پاکستان،دین کا بنیادی تقاضا۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائد اعظم کی زیر ِقیادت دنیا کے نقشے پر  اُبھرنے والی،14اگست 1947کو معرض وجود میں آنے والی مملکت خدادادپاکستان،جس کی بنیاد دوقومی نظریہ پر رکھی گئی،یہ دوقومی نظریہ کیا ہے؟جس پر آج کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں،ان کو معلومات اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ اس پر مختصراًروشنی ڈالی جائے،کیونکہ کچھ حضرات کے نزدیک دوقومی نظریہ اب بے جان ہو چکا ہے یا جیسا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے،لیکن عقل وشعورسے عاری یہ نہیں جانتے کہ نظریات کبھی مرا نہیں کرتے اور نہ ہی بے جان ہوا کرتے ہیں،کسی بھی نظریے کو ماننے اور اس پر یقین کرنے والوں میں سے جب تک ایک بھی شخص زندہ ہو تو نظریہ زندہ رہتا ہے،دوقومی نظریہ نہ تو آل انڈیا مسلم لیگ نے دیا اور نہ ہی یہ قائد اعظم کے ذہن کی اختراع تھی،دو قومی نظریے کا احیاء تو 1400سال پہلے اس وقت ہو گیا تھا جب ہادی برحق رسالتماب جناب محمد ﷺ کی نبوت کا آغاز ہوا،جب آپ ﷺ کی دعوت توحید کے بعد سب سے پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تو اسکے ساتھ ہی دوقومی نظریہ وجود میں آگیا تھا،اور اسی بات کو بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی دوہرا یا، جب کہاکہ پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا جب برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔

بنیادی طور پر دوقومی نظریے کا مطلب القرآن کے مطابق یہ بنتا ہے کہ اس کرہ ارض پر صرف دو قومیں بستی ہیں،ایک وہ جو رسالتماب ﷺپر اور اللہ کی واحدنیت پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والے نفوس پر مشتمل ہے، اور دوسری وہ جو اس کا نکار کرتی ہوں۔۔۔ہر دو کی طرزِ  معاشرت،بودوباش،رہن سہن،رسم ورواج،کھانا پینا،عبادات،زندگی گزارنے کے  طور طریقے دوسرے سے جدا ہیں،مسلمان برصغیر میں صدیوں سے آباد ہیں،جنہوں نے ہندؤوں پر 1000سالہ حکومت کی،لیکن اس کے باوجود  کہ  مقامی ثقافت کے رنگوں کو مسلمانوں نے کسی حد تک ا پنایا لیکن پھر بھی مسلمان برصغیر کی دوسری بڑی اکثریت ہندؤ اور دیگر مذاہب کی اقلیتوں سے ہمیشہ منفرد ہی نظرآئے،یہ سلسلہ 1857 تک جاری رہا۔انگریزو ں کے قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کو سب سے بڑا مسئلہ اپنی شناخت کا درپیش  تھا،انگریز نے چو نکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا لہذا ان کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں کی جانب سے تھا،اور ہندؤ نے اپنی ازلی مسلم دشمنی میں انگریزوں کا ساتھ دیا،سرکاری دفتروں میں اُردو اور فارسی زبان کی بجائے انگریزی کے نفاذ سے مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے،اور مسلمان نان شبینہ کے محتاج بنا دئیے گئے،رہی سہی کسر ملاؤں نے پوری کردی جنہوں نے انگریزی زبان اور جدید تعلیم پر فتوی ٰ لگا کر انگریزی سیکھنے والے کو کافر قرار دے دیا،جس سے مسلمانوں کا رحجان انگریزی اور جدید تعلیم کی جانب نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور مسلمان جس نے برصغیر پر 1000سال حکومت کی اس کو ایوان اقتدار سے یکسر پرے ہٹا دیا گیا۔

اسکے مقابلے میں ہندؤ سیانا نکلا،اور وہ جدید تعلیم اور انگریزی سیکھ کر انگریزں کا ساتھی بن بیٹھا اور برصغیر کی پہلی سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانگریس جس کی بنیاد ایک انگریز اے او ہیوم نے 1875میں رکھی، میں ہندؤ کی اکثریت کی شمولیت سے کانگریس صرف ہندؤ وں کی نمائندہ جماعت بن کررہ گئی جس میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی،خود بانی پاکستان قائداعظم ؒ نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز آل انڈیا نیشنل کانگریس سے ہی کیا،کانگریس کے پلیٹ فارم سے جناح ؒ نے ہندؤ مسلم اتحاد کی بہت کوشش کی،اور ہندؤ مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے،مسلمانان ہند کی سیاسی زندگی میں پہلا بڑاانقلاب اُس وقت آیاجب 1906میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا،قائداعظم ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کو 1913میں جوائن کیا تاہم 1920تک وہ کانگر یس کے بھی رکن رہے،لیکن ہندؤ کی مکاریوں اور مسلم دشمنی کی وجہ سے آپ نے 1920میں کانگریس کو ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنی ساری توانائیاں مسلمانوں کے حقوق کے لئے صرف کردیں۔

1930میں علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا،جس کا نام 1933میں انگلستان میں زیر تعلیم ہندوستانی مسلمان چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا نام دیا،رفتہ رفتہ یہ نام برصغیر کے بچے بچے کی زبان پرچڑھ گیا اور 1940میں قراردار پاکستان کی منظوری کے بعد پاکستان ناگزیر ہوگیا،اور آل انڈیا مسلم لیگ نے بانی پاکستان قائد اعظمؒ کی قیادت میں صرف 7سال کے عرصے میں پاکستان ایک زندہ جا وید حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھرا،یہ جو آج ہمارے ہاں جناح ؒ اور تخلیق پاکستان کے حوالے سے خاص طور پرسوشل میڈیا پر زبان درازی کی جاتی ہے اور پاکستان کو انگریزکی سازش اور جناح ؒ کو انگریز وں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے،یہ لوگ کل تک کانگریسی علماء،سرحدی گاندھی اور پاکستان میں اسلام کے ٹھیکیدار بنے جماعت اسلامی کے روپ میں جناحؒ اور تخلیق پاکستان کے مخالف تھے اور آج بھی جناحؒ اور پاکستان دشمنی میں موجودہ نسل کو بہکا رہے ہیں،صرف چہرے بدلے ہیں کردار وہی ہیں، ان لوگوں اور جناحؒ یا پاکستان کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کی باتوں میں کوئی سچائی نہیں،خود ہیکٹر بولیتھواور سنٹیلے والپرٹ جیسے مصنفین نے جناح ؒ اور تخلیق پاکستان کے بارے جو کچھ لکھا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سچ کیا ہے اورجھوٹ کیا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ نسل کو تخلیق پاکستان کے حوالے سے مکمل حقائق سے آگا ہ کرنے کے اقدامات کیے  جائیں،تاکہ کوئی ففتھ کالمسٹ ہماری نسلوں کو بہکا نہ سکے،پاکستان بنانے کا مقصد ایک ایسے خطہ زمین کا حصول تھا جہاں مسلمان قرآن کریم کے قوانین کو عملی شکل دے کر ایک فلاحی ریاست قائم کرسکیں،کیونکہ یہ دین کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے قوانین کو عملی شکل دینے کے لئے ایک خطہ زمین موجود ہو،اسی لئے سب سے پہلے ریاست مدینہ قائم کی گئی اور بیسویں صدی میں پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا،تما م محترم قارئین کو یوم آزادی اور عید کی  خوشیاں بہت مبارک  ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply