بہادری تو ہے لیکن دانشمندی نہیں۔۔ولی خیام

افغان میڈیا کے مطابق ہر روز قریب تین سے چار سو ‘پاکستانی جنگجو’ افغان آرمی کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ مگر (دکھائے نہیں جاتے) ، یہ حقیقت ہے کہ مختلف اوقات میں پاکستان سے لوگ افغانستان گئے ہوں گے اور وہ ملٹری آپریشن میں ہلاک بھی ہوئے ہوں گے۔ مگر جو تعداد افغان میڈیا بتا رہا ہے اس کے  مطابق  تو اب تک ‘ سٹوڈنٹس’ کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا۔

دوسری بات بقول محب اللّٰہ اور امراللّٰہ صالح کے گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران پاکستان نے پندرہ ہزار جنگجو افغانستان بھیجے ہیں۔ عقل و فہم کے مالک لوگ اس تعداد پر بھی ضرور حیران ہونگے کہ سپین بولدک یعنی چمن سرحد پر تو  سٹوڈنٹس کا قبضہ ہوئے زیادہ سے زیادہ دو سے تین ہفتے نہیں ہوئے ہوں گے، اس سے قبل پاکستان سے منسلک افغان سرحدوں  پر تو مکمل طور پر افغان ملی اردو مامور تھی، ملی اردو کے ہوتے ہوئے اگر دس سے پندرہ ہزار جنگجو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو پھر تو واقعی افغانستان پر ‘داڑھی والوں’ کا قبضہ کہہ  لیجیے یا حکمرانی کہہ  لیجیے حق بنتا ہے۔ (مگر بابا جی اپنی خامی، خرابی ہرگز ماننے کو تیار ہی نہیں کہ آخر اربوں ڈالر جس آرمی پر خرچ ہوا کچھ تو پوچھ گچھ ہونی چاہیے اس کی بھی)۔

اسی طرح جب  سٹوڈنٹس نے اسپین بولدک پر قبضہ کرلیا تو اوّل تو کابل رجیم نے صاف صاف انکار کردیا کہ نہیں ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پھر بولدک کی پرانی وڈیوز چلائیں، جب سب تدبیریں ناکام ٹھہریں ، تو پاکستان پر افغان حکومت کو دھمکیاں دینے کا الزام عائد کیا۔ ٹھیک ہے مان لیتے ہیں، کہ واقعی یہاں آپ کو پاکستان نے دھمکیاں دی ہوں گی کہ بقول سرخوں کے پاکستان اور پنجابی ظالم جو ٹھہرے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایران اور تاجکستان کے بارڈر پر ملی اردو کو آخر کیوں کر پسپائی ہوئی؟ وہاں کس نے دھمکیاں دی تھیں  ؟۔ اور اسی طرح جب حال ہی میں پاکستان میں 46 افغان ملی اردو کے اہلکار اسٹوڈنٹس سے پسپا ہوکر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تو پاکستان نے اس ضمن میں ایک پریس ریلیز جاری کی۔ کابل نے فوراً انکار کردیا اور کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا یہ پاکستان کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے۔ چنانچہ پاکستان نے مجبوراً ثبوت کے طور پراگلے روز افغان ملی اردو کی ویڈیو ریلیز کردی۔ جھوٹ پر جھوٹ۔۔

جھوٹ ہرگز کسی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مسئلے سے فرار یا مسئلے کو نظرانداز کرنا اور طول دینا ہے۔ لیکن اس بات کو سرخوں اور انڈیا نواز کابل رجیم کو کون سمجھائے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج سے ایک ماہ قبل تقریباً افغانستان کے تین چوتھائی حصہ پر کابل رجیم اور ایک چوتھائی پر  سٹوڈنٹس کا قبضہ تھا۔ جبکہ آج کہانی بالکل اس کے اُلٹ ہوچکی ہے۔ آج افغانستان کے تین چوتھائی حصہ پر سٹوڈنٹس جبکہ محض ایک چوتھائی حصہ پر کابل رجیم براجمان ہے۔

کہا جاتا ہے کہ حقیقت افسانے سے  زیادہ حیرت انگیز  ہوتی ہے۔ اور یہ دنیا مفروضوں، جھوٹ یا ذاتی خوش فہمیوں کے سہارے نہیں چل سکتی۔ جتنا بھی جھوٹ بولا جائے تاہم حقیقت، حقیقت ہوتی ہے چاہیے وہ جتنی بھی تلخ کیوں نہ ہو، اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جناب اب سب کچھ غنی بابا کے ہاتھوں میں ہے کہ یا تو وہ اپنی کرسی کی پرواہ کیے بغیر مذاکرات کرکے افغانستان کو مزید خون خرابے  سے بچا لے  ، یا پھر سفید جھوٹ بولتا رہے اور بے گناہ اور معصوم افغانیوں کا خون یوں ہی بہتا رہے ،افسوس صد افسوس !افغان اپنی بہادری میں دانشمندی سے عاری ہوچکے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply