’اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں ) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: بے شک تم بڑی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو، اقوام عالم میں سے کسی (ایک قوم) نے (بھی) اس (برائی) میں تم سے پہل نہیں کیا۔ کیا تم (شہوت رانی کے لئے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجلس میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو، تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے: تم ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! تو فساد انگیزی کرنے والی قوم کے خلاف میری مدد فرما‘‘ (سورۃ العنکبوت۔۲۸ تا۳۰) اور سورۃ الشعراء میں ہے: ’’قوم نے کہا: اے لوط! اگر تم باز نہیں آؤگے تو ضرور بہ ضرور (اس گاؤں ) سے نکال دیئے جاؤ گے‘‘۔ (سورۃ الشعراء۔۶۷)
جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور اپنے عمل بد پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالی کا فیصلہ ان کے بارے میں ظاہر ہوا۔ اللہ تعالی نے اس قوم کو تباہ و تاراج کرنے کے لئے فرشتوں کو بھیجا، وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ علیہما السلام کے پاس آئے اور ان کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اطلاع دی کہ وہ قوم لوط پر اللہ کا قہر برسانے کے لئے آئے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے فکرمند ہوئے اور حضرت لوط علیہ السلام سے متعلق فرمایا کہ ’’وہ اسی قوم میں موجود ہیں ‘‘ تو آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ حضرت لوط علیہ السلام اور آپ کے اہل سوائے بیوی کے محفوظ رہیں گے۔ پھر وہ فرشتے انسانی لباس میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے انھیں نہیں پہچانا اور کبیدہ خاطر ہوئے کہ آپ کی قوم کہیں برا سلوک نہ کرے، اس لئے نہایت احتیاط سے اپنے گھر لائے۔
اس اثناء میں آپ کی بیوی نے قوم کو اطلاع دے دی کہ نہایت خوبرو مہمان آئے ہوئے ہیں ۔ آپ کی قوم نہایت شاداں و فرحاں آئی اور مہمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے خدا کا واسطہ دیا اور ان کو قوم کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ حلال و پاکیزہ رشتہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ پھر بھی وہ اپنے تقاضہ پر بضد تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام نہایت غمگین ہوئے اور آزردہ ہوکر کہنے لگے ’’کاش! میرے پاس طاقت و قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط پناہ میں ہوتا‘‘۔ فرشتوں نے کہا: ’’آپ آزردہ و پریشان نہ ہوں ، ہم فرشتے ہیں ، وہ ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ فرشتوں نے ان کی آنکھوں کو بے نور کردیا، ان کو کچھ دکھائی نہ دینے لگا۔ فرشتوں نے خدا کا پیغام پہنچایا کہ ’’آپ صبح سے پہلے رات ہی میں یہاں سے اپنے اہل کے ساتھ نکل جائیں ، کیونکہ صبح سویرے عتاب نازل ہونے والا ہے، آپ آوازیں سنیں تو پلٹ کر نہ دیکھیں ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حسب ہدایت حضرت لوط علیہ السلام اپنے اہل کو لے کر نکل گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیوی کو نہیں لیا یا وہ ساتھ تھی، لیکن پلٹ کر دیکھنے کی بنا پر ہلاک ہو گئی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ان نافرمان بے حیاء گاؤں والوں کو زمین سمیت اٹھایا اور آسمانوں کی طرف بلندی پر لے گئے، پھر ان کو نیچے دے مارا، اوپر سے پتھر برسائے، اس طرح وہ تمام علاقے تباہ و تاراج ہو گئے۔ سورۃ الشعراء میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی ہم جنس پرستی کے سبب اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو اس طرح کے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیا۔ اس لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جو کوئی ہم جنسی عمل کرے تو اس کی سزا موت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر دو کو موت کی سزا دو اور ایک حدیث میں ایسے افراد کو آپ ﷺ نے ملعون فرمایا ہے۔
پس فقہاء کے نزدیک سزا سے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے، تمام موت کی سزا پر متفق ہیں ، اختلاف نوعیت موت میں ہے۔ بعض نے کہا جلادیا جائے، بعض نے کہا پہاڑ پر سے پھینک دیا جائے اور بعض نے کہا کہ سنگسار کیا جائے اور جو خواتین ہم جنس پرستی کی شکار ہیں وہ تعزیری سزا کی مستحق ہیں ۔ علماء نے ان سے متعلق سورۃ النساء کی آیت ۱۵ سے استدلال کیا کہ ’’جو عورتیں (باہم) بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان پر چار افراد کی گواہی طلب کرو اور وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں قید کردو، تاآں کہ وہ انتقال کرجائیں ۔ ہم جنس کی سزا کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ عبدالرحمان الجزیری نے الفقه علیٰ المذاهب الاربعة میں فقہائے احناف کے مؤقف کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ: امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہم جنس پرست کی سزا حد نہیں ، تعزیر ہے۔ جبکہ امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیھما حد کے قائل ہیں ۔ الجزيری، عبدالرحمٰن، کتاب الفقه علیٰ المذاهب الاربعة، 5: 141، دارالفکر، بيروت، لبنان)
ہم حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کی سزا تعزیراً مقرر کرنے کے قائل ہیں ۔ تعزیرات میں حاکمِ وقت (قانون ساز) یا عدالت کو اختیار ہوتا ہے کہ مجرم کو ایسی سزا دے کہ جس سے دوسروں کو عبرت ہو اور کوئی اس جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کرے۔ کیس کی نوعیت کے اعتبار سے قاضی، مجرم کو عمر قید، قید، جرمانہ، ملک بدری یا سزائے موت بھی دے سکتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اس نے جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے یقینا وہ کسی نہ کسی مصلحت پر مبنی ہے، جن میں سے کچھ کا احساس ہمیں ہو پاتا ہے اور کچھ کا نہیں ۔ ہم جنسی بھی فحش عمل اور بدکاری ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے اور جس کے برے نتائج آرہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس سے بچنا خدا کا حکم ہے اور خدا کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا فرض ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں