بلبل ہزار داستان/شکور پٹھان

“ بھائی نام کیا ہے آپ کا”
“ جی میاں محمد شعیب آرائیں۔ ہماری گوت رامدے ہے”
“ کیا دے ہے؟”
“ رامدے”
“ اچھا وہ ایک جج صاحب بھی تھے، رامدے صاحب”
“ ہاں جی وہ بھی ہماری برادری کے ہیں ۔ میرے شریکوں کے شریکے ہیں”
“ گوت کیا؟ “ بیگم اور بیٹی نے ایک ساتھ پوچھا۔
“یہ برادریوں کی سب برانچ ہوتی ہے” زارا نے سمجھایا “ زات برادری کی ایک ڈویژن ہوتی ہے” زارا نے مزید وضاحت کی
“ یوں تو ہماری زمینیں بھی ہیں گوجرانوالے اور سیالکوٹ میں لیکن میں اور میرے ابے نے پندرہ سال دوبئی میں گذارے ہیں۔ہمارا وہاں کاروبار تھا لیکن بڑا نقصان ہوا۔ ہمیں لوگوں نے بڑی “ڈز” لگائی جی۔ بیس لاکھ درہم ، ہاں جی دو ملین درہم کا نقصان ہوا۔ ایک بندہ تو مرگیا، دو کو جیل ہوئی، تین یہاں پاکستان میں ہیں۔ ایک کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن آپ کو تو پتہ ہے جی کہ یہاں کی پولیس کیسی حرامی، معاف کرنا جی، کیسی بدمعاش ہوتی ہے۔ پیسے کھاگئی۔ بندہ ہاتھ نہیں آیا۔پھر بھی جی اللہ کا شکر ہے جی۔ یہاں بحریہ میں میرے تین گھر ہیں۔ دو دکانیں ہیں جی۔ سیالکوٹ اور گوجرانوالے میں زمینیں ہیں جی”
“ تو آپ یہ ٹیکسی کیوں چلا رہے ہیں “ وہ سانس لینے رکا ہی تھا کہ زارا نے سوال داغ دیا۔
“ میں جی پڑھا لکھا بندہ ہوں۔ میں نے ایم اے کیا ہے جی پولیٹیکل سائنس میں۔ میں موٹیویشنل سپیکر بھی ہوں جی”
“ موٹیویشنل کیا؟” بیگم نے پوچھا
“ موٹیویشنل سپیکر جی۔ میں لیکچر بھی دیتا ہوں جی”
“ آپ پڑھاتے بھی ہیں کالج یونیورسٹی میں؟” میں نے پوچھا
“ نہیں جی۔ و لاگ بناتا ہوں جی”
“ تو پھر یہ گاڑی ۔۔کیوں چلا رہے ہیں ؟”زارا نے اٹکتے اٹکتے ہوئے سوال دہرایا۔
“ وہ جی میرا بیٹا پی ایچ ڈی کررہا ہے اور بیٹی ڈاکٹری کر رہی ہے”
“ تو ان کی پڑھائی کے لئے پیسے جمع کررہے ہیں ؟” بیگم نے سوال کیا۔
“ نہیں جی، میرے بحریہ میں تین مکان اور دو دکانیں ہیں”
“ آپ نے بتایا نہیں کہ ٹیکسی کیوں چلا رہے ہیں”میری بیگم کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
“ نہیں جی، یہ ٹیکسی نہیں ہے۔ یہ تو میں نے دس سال پہلے لی تھی۔ اب بھی مجھے اس کے پینتیس لاکھ مل رہے ہیں”۔
میں نے اس سے نام پوچھ کر اپنی کم بختی کو دعوت دی تھی۔ میں کل ہی لاہور آیا تھا۔ میرے ساتھ میری بیگم اور بیٹی اور نواسہ بھی تھے۔ میں اور بیگم پہلی بار لاہور آئے تھے۔ بیٹی کی سسرال یہیں بحریہ ٹاؤن میں تھی اور آج وہ اور اس کی نند ( شوہر کی بہن نند ہی کہلاتی ہے ناں) ہمیں لاہور دکھانے لے جارہے تھے۔ لاہور کے ٹریفک اور پارکنگ وغیرہ کی جھنجھٹ سے بچنے کے لئے اپنی گاڑی کے بجائے یہ گاڑی “ہائر” کی تھی۔ ویسے بھی بحریہ سے لاہور کا خاصا فاصلہ تھا۔ اس سے فی گھنٹہ کے حساب سے کرایہ طے ہوا تھا۔
میں نے یونہی اس کا نام پوچھ لیا تھا کہ اگلے چار پانچ گھنٹے اس کے ساتھ رہنا تھا۔ لیکن وہ تو اپنا پورا تاریخ جغرافیہ بتانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ ٹیکسی کیوں چلا رہا تھا، اس سوال کا جواب تو نہیں ملا لیکن اس کی امارت کا حال سن کر ہم اچھے خاصے احساس کمتری کا شکار ہوچکے تھے۔ وہ جو کروڑوں کا نقصان برداشت کرنے کے باوجود بحریہ ٹاؤن جیسی جگہ پر تین مکانوں اور دو دکانوں کا مالک ہو، جس کی گوجرانوالے اور سیالکوٹ میں زمینیں ہوں اور جس کے بچے پی ایچ ڈی اور ڈاکٹری کررہے ہوں اور جس کے رشتہ دار سپریم کورٹ کے جج ہوں، بھلا ہم جیسے عمر بھر کی کمائی سے بحریہ میں بمشکل ایک مکان حاصل کرنے والے اسے “ڈرائیور” کیسے سمجھ سکتے تھے۔ اس نے تمام تفصیلات سے آگاہ کرکے واضح کیا تھا کہ اسے ڈرائیور نہ سمجھا جائے۔ اور یہ کہ وہ یہ گاڑی چلا رہا ہے لیکن وہ موٹیویشنل اسپیکر اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرس کئے ہوئے ہے۔
وہ ارب پتی ہو، عالم فاضل ہو، ہمیں اس سے کیا غرض ۔ اس کا حلیہ کہیں سےاس کے علم و فضل اور امارت سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ ملگجے سے میلے سے کپڑے اور گاڑی بھی کچھ پرانی سی تھی البتہ چل ٹھیک رہی تھی۔ ہمارا مسئلہ البتہ اس کی زبان تھی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہم آپس میں گپ شپ کرنا چاہتے تھے اور وہ ہمیں اپنی جائیداد اور کوالیفیکیشن کی تفصیلات بتانے پر تلا ہوا تھا۔
“ تم لوگ پہلے کہاں رہتے تھے” وہ سانس لینے رکا ہی تھا کہ میں زارا سے پوچھ بیٹھا۔
“ پہلے جی ہم گوجرانوالے میں تھے” زارا سے پہلے وہ بول پڑا۔
“ بھیا آپ سے نہیں ان سے پوچھا ہے” میں نے کچھ ترشی سے کہا
“ ہم تو انکل پہلے کراچی میں ہی تھے” زارا بولی
“ کراچی بھی جی برا شہر نہیں ہے، پر لہور لہور ہے” زارا کے رکتے ہی اس نے اپنی رائے سے آگاہ کیا۔
“ میں کراچی گیا تھا جی۔ اس کو پیپل پالٹی نے برباد کردیا۔ لہور کو میاں شہباز شریف نے بڑا زبردست بنادیا ہے جی، پر ہے وہ بھی چور”
“ آنٹی آپ کو لبرٹی لے چلیں گے۔ وہاں بہت ورائٹی ہے” زارا نے موضوع بدلنا چاہا۔
“ ہاں میں نے بھی سنا ہے وہاں بہت اچھے ڈیزائن اور پرنٹ ملتے ہیں ، بیگم موقع ملتے ہی اپنی باتیں شروع کرنا چاہتی تھیں۔ ہم سب ہی اپنی باتیں کرنا چاہتے تھے۔
“ لبرٹی اچھا ہے لے کن مہنگا ہے۔ میں آپ کو انارکلی لے چلوں گا۔وہاں اچھے دام ہوتے ہیں “ اس نے کہا اور ہم سب نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کو کہنیوں سے ٹہوکے دے رہے تھے۔ سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا۔ اسے کیسے خاموش کرائیں ؟
“ ویسے یہاں کی سڑکیں بہت اچھی ہیں۔ کراچی تو کھنڈر بنا ہوا ہے” میں نے مایوسی سے کہا۔ میری مخاطب زارا، میری بیگم اور بیٹی تھے۔
“ یہ جی نو پارٹیوں کے چور “ کٹھے” ہوگئے ہیں ۔ عمران خان اکیلا کیا کرے گا۔ یہ سارے چور ہیں ۔ اب تو فوج میں بھی سارے بے ایمان جمع ہوگئے ہیں۔ ساری امریکہ کی سازش ہے جی۔ میاں ساب کے تو ویسے بھی انڈیا سے تعلقات ہیں ۔ مودی اس کی شادی میں آیا تھا۔ “وہ بلا رکے بولے جارہا تھا۔
“ کس کی شادی میں ؟نواز شریف کی” میری بیٹی حیرت سے بولی۔
“ نئیں جی، اس کے پوترے یا ناتی کی، کسی کی شادی تھی۔ یہ میاں لوگوں کا وہاں انڈیا میں کاروبار ہے۔ یہ تو جی پاکستان کو بیچ دیں گے”۔
“ ارے اس شادی میں مریم کتنی اچھی لگ رہی تھی۔ کیا زبردست زیور پہنا ہوا تھا” میری بیگم کو کچھ یاد آگیا۔
“ یہ جی سب پکے چور ہیں جی۔ اس نے باہر سے وہ والا میک آپ کرایا ہوا ہے، کیا کہتے ہیں اس کو؟، ہاں جی وہ پلاسٹک والا ، وہ اس نے وہاں لنڈن سے کرایا ہوا ہے جی”
“ بٹ شی واز لکنگ گورجئیس” میری بیٹی بولی۔
“ نہیں جی سارا دو نمبر ی کام ہے جی”
“ابھی یہاں بھی سردی نہیں ہے۔ کراچی جیسا ہی موسم ہے” میں نے موضوع بدلتے ہوئے زارا کی طرف دیکھا۔
“ بس جی اب سردی کا زور شروع ہونے والا ہے۔ ہمارے گوجرانوالے میں تو کمبل اور رضائیاں نکل آئی ہیں “
کچھ دیر کے لئے گاڑی میں خاموشی چھا گئی ۔ ہم سب کی آنکھوں سے بیزاری جھانک رہی تھی۔ ہم اپنی باتیں کرنا چاہتے تھے لیکن کسی کے بولنے سے پہلے وہ بول پڑتا تھا۔ سب کے چہروں پر کوفت صاف نظر آرہی تھی۔ وہ ہم سب سے بے پرواہ بولے چلا جارہا تھا۔ وہ کچھ لاہور کی دھند کے بارے میں بتارہا تھا کہ انڈیا والے فصلیں جلاتے ہیں اور یہ کہ گورنمنٹ نے نوٹس دیا ہوا ہے ( پتہ نہیں کس کو نوٹس دیا ہے اور دیا بھی ہے تو ہم کراچی والوں کو اس سے کیا لینا دینا) ۔ انڈیا کے بعد اس نے مہنگائی کی باتیں شروع کردیں ۔ ایک بار پھر بتایا کہ تین مکان اور دو دکان ہیں لیکن مہنگائی میں گذارا نہیں ہوتا حالانکہ “ دانے” اور گڑ اور اصلی گھی گوجرانوالے سے آتے ہیں۔
“ یار سنا ہے گوجرانوالے کے چڑے کے کباب بہت مشہور ہیں” میں نے بھی تقریباً ہتھیار ڈال دئیے اور اسی کی باتوں میں شامل ہوگیا۔
“ کباب نئیں جی، پکوڑے ہوتے ہیں۔ بڑے ہی سواد والے ہوتے ہیں جی”
“ اور گوجرانوالے کے لوگ کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ، ہیں ناں” میں نے اپنی معلومات کا مظاہرہ کیا۔
“ ہاں جی ہمارے ہاں کے کھابے ہوتے بھی بڑے سواد والے ہیں۔ ویسے لہور کی بھی خوراکیں زبردست ہوتی ہیں ۔ آپ کو “پھجے “کے پائے ضرور کھانے چاہئیں۔ وہیں “فیکے “کی لسی بھی ملتی ہے۔ یہاں سے جاتے ہوئے “خلیفہ “کی خطائیاں اور “ پہلوان” کی ریوڑھی لے جانا نئیں بھولنا۔
“ یہ لڈو پیٹھیاں کیا ہوتی ہیں “ میری بیٹی نے زارا سے پوچھا۔
“ وہ بھی آپ کو دکھائیں گے جی۔ دہلی دروازے کے پاس کھڑا ہوتا ہے ریڑھا لے کر” زارا سے پہلے وہ بول پڑا۔
ہم سب کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے۔ شاید سب اپنے ذہن میں اس سے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے۔ میرے جی میں آئی کہ کہوں کہ بھائی کچھ دیر اپنی زبان کو لگام دو اور ہمیں آپس میں بات کرنے دو۔ لیکن یہ بات کہیں تو کیسے۔ ہم بیچ بیچ میں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے اشارے کرتے، مسکراتے، منہ بناتے لیکن اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔ اسی کوفت میں ہم لاہور پہنچ گئے۔ مجھے اندرون شہر دیکھنا تھا۔ مسجد وزیر خان سے باہر ٹریفک پولیس نے ہمیں روک دیا کہ اندر بہت تنگ ہے ۔گاڑی یہیں پارک کرو اور پیدل اندر جاؤ۔ کچھ دیر کے لئے اس سے نجات ملی۔ وہ ہمارے ساتھ اندر آنا چاہتا تھا۔ ہم نے کہا کہ اسے گاڑی پارک کرنا پڑے گی اور یہاں کہیں پارکنگ نظر نہیں آرہی، بہتر ہے وہ گاڑی میں انتظار کرے۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہم مینار پاکستان کے گیٹ کے باہر آئے۔ یہاں بھی گاڑی اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم نے بجلی کی “ بگھی” کرائے پر لی اور مینار پاکستان، قلعہ لاہور، بادشاہی مسجد اور علامہ اقبال کے مزار وغیرہ کی سیراور زیارت کی۔ یہاں بھی اسے باہر رکنے کے لئے کہا۔
اب بھوک لگ رہی تھی۔ ہمارا پرو گرام شام میں ایسے وقت کھانے کا تھا کہ دوپہر اور رات کا کھانا دونوں ایک ساتھ ہوجائیں۔ بادشاہی مسجد سے متصل فوڈ کورٹ کے مشہور “ حویلی” ریستوران میں کھانے کا پروگرام تھا۔
مجھے جی شوگر کی شکایت ہے۔ میں پوائنٹ فائیو کی انسولین لیتا ہوں۔ زیادہ دیر بھوکا نہیں رہ سکتا۔
“ ہاں ہم آپ کو کھانا بھجوادیں گے” زارا نے اسے اطمینان دلایا۔
“ ویسے اوپر ،روف ٹاپ، پر کھانے میں مزہ آتا ہے جی۔ وہ ہمارے ساتھ ہی اوپر آنا چاہتا تھا۔
“ ہم نے کھانے کے بعد ذرا یہاں کی سیر کرنی ہے۔ بچے کو تانگے کی سواری کروانی ہے۔ حویلی کا اسٹال نیچے بھی ہے۔ جو آپ کہیں گے آپ کو بھجوادیں گے”۔ زارا نے کچھ نرمی، کچھ ترشی سے کہا۔ کم از کم یہاں تو ہم اطمینان سے گپ شپ کرلیتے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ہم واپس جارہے تھے۔ بادشاہی مسجد سے عشاء کی اذان کی آواز بلند ہورہی تھی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس کی داستان امیر حمزہ شروع ہوگئی لیکن اب ہم سب غنودگی کے عالم میں جھوم رہے تھے۔ ہماری جانب سے کوئی جواب نہ پاکر وہ بھی خاموش ہوگیا تھا۔
“ کل کتنے بجے آجاؤں جی میں ؟” اس نے رخصت ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ نہیں، کل ہم اپنی گاڑی سے جارہے ہیں۔ آپ کا بہت شکریہ” زارا اور ہم نے اسے خدا حافظ کہا۔
“ پہلے ایک کڑک چائے پئیں گے” زارا نے دروازے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا۔
“ ہائے زارا آپی، آپ نے دل کی بات کہی۔ میری بیٹی اپنی پیشانی مسلتی ہوئی بولی۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply