مولانا سید عبد اللہ شاہ بخاری۔۔محمد احمد

مولانا عبد اللہ شاہ بخاری سے کون واقف نہیں ہوگا، وہ ایک واعظ، مناظر، اہل حق کی شان، فرقہ باطلہ کے لیے شمشیر برہنہ تھے۔ آپ حق گو، نڈر اور بے باک عالم دین تھے۔ آپ کا تعلق سادات خاندان سے تھا۔ آپ کے والد بزرگوار غلام رسول شاہ ایک متقی اور نیک انسان تھے،ان کا مختصر تعارف کچھ ایسا ہے،ان کا روحانی تعلق امام المجاہدین سید تاج محمود امروٹی سے تھا،ان کے بعد مولانا حماد اللہ ہالیجوی سے بیعت ہوئے۔ امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری سمیت دیگر بزرگوں سے دوستانہ مراسم تھے۔ آپ کے والد ماجد نے “دار السعادت” کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم فرمایا تھا، جہاں مولانا استاد العلما  عبدالحکیم سومرو،محقق دوراں مولانا غلام مصطفيٰ قاسمی سمیت بڑے نامور علما کرام پڑھاتے رہے ہیں، اس ادارے سے بڑی تعداد میں علما  تیار ہوئے، اس کا فیض بہت پھیلا، امام العصر مولانا عبدالکریم قریشی نے بھی یہاں تعلیم پائی، ان کے علاوہ وقت کے بڑے جید علما کرام یہاں پڑھتے رہے ہیں۔

یہ گھرانہ نہایت سخی تھا، سال میں ایک یا دو مرتبہ “ترکہ” کرتے تھے، یعنے ضرورت کا کچھ سامان اپنے پاس رکھ کر پڑوس کے غریبوں اور ضرورت مندوں کو حکم دیتے تھے کہ گھر میں جو کچھ ہے، لے جائیں، جو کچھ ہوتا تھا تقسیم فرما دیتے تھے۔ مولانا عبد اللہ شاہ بخاری اس خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ 1935 میں شکارپور کے قصبہ “گورو پہوڑ” میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی، بعد ازاں مختلف مدارس میں کسب فیض کرتے رہے، 1959 میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے فراغت حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں مولانا علی محمد حقانی، امام العصر مولانا عبدالکریم قریشی، مولانا غلام محمد پہنور، مولانا عبد الرشید نعمانی اور محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوری وغيره کے نام نمایاں ہیں۔

آپ نے پہلے مسجد منزل گاہ سکھر میں کام کیا، مدرسہ کی بنیاد رکھی، بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر مدرسہ کا انتظام مولانا محمد مراد ہالیجوی کے حوالے کیا۔ پھر 1966 میں بچل شاہ میانی میں بدر العلوم حسینیہ کی داغ بیل ڈالی، شاندار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی،آخری عمر تک اہتمام سنبھالتے رہے، اس مدرسہ میں بڑے نامور علما  کرام پڑھاتے رہے ہیں،جن مولانا عبداللطیف پٹھان، مولانا عبدالسلام بمبل، مفتی عبدالغفار جمالی، مولانا نور محمد جمالی شامل ہیں۔طلبہ کی بڑی تعداد ہوتی تھے۔ آپ نصاب میں جدید علوم پڑھانے کے قائل تھے، درس نظامی میں تاریخ اور جغرافیہ کے مضامین پڑھانے کے حامی تھے۔

فرماتے تھے کہ جتنا زور منطق اور فلسفہ پر دیا جاتا ہے، اگر یہ محنت تفسیر اور حدیث میں کی جائے تو کار آمد ہوگی۔ علامہ علی شیر حیدری جیسے علما  نے یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ یہاں مختلف فنون میں دورے بھی منعقد ہوتے رہتے تھے، جن میں خاص طور پر مفتی غلام قادر میمن اور مولانا عبدالستار تونسوی مولانا محمد امین اوکاڑوی پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ بخاری صاحب کا اصل میدان خطابت تھا، آپ اپنے مواعظ میں فرقہ باطلہ کی خاص بیخ کنی فرماتے تھے، اس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ کی تقاریر کی بدولت لوگ حق کی طرف متوجہ ہوئے، سینکڑوں افراد تائب ہوکر صراط مستقیم پر گامزن ہوئے۔ آپ اپنی تقاریر کی وجہ سے حکومت کے عتاب کا نشانہ بھی بنے، نظر بندی اور مقدمے بھی بھگتے لیکن آپ کسی ہتھکنڈے سے نہیں ڈرے پہلے سے زیادہ توانا آواز کے ساتھ باطل کو للکارتے رہے۔ اسٹیج پر جاہل نما مولویوں کی تقریر کے مخالف تھے، اس کو دعوت اور تبلیغ کے کام میں حرج گردانتے تھے، فرماتے تھے کہ خطیب کو قرآن وحدیث کی روشنی میں گفتگو کرنی چاہیے اور اپنا مطالعہ وسیع کرنا چاہیے۔ ب

Advertisements
julia rana solicitors london

خاری صاحب بلا کے ذہین تھے، آپ کو فرقہ باطلہ کے خلاف کتابوں کے حوالے ازبر ہوتے تھے۔ آپ وسیع المطالعہ عالم دین تھے، آپ نے اپنے ادارے میں نہایت شاندار لائبریری قائم فرمائی تھی، جہاں مختلف موضوعات پر کافی کتب جمع تھیں،لائبریری اب بھی قائم ہے۔ سیاست میں جمعیت علما  اسلام کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل رہے، آپ کی شخصیت اور مقبولیت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ جمعیت علما  اسلام نے آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں الیکشن میں کھڑا کیا تھا، جب بھٹو کا عروج تھا، طاقت تھی، کسی کو ہمت نہیں تھی کہ مقابلہ کرے، شاہ جی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مولانا عبداللہ شاہ بخاری نے اپنی عمر عزیز حق کی راہ میں قربان کردی، جب تک صحت نے ساتھ دیا میدان میں شیر بن کر گرجتے رہے، دعوت تبلیغ کے لئے لمبے لمبے اسفار کیے، مشقتیں جھیلیں، راحت کو قربان کیا۔ آخری عمر میں علیل ہوگئے، نقاہت اور ضعف بڑھ گیا تھا، مجھے حضرت کا وہ نورانی چہرہ آج بھی یاد ہے کہ جب علاج کے لئے والد صاحب زیدمجدہم کے پاس تشریف لاتے تھے،ہم زیارت کی غرض سے دوڑے آتے تھے،لیکن اس زمانے میں کافی کمزور ہوچکے تھے۔ یہ ربانی عالم 7 اگست 2007 اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔ آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply