کیا پاکستان مفت کا ہے ؟

کیا پاکستان مفت کا ہے ؟
آصف وڑائچ
چند ماہ پہلے کی خبر ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔
صدر غنی نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا کہ اگر کوئی تیسرا ملک ہماری تجارت، دوستی اور باہمی تعاون کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرے تو ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں اور سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ دونوں ممالک نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ہمارا دشمن ایک ہی ہے۔بھارت نے افغانستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دینے، افغانستان میں ڈیم کی تعمیر کرنے، افغان فورسز کی تربیت اور ادویات فراہم کرنے کے علاوہ اپنی ایجنسیوں کو بھی پورے افغانستان میں امریکی فوج کے شانہ بشانہ پھیلا رکھا ہے۔ یہ آج کی کھلی اور ٹھوس حقیقت ہے۔ یعنی یہ بالکل واضح ہے کہ افغانستان اکیلا نہیں بلکہ دو مضبوط ترین ممالک ناصرف اسکے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اس کی سرزمین کے اندر دھڑلے سے موجود ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر اس کو آپریشن سے کوئی مسٔلہ نہیں، ظاہر ہے کہ افغانستان کو اپنا مستقبل سنوارنے کا پورا اختیار اور حق حاصل ہے اور اپنی بھلائی اور ترقی کے لیے کوئی بھی ایسا معاہدہ کر سکتا ہے جس سے وہاں خوشحالی کے دروازے کھلتے ہوں اور میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو بہ حیثیت ایک ملک افغانستان میں امن اور بہتری آنے پر کوئی بھی اعتراض ہو گا۔ لیکن صاحبِ نظر لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ باہمی معاہدوں کا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، یہاں ایک گھمبیر الجھن ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ کہ سابق امریکی وزیر دفاع نے 2011ء میں اوکلاہوما کی کیمرون یونیورسٹی میں افغانستان سے متعلق ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوۓ کہا تھا کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کیخلاف استعمال کررہا ہے۔ اور بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے لیےبھاری فنڈنگ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ چک ہیگل 27 فروری 2013ء سے17 فروری 2015ء تک امریکہ کے 24 ویں وزیر دفاع رہے اور انہوں نے افغانستان سے متعلق اپنی پالیسیوں پر ناکامی پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔
میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ بھارت کا پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں کتنا کردار ہے۔ میں اپنے حکمرانوں کی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے را یا سی آئی اے کے ناموں کا سہارا بھی نہیں لیتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جب یہ واضح ہے کہ بھارت اور امریکہ کئی دہاىئوں سے افغانستان میں گھس بیٹھے ہیں خصوصاً افغانستان پر ہزاروں ڈیزی کٹر بم پھینکنے والے اور لاکھوں افغانیوں کو زندہ جلانے والے امریکہ کو تو اب تک ۔اچھے اور برے،طالبان کا بھی اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہوگا، ملکی سرحدوں اور شہروں کی ناکہ بندیوں اور حفاظتی حد بندیوں پر بھی کما حقہ عبور حاصل ہو گیا ہو گا اور افغان خود بھی بادی النظر میں بڑے جنگجو اور بہادر کہلاتے ہیں، تو صاحب پھر رونا چلانا کیسا؟ سنبھالیے اپنے ملک کو، ختم کیجیے تمام اچھے برے طالبان، مار دیجیے سارے دہشت گرد، کون روکتا ہے آپ کو؟ یہ کیا بات ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اور دہشت گرد تنظیموں کا واضح اقرار آپ کو نظر نہیں آتا ،لیکن اپنے ہی ملک میں دو ملکوں کی فوج رکھ کر بھی اگر آپ دہشت گردی کو قابو کرنے میں ناکام ہیں تو اپنی نا اہلی کا سارا نزلہ آپ پاکستان پر ڈال دیتے ہیں اور اگر یہی بات پاکستان کہہ دے تو امریکہ بہادر اور ہمارے موم کے دانشور ایک ہی پیج پر ہوتے ہوۓ برا مان جاتے ہیں جبکہ افغانستان میں ہونے والے کسی معمولی واقعہ کا الزام پاکستان پہ دھرنے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا، کیوں صاحب؟ کیا پاکستان کو اپنے دفاع میں کچھ بھی کہنے کا حق نہیں اور کیا آپ کے اس غیر منصفانہ رویے سے خطے میں امن آ پاۓ گا؟
پاکستان میں کچھ لوگوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو تحقیق و تفتیش تو دور رہی ابھی ٹی وی چینل پر پوری خبر بھی نشر نہیں ہو پاتی کہ انہیں بغض اور تعصب کی الٹیاں آنے لگتی ہیں فوراً سے پہلے پاک فوج پر بھونڈی تنقید کی الٹی کر دیتے ہیں۔
ہاں یہ درست ہے کہ کسی زمانے میں کچھ بین الاقوامی حالات کی بنا پر افغانستان کی اندرونی سیاست میں ہماری فوج کا کچھ کردار رہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مرحوم جنرل حمید گل نے مولوی طبقے کو اسلامی ٹرک کی بتی پیچھے لگائے رکھا اور ان سے کچھ سنگین غلطیاں سر زد ہوىٔیں۔ میریذاتی راۓ میں یقیناً،پاکستان کی جانب سے وہ اتنی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ جنرل حمید گل جیسے لوگوں کی بوئی ہوئی فصل ہم نے طویل عرصہ تک کاٹی ہے، لیکن سمجھنا چاہیے کہ وہ ماضی تھا جو گزر چکا اب وقت بہت آگے نکل چکا ہے۔ اب بار بار یہ کہنا، کہ جی جو بویا تھا وہ کاٹنا پڑے گا، تو صاحب جو کاٹنا تھا وہ بھی ہم کب کا کاٹ چکے ہیں، جو فصل ایک بار بوئی جائے وہ ایک بار ہی کٹتی ہےبار بار نہیں۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے تو اب وہاں پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے براہ راست ذمہ دار وہ تینوں ممالک خود ہیں جنہوں نے افغانستان کی حفاظت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ موجودہ حالات میں کسی صورت بھی پاکستان کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیا افغانستان کے حالات جاپان سے بھی زیادہ برے تھے؟ حالانکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بھیانک ایٹمی جنگ سے متاثرہ جاپانی مختصر سے عرصے میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
بات یہ ہے کہ اگر اہلیت اور نیت ہی نہ ہو تو خوامخواہ دوسروں پر الزام دھر کر اپنے عیبوں کو چھپایا جاتا ہے. جس طرح پاکستان میں ہونے والے ہر واقعے کا الزام امریکہ یا بھارت پر لگانا درست نہیں بالکل اسی طرح افغانستان میں ہونے والے واقعات کا الزام پاکستان پر دھرنا سراسر جہالت اور حالات سے نا واقفیت ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں امریکہ اور بھارت اپنے پنجے گاڑھے بیٹھے ہیں، جبکہ اس دوران وہاں کی مرکزی حکومت بھی دو بار تبدیل ہو چکی ہے اور تقریباً سارا کنٹرول امریکہ، بھارت اور لوکل حکومت کے پاس ہے مگر اس کے باوجود جب بھی وہاں کوئی جنگی یا دہشتگردانہ کارروائی ہوتی ہے تو ہمارے موم کے دانشور پاک فوج کے تیس سال پرانے کردار کو کوسنے لگتے ہیں۔ یعنی پاک فوج کی طرف سے ہزاروں جوانوں کی قربانیوں کے باوجود ان کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہوتی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی غلطیوں کو مدھانی کی طرح رڑکنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جتنا مکھن اس لسی سے نکلنا تھا نکل چکا ،اب اس میں سے اور مکھن نکلنے کی گنجائش نہیں رہی۔ مجھے کسی کی حب الوطنی ماپنے کا شوق نہیں لیکن میں اتنا ضرور کہتا ہوں کہ پاکستان کوئی مفت کا نہیں کہ جس کا جو جی چاہے کہتا پھرے۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply