سماج (20) ۔ ریاست/وہاراامباکر

سوسائٹی کا ٹوٹ جانا بڑی تبدیلی ہے۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ویسا ہوتا ہے جیسے ازدواجی رشتے میں طلاق ہو جائے۔ اس سے واپسی نہیں ہوتی۔ اور بندھنوں کے ٹوٹ جانے کے بعد رویے بدل جاتے ہیں۔ الگ گروہ اپنی الگ راہ لیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زبانوں اور لہجوں میں بڑی تبدیلیاں آنے کا بھی یہی وقت ہے۔ الگ افکار کی پیدائش کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ کا اعلانِ آزادی ہو، پاکستان کی تخلیق یا پھر اس کا دولخت ہونا۔۔۔ یہ تاریخ کے بڑے موڑ اور اہم مواقع ہوتے ہیں۔ اور یہ انسانی تاریخ میں قدیم زمانے سے جابجا ہوتا آیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی سوسائٹی کے ٹکڑے ہو جانے کے بعد نئی شناخت کی تعمیر کا مواقع ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ گروہ کیلئے زندگی کے معنی اور مقصد بھی بدل سکتا ہے۔ اور یہ نظریاتی الجھنوں کا وقت بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ورلڈ ویو ہمیں جوڑتا ہے۔ معاشرے کے ممبران اس مشترک ورلڈ ویو کی وجہ سے ہی بندھتے ہیں اور برابر کا رتبہ پاتے ہیں اور باقی foreigners ہیں۔ (معاشروں کے اندر بھی کچھ قسم کے لوگوں کے ساتھ تعصب کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر فربہ جسامت یا افلاس کا شکار بے گھر کے ساتھ لیکن یہ شناخت کی بنا پر گروہی تعصب نہیں۔ یہ ویسے ہے جیسے معذور ہاتھی یا بیمار چمپینزی کے ساتھ بھی ان کے گروہ میں ناروا سلوک کیا جا سکتا ہے)۔
نئے بننے والے گروہ میں نئی خاصیتیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ مشترک خاصیتوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ بائیولوجسٹ اسے isolating mechanism کہتے ہیں۔
جس طرح طلاق ہو جانے کے بعد تعلق کشیدہ ہونے کا امکان زیادہ ہے، بات چیت ختم ہو جانا معمولی بات ہے۔ اسی طرح ٹوٹ جانے والے معاشروں سے بننے والے گروہوں میں معاندانہ رویہ معمول ہے۔ یہ اپنی مشترک تاریخ کو بھلا دیتے ہیں یا اس سے احتراز کرتے ہیں۔
اور باہر سے دیکھنے والوں کو خواہ بننے والے یہ گروہ ایک ہی جیسے لگیں لیکن ان کے رکن اس بات کو جانتے ہیں کہ واپس ملنے کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل، دریائے فرات کے مشرق میں یورک کی آبادی اور پیچیدگی بڑھ چکی تھی۔ یہ الگ قصبے تھے جن میں سے سب سے بڑے میں ہزاروں لوگ آباد تھے۔ اس میں دستیاب سہولیات اور سامان اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ سڑکیں، عبادت گاہیں، ہنرکدے، ورکشاپ۔۔۔ اس علاقے سے ملنے والی تختیوں کی لکھائیوں نے یہ محفوظ کیا ہے۔ یورک ابتدائی معاشروں کی ایک مثال تھی۔ یہ انسانی تنظیم کا نیا طریقہ تھا جس کو ریاست کہا جاتا ہے۔ ابتدائی ریاستوں جدید معیار کے مقابلے میں بہت چھوٹی اور سادہ تھیں لیکن یہ اس قسم کا معاشرہ تھا جس کے ساتھ لوگ وفاداری کا تعلق رکھتے ہیں۔
ریاستوں کی ابتدا سے کچھ خاصیتیں رہی ہیں۔ ایک اہم چیز اس کا لیڈر ہے۔ اس سے سادہ تنظیم (chiefdom) کی ہے۔ چیف کی طاقت محدود تھی اور اسے آسانی سے ہٹایا جا سکتا تھا۔ جب یہ چیف ڈم بڑی ہوتی تھی تو اس کو منظم رکھنا غیرعملی ہو جاتا تھا۔ بڑے گروہ اور آبادیوں کے معاشرے کو اس طرح سے اکٹھا رکھنا ممکن نہیں تھا۔
ریاست کی آمد نے اس کو تبدیل کر دیا۔ ان کے سربراہ اپنی مرضی کو نافذ کر سکتے تھے۔ محنت کی تقسیم اور کنٹرول کی تنظیم آئی۔ اور پھر بیوروکریسی کی آمد ہوئی۔ اور بڑے معاشروں کا بننا ممکن ہوا۔ جب ایک ریاست دوسرے کو فتح کرتی تھی تو سابق ریاست کے علاقے اس کے صوبے بن جاتے تھے۔ نگرانی کے لئے اپنے کام میں مہارت رکھنے والے سرکاری ایجنٹ کام کرتے تھے۔ نگرانی کے اس سسٹم کا مطلب یہ تھا کہ معاشروں کو سربراہ کے حکم پر چلایا جا سکتا تھا۔ دارالحکومت اور دور کے صوبوں میں رابطے کا فقدان اور وقت زیادہ لگنا ابتدائی ریاستوں کے لئے چیلنج تھا۔ ریاست کی مضبوطی کے لئے مضبوط انفراسٹرکچر بھی درکار تھا۔ اور زیادہ مضبوط ریاستیں اپنے لیڈر کا تخت الٹائے جانے کو بھی برداشت کر جاتی تھیں اور طاقتور ہو جانے والی بیوروکریسی اور سرکار کے ادارے لیڈر کو بھی لگام ڈال سکتے تھے۔
چیف ڈم اور ریاست میں کئی اور فرق بھی تھے۔ کمزور لیڈر والے معاشروں میں انصاف کا نظام ادلے کے بدلے کا تھا۔ جبکہ تشدد کی طاقت ریاست کے پاس زیادہ ہونے کا مطلب انصاف کا فرض بھی ریاست کی طرف منتقل ہونا تھا۔ اور اس کے لئے رسمی قوانین درکار تھے جو اس کے شہریوں کے لئے قابلِ قبول رویوں کی حد طے کرتے تھے۔ ریاست میں نجی ملکیت کا تصور بھی قائم ہو سکتا تھا جس میں اشیائے تعیش بھی تھیں جو کہ بالا طبقے کی خواہش تھیں۔ چیف ڈم میں بھی طبقاتی فرق تھے لیکن ریاست ان کو دوچند کرتی تھی۔ طاقت اور وسائل تک رسائی حاصل کی جا سکتی تھی یا وراثت میں لی جا سکتی تھی۔ کچھ لوگ دوسروں کے لئے محنت کرتی تھی۔ اور پھر، ریاست اپنے ممبران سے خراج، ٹیکس اور بیگار لے سکتی تھی۔ اور اس کے بدلے میں ان کو انفراسٹرکچر، تحفظ اور خدمات دی جا سکتی تھیں۔ اور اس کا مطلب یہ کہ سوسائٹی پر انحصار زیادہ سے زیادہ بننے لگا۔
ریاست پر مبنی انسانی تنظیم دنیا کو اپنی لیپیٹ میں لینے لگی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply