کمراٹ۔۔۔۔توصیف ملک/قسط4

تھل کی کڑاھی :

تھل ہوٹل واپس پہنچنے پر سب ہی اپنے اپنے بستر پر ڈھیر ہو گئے ، ہلکی ہلکی بھوک بھی لگ رہی تھی ، کمرے میں جگہ کم تھی اور وضو کا بھی مسئلہ تھا اس لئے فوراً اٹھا اور مسجد چلا گیا ، سفر میں قصر نماز کا بھی اپنا مزہ ہے ، بندہ جلدی جلدی نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتا ہے۔
نماز پڑھ کے واپس آیا تو ایک مقامی بندہ ہمارے کمرے میں بیٹھا تھا ، یہ پولیس والا تھا اور ماموں کے دوست نے اس کو ہماری مدد کے لیے بھیجا تھا ، سب سے پہلے تو ہلکا پھلکا انٹرویو ہوا پھر اس نے ہمارے آج کے سفر ،ہوٹل کا کرایہ اور اگلے دن کا شیڈول پوچھا ، ہوٹل کے کرائے کے متعلق تو مطمئن ہو گیا لیکن کالا چشمہ بارے کہا کہ آپ کو اس سے آگے ایک اور جگہ ہے وہاں جانا چاہیے تھا ،وہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔
اب فقیر محمد صاحب ( پولیس والے ) نے مختلف جگہوں پر فون کرنا شروع کر دیا تاکہ ہمارا اگلے دن کا مکمل پلان بنایا جا سکے ، جب ھم نے بتایا کہ یہ ڈرائیور صاحب ( پرانے ) بھی کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کو جاز بانڈہ تک لے جاؤں گا تو فقیر محمد صاحب نے حیرانی اور کچھ سے غصے سے اس کو دیکھا لیکن خاموش رہے ،اتنی دیر میں وہ ڈرائیور لڑکا بھی کسی کام کا کہہ کر باہر چلا گیا تو فقیر صاحب نے کہا کہ یہ خود کو اور آپ کو خطرے میں ڈال رہا ہے ۔

، وہاں راستہ اونچا نیچا اور خراب ہے اور یہ گاڑی اگر چلی بھی گئی تو زیادہ سے زیادہ جندڑی تک جائے گی جہاں سے آپ کو دوبارہ ” ٹکی بانڈے ” تک دوسری گاڑی کروانی پڑے گی۔
(ٹکی بانڈہ گاڑیوں کا آخری سٹاپ ہے اس کے بعد جاز بانڈہ کا پیدل ٹریک شروع ہو جاتا ہے )
فقیر محمد صاحب بہت مستعد اور سوشل آدمی تھے ، سب تھل والے ان کو جانتے تھے اور عزت کرتے تھے ، فون وغیرہ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اٹھو آپ کو کھانا کھلاتا ہوں اور کل کی گاڑی کا اور جاز بانڈہ میں ہوٹل وغیرہ کا انتظام کروا دیتا ہوں۔
کھانے کا ان کو بہت شکریہ کے ساتھ منع کیا اور ان کے ساتھ گاڑی وغیرہ کے لئے چل پڑے ، دریا کا پل کراس کر کے وہ ہمیں طارق ہوٹل لے گئے جہاں کا مالک ان کا رشتہ دار تھا ، اس نے ہمارا استقبال کیا اور غور سے ساری بات سنی اور کہا کہ اگر آپ ادھر میرے ہوٹل آنا چاہتے ہیں تو آجائیں یہاں گرم پانی بھی موجود ہے اور پانی والی ٹینکی بھی لگی ہے لیکن ان کا بھی بہت شکریہ ادا کیا کہ ہم وہیں ٹھیک ہیں۔
یہاں گاڑیاں ہائر کرنا ایک فن ہے ، عام طور پر چھے سات ہزار روپے ٹکی بانڈے سے بھی نیچے ایک سٹاپ ہے ( اس کا نام بہت مشکل تھا بھول گیا ) وہاں تک لیتے ہیں اور پھر اوپر جانے کا دو ہزار الگ مانگتے ہیں۔
طارق صاحب نے ایک جیپ والے کو فون کر کے ٹکی بانڈے تک تیار کر لیا اور پینتالیس سو میں کرایہ طے ہوا جو کہ بہت مناسب تھا ، وہاں ہم آدھا گھنٹہ بیٹھے اور سب کے موبائل نمبر محفوظ کر لیے ، اس میں جاز بانڈہ کے ہوٹل والے کا نمبر بھی شامل تھا۔
فقیر محمد صاحب کے آنے سے ہمیں بہت حوصلہ ملا تھا ، اب کل کے سفر کے لئے ہم پُر جوش تھے اور بھوک بھی بڑھ چکی تھی ، فقیر صاحب نے کھانے کا بہت اصرار کیا لیکن ہم محبت سے انکار کرتے رہے اور اتنی دیر میں تھل کے اکثر ہوٹل بند ہو چکے تھے ، بازار سنسان ہو چکا تھا ، فقیر صاحب کو پل پر رخصت کر کے واپس ایک ہوٹل میں آ گئے ، مینیو پوچھا تو چکن کڑاھی ہی واحد چیز تھی جو مشورے میں طے ہو گئی ، سات سو میں پوری مرغی کی کڑاھی مل جاتی ہے لیکن یہ لوگ کڑاھی کے نام پر آدھے ٹماٹر اور آدھا گوشت بیچتے ہیں ، یہاں بھی میں کچن میں کھڑا ہو گیا اور پنجابی کڑاھی بارے بتانے لگا جس کو جوان شیف نے قبول تو کیا لیکن عمل نہ کیا۔۔
اور پھر ہم نے قورمے کی طرح کڑاھی کھائی۔۔

کھانے کے بعد ٹہلتے ہوئے ہوٹل پہنچے ، راستے میں ہر طرف سناٹا تھا ، دریا سے گزرتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ آج دریا بہت غصے میں ہے ، ہم کچھ دیر کے لئے دریا کے کنارے کھڑے ہو گئے اور بپھرے ہوئے دریا کو دیکھنے لگے ، رات کو پتا نہیں کیوں دریا کا پانی زیادہ اور تیز ہو جاتا ہے۔
ہوٹل پہنچنے پر پرانا ڈرائیور ہمارا انتظار کر رہا تھا ، اس نے ہم سے صبح بارے پوچھا تو ہم نے اسے بتا دیا کہ گاڑی کا انتظام ہو گیا ہے جس پر وہ تھوڑا مایوس ہوا۔
مشورے میں طے ہوا تھا کہ صبح جلدی اپنی منزل کی طرف نکلنا ہے ، اسی لئے سب جلدی سو جائیں ، تھکاوٹ کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی لیکن گرم رضائی بہترین ٹکور کر رہی تھی ، پھر باتوں باتوں میں کب نیند آئی پتا ہی نہیں چلا اور صبح آلارم پر آنکھ کھلی ، بہت مزیدار نیند آئی تھی اور اب میں اپنے آپ کو فریش محسوس کر رہا تھا ، ابھی سورج نہیں نکلا تھا ، ہلکا سا ملگجا اندھیرا تھا ، میں گرم چادر اوڑھ کر مسجد گیا ، مزے سے نماز پڑھی اور صبح کی تازہ ہوا سے لمبے لمبے سانس لے کر پھیپھڑوں کو تروتازہ کیا۔۔
واپسی پر سورج طلوع ہو چکا تھا ، تھوڑی دیر بازار میں واک کی اور واپس  ہوٹل آگیا جہاں جیپ والا ڈرائیور پہلے ہی انتظار کر رہا تھا۔
کمرے میں جا کر سب کو اٹھایا ، ماموں پہلے ہی جاگ رہے تھے ، ابھی ہم نے سامان سمیٹنا تھا اور بیگ پیک کر کے طارق ہوٹل پر رکھوانے تھے تاکہ آگے کم سے کم سامان لے کر جائیں
یہاں میرے کزن نے کہنا شروع کر دیا کہ بھائی مجھے یہیں چھوڑ دو میرے سے آگے کا خطرناک سفر نہیں ہو گا۔

ماموں کی واپسی :

آج جمعہ تھا اور جمعہ کو ضرور نہاتا ہوں ( ویسے الحمدللہ گرمی سردی روز لازمی نہاتا ہوں ) لیکن ایک تو ہوٹل میں پانی کی ٹینکی نہیں تھی دوسرا پانی حد سے زیادہ ٹھنڈا تھا لیکن مجھے چین نہیں آ رہا تھا
ماموں باقی لوگوں کو اٹھا رہے تھے تو میں باہر دریا کنارے آ گیا ، شیمپو اور فیس واش پکڑ لیا ،دریا میں ایک دفعہ ہاتھ ڈال کر مشاہدہ کیا ، دراصل اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کیا ، ہوٹل والے سے سر دھونے کے لئے برتن مانگا اور آپ جناب نے لوٹا تھما دیا
لوٹے میں پانی بھر کے پہلے ایک منٹ سوچتا رہا ،دریا کی لہروں کو دیکھتا رہا ، جب پہلا لوٹا سر پر ڈالا تو ایکدم سر سُن ہو گیا ، فٹا فٹ شیمپو وغیرہ سے دھو کر دوبارہ پانی ڈالا ، اس دفعہ قابل برداشت ہو چکا تھا ، سب فٹا فٹ تیار ہو رہے تھے ، میں نے بھی ایک چھوٹا شولڈر بیگ بنایا اور فالتو سامان ایک بڑے بیگ میں اکھٹا کر دیا ، یہ صرف ڈیڑھ دن کا سامان تھا۔
دِیر کے ناشتے والی روٹیاں ابھی بھی موجود تھیں ,ایک ریسٹورنٹ والے کو اسے گھی اور پانی میں گرم کرنے پر رضامند کیا ، کچھ رات کی ” کڑاھی ” بھی موجود تھی اور ساتھ چائے کا بھی آرڈر دے دیا ، ناشتے کے بعد بیگ طارق ہوٹل کے نیچے پرچون کی دوکان میں چھوڑے اور وہیں سے مرنڈا اور کوکا کولا کی بوتلیں اور کچھ بسکٹ ساتھ لے لئے ، گاڑی والا کافی دیر سے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔
بسم اللہ پڑھ کر سفر شروع کیا ، ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ والا سفر پہلے سب اسفار سے زیادہ خطرناک اور پر مشقت ہے ، میرا کزن جیپ کے شیشے والی سائیڈ پر بیٹھ گیا ، اب اس کا پھر سے وہی ” رولا ” شروع ہو گیا کہ خان صاحب دوسری طرف رکھ کر گاڑی چلاؤ ، ادھر کھائی بہت گہری ہے ، اور بار بار کبھی مجھے اور کبھی ماموں کو کہتا کہ مجھے ادھر کیوں لے کر آئے ہیں ، میں مری میں ٹھیک تھا۔
سفر میں ہم دریا کے ساتھ ساتھ ہی رہے ، راستہ کچا تھا اور واقعی صرف جیپ آسانی سے جا سکتی تھی ، کہیں کہیں برف پوش پہاڑ اور آبادی بھی نظر آ جاتی ، راستے میں مقامی لوگ کھانوں کے بڑے بڑے تھال اور چنگیر اٹھائے ایک ہی سمت میں جا رہے تھے ، ایک یا دو مرد دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر آگے جا رہے ہوتے اور عورتیں ان کے پیچھے پیچھے جا رہی ہوتی ، کچھ ٹولیوں میں صرف عورتیں اور کچھ میں صرف مرد شامل ہوتے ، میں نے تجسس سے ڈرائیور سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں ،اسے یا تو اردو سمجھ نہیں آئی یا پھر اس نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا ( شاید یہ لوگ عورتوں یا خاندانی روایات کے متعلق بات نہیں کرتے ) میں نے اجمل خان صاحب سے کہا کہ آپ پوچھیں ، ڈرائیور کوہستانی تھا لیکن یہ لوگ پشتو بھی سمجھتے ہیں ، خان صاحب کے استفسار پر صرف ایک جملہ کہا کہ یہ لوگ فوتیدگی پر جا رہے ہیں پھر اجمل خان صاحب نے بتایا کہ یہ لوگ کسی مرگ پر کھانا ساتھ لے کر جاتے ہیں تاکہ سوگ والے گھر پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔
گاڑی راستہ خراب ہونے کی وجہ سے آرام سے چل رہی تھی ،آخر ایک جگہ میدان میں گاڑی رک گئی ، یہاں سے ہمارا ڈرائیور تبدیل ہونا تھا ، ہم ٹکی بانڈہ سے بیس منٹ کی مسافت پر تھے اور یہاں جانے کے لیے ڈرائیور بھی خاص ہوتے ہیں ، عام ڈرائیور اگر چلا جائے تو اس جگہ سے خاص ڈرائیور کو گاڑی سونپ دیتا ہے اور گاڑی یہاں پر صرف فور ویل پر چلتی ہے ، گئیر والی جگہ کے پاس ایک چھوٹا سا مزید گئیر ٹول لگا ہوتا ہے جو فور ویل ڈرائیو کے لئے ہوتا ہے ، گاڑی کو پوری طاقت لگانا پڑتی ہے اور گاڑی پینتالیس ڈگری پر چلتی ہے۔

تھوڑی دیر میں ہم” ٹکی بانڈہ ” پہنچ گئے ، ڈرائیور کا نمبر بھی لے لیا ، یہاں کچھ خچر اور گھوڑے والے کھڑے تھے ، ایک بندے نے ہمارا سامان ایک جگہ رکھا اور اوپر جاز بانڈہ کے لئے خچر کی آفر کی جو کہ ہم نے پیار سے ٹھکرا دی ، وہ ہم سے سامان رکھنے کا ہزار روپیہ مانگ رہا تھا جب کہ سواری کے لئے پندرہ سو مانگ رہا تھا اور امید تھی کہ وہ بھی ہزار پر مان جاتا لیکن آپس میں مشورے سے اس کو بھی انکار کردیا جو کہ ہم نے بہت شدید غلطی کی۔۔
سب سے زیادہ مسئلہ میرے کزن کاتھا ، پہلے صرف اس کے لئے ایک گھوڑا لینے لگے تھے لیکن پھر اس نے کہا کہ میں یہ ٹریک کر لوں گا تو ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور کہا پھر چلو شروع کرتے ہیں
ہمارے ساتھ ایک اورٹولی بھی اوپر جا رہی تھی ، میں پر جوش تھا اتنے میں دو لڑکے اوپر ٹریک سے واپس آتے دکھائی دئیے ،میں سن گن لینے ان کے پاس گیا ، راستے کا پوچھا اور پوچھا کہ آپ جھیل سے آ رہے ہیں ؟

انہوں نے کہا کہ ہم صرف جاز بانڈہ تک کل گئے تھے ،ہمارے ساتھی ابھی اوپر ہی ہیں اور جھیل پر گئے ہیں ، ہماری ہمت نہیں ہوئی تو ہم واپس آ گئے ،
ٹکی بانڈہ میں ایک ہوٹل موجود تھا جبکہ دوسرا ابھی تعمیر ہو رہا تھا ، کچھ پرائیویٹ فور ویل ڈرائیو گاڑیاں بھی کھڑی تھیں جس کی پارکنگ کے پیسے بھی غالباً یہی ہوٹل والے ہی لیتے تھے۔
پیدل ٹریک شروع کرتے وقت یونیورسٹی کا ایک گروپ بھی ہمارے ساتھ ہو گیا ، یہ یونیورسٹی دیر میں موجود ہے ، ان کا ایک کیمرہ مین بھی ہمارے ساتھ ہو گیا ، لڑکے تو فٹا فٹ آگے نکل گئے جبکہ ہم تھوڑی سی چڑھائی چڑھ کر تھک گئے ،شدید سانس پھول گیا ، کیمرہ مین بھی تھک گیا کیونکہ وہ بھی شادی شدہ چالیس سال کا تھا ،اس نے ہمیں بہت حوصلہ دیا۔۔
دراصل پہلی چڑھائی بالکل عمودی پہاڑ کی چڑھائی تھی اور لا محالہ آکسیجن کی بھی کمی تھی اور سب سے اہم کہ ہم سب اس پیدل چلنے اور چڑھائی کے عادی نہیں تھے۔
میرے کزن کا حوصلہ ٹوٹنا شروع ہو گیا ، اس نے بار بار واپس جانے کا کہنا شروع کر دیا ، ایک دو دفعہ اس کو حوصلہ دیا کہ بھائی اتنی دور اور اتنے پیسے لگا کر آئے ہیں ،کاروبار چھوڑا ہے تو قریب آکر بھی مطلوبہ جگہ نہ جا سکیں تو کیا فائدہ ؟
ماموں کو شوگر بھی تھی اور کزن کا وزن زیادہ تھا ، میں بھی صرف اپنی ہمت پر چل رہا تھا ورنہ میرا بھی برا حال تھا۔۔
مجھے سب سے زیادہ مسئلہ سانس کا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی تو مجبوراً رکنا پڑتا تھا ، یہ پہاڑ ایک جنگل تھا جس میں چیڑھ اور دیودار کے بڑے بڑے درخت تھے ، اجمل خان صاحب بھی آگے نکل چکے تھے ، اوپر سے واپس آنے والے لوگوں سے راستے بارے پوچھتے تو وہ کہتے کہ یہی چڑھائی زیادہ ہے اس کے بعد زیادہ حصہ سیدھا ہے۔
تقریباً ایک یا سوا گھنٹے کے بعد گرتے پڑتے چلتے ہوئے ایک جگہ پتھر پر آرام کر رہے تھے ، ماموں اور کزن بہت پیچھے رہ گئے تھے ، اجمل خان صاحب پہلے آگے پہنچ کر میرا انتظار کرتے جب میں نظر آ جاتا تو پھر چلتے ، اتنے میں ماموں اور کزن بھی نظر آنا شروع ہو گئے بلکہ خان صاحب اوپر درختوں کی اوٹ میں چھپ گئے اور قریب آنے پر شیر کی ایسی آواز نکالی کہ دونوں کو ڈرا دیا۔۔
اب ماموں اور کزن کی بس ہو چکی تھی ، ماموں نے مجھے دور سے آواز دی اور کہا کہ نبیل ( کزن ) کی طبیعت بہت خراب ہے وہ واپس جانا چاہتا ہے ، اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا ہے اور چکر بھی آ رہے ہیں۔
میں اور اجمل خان صاحب واپس گئے تو ماموں نے کہا کہ میں بھی اس کے ساتھ واپس جاؤں گا کہ اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ، اس کی طبیعت خراب ہے ، میں نے کہا کہ نیچے سے گھوڑا منگوا لیتے ہیں اور نبیل کو واپس بھیج دیتے ہیں لیکن شاید انہوں نے کوئی پروگرام بنا لیا تھا۔

جاز بانڈہ کی وادی :

ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور یہاں پہاڑوں میں مشکل کے بعد کمال کے خوبصورت نظارے ہوتے ہیں۔۔
ماموں جی اور کزن واپسی کا طے کر چکے تھے ، ماموں کا دل پہلے ہی کالام میں اٹکا ہوا تھا کیونکہ ان کا جگری دوست کالام میں ان کا انتظار کر رہا تھا اور ہمارا مشترکہ پروگرام پہلے بھی یہی تھا کہ جھیل سے فارغ ہونے کے بعد اسی دن واپس آ کر کالام نکل جائیں گے۔
ماموں اور کزن کو ایک دو دفعہ حوصلہ دینے کے لیے کہا کہ قریب پہنچ چکے ہیں اور پھر اتنی دور پہنچ کر بھی یہیں سے واپس جانے کا کیا فائدہ ؟
لیکن نبیل کی طبیعت زیادہ خراب تھی تو پھر ہم نے بھی زور دینا زیادہ مناسب نہ سمجھا کہ ہم تو لاہور سے بھی صرف دو کا ہی پروگرام بنا کر نکلے تھے۔
مجھے صرف ایک دکھ تھا کہ میرا کزن بار بار مجھے اس کا مورد الزام ٹھہرا رہا تھا کہ مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ؟
ماموں کو بوجھل دل کے ساتھ رخصت کیا اور جب تک نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے ہم آگے نہیں بڑھے ، راستے میں بھی ایک اداسی رہی بلکہ میں بار بار پیچھے دیکھتا تھا کہ شاید ان کا ارادہ بدل جائے اور وہ لوگ شور ڈالتے ہوئے ہماری طرف واپس آ جائیں
لیکن وہ نہیں آئے !
بعد میں اوپر جا کر مجھے احساس ہوا کہ ان دونوں کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا ، یہ ٹریک ماموں یا کزن جیسے لوگوں کے لیے قطعاً نہیں ہے ، ماموں شوگر کے مریض ہیں جس کی وجہ سے تھکاوٹ زیادہ ہوتی ہے اور کزن کو شاید ہائیٹ فوبیا بھی تھا اور اتنی مشقت اس نے شاید ہی کبھی زندگی میں کی ہو ، اس کے متعلق میں  سفر سے واپسی پر سب سے پہلی پوسٹ میں تفصیل بتا چکا ہوں کہ یہ سفر چالیس پچاس سال سے زائد شخص یا ایسا شخص جو مشقت اور پیدل چلنے کا عادی نہ ہو ، ان کے لئے بالکل مناسب نہیں ہے ، فیملی کے ساتھ بھی بہت مشکل ہے
جب سے ٹریک شروع کیا تھا پانی ( دریا ) کی صرف آواز آ رہی تھی لیکن اپنی نظر نہیں آ رہا تھا اور پینے کے لئے بوتل میں موجود پانی بھی ختم ہو چکا تھا ، چڑھائی کی وجہ سے پسینہ بھی آرہا تھا اور ہلکی تھکاوٹ بھی محسوس ہو رہی تھی ، ماموں کو رخصت کرنے کے کچھ دیر بعد ایک چھوٹا سا چشمہ آ گیا ، جہاں سے پانی پیا ،بوتل کو بھرا اور منہ کو ٹھنڈے پانی سے دھویا جس نے تھکاوٹ کا احساس ختم کر دیا اور ایک نئی تازگی محسوس ہونے لگی ، پانچ منٹ چشمے پر بیٹھ کر دوبارہ سفر شروع کیا۔۔
اب میں آہستہ چل رہا تھا اور اب میری نظریں اپنی منزل کی طرف بار بار اٹھ رہی تھیں ، پہاڑوں کو دیکھ کر اندازہ لگاتا کہ شاید اس پہاڑ کے بعد یا دو پہاڑوں کے بعد یا اس میدان کے بعد منزل آ جائے گی
اجمل خان صاحب ہمیشہ آگے رہے لیکن کچھ دیر آنکھوں سے اوجھل ہونے کے بعد آگے کسی پتھر پر بیٹھے میرا انتظار کر رہے ہوتے ، ایک جگہ سے دونوں اکھٹے گزر رہے تھے کہ ایک مکان نظر آیا جو بالکل ٹریک کے ساتھ بنا ہوا تھا۔۔
یہ مکان دراصل عارضی ہوتے ہیں ، ان کے مکینوں کی اصل رہائش نیچے میدانوں یا نیچے والے پہاڑوں میں ہوتی ہے ، گرمیوں میں یہ لوگ مال مویشی لے کر اوپر آ جاتے ہیں ، ایک تو گرمیاں انجوائے کرتے ہیں دوسرا جانوروں کے لئے بہت خوراک میسر ہو جاتی ہے ، جانور ان پہاڑوں اور وادیوں سے خود ہی گھاس وغیرہ چر لیتے ہیں

میں ان لوگوں کی زندگی دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ ان لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کیا ہوتی ہو گی ؟
یہ سارا دن بغیر انٹرنیٹ ، بغیر بجلی کے کیسے گزارا کرتے ہوں گے لیکن پھر یہ سوچ آتی کہ یہ لوگ ہمارے متعلق بھی یہی سوچتے ہوں گے کہ یہ لوگ اتنی افراتفری والی زندگی کیسے گزار لیتے ہیں ؟
شاید ان کی سادہ زندگی ہم سے بہت اچھی ہے۔
اس مکان کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا چشمہ بہہ رہا تھا ، چشمے کے پاس سے گزرتے ہوئے کچھ بوتلیں نظر آئیں جن میں دودھ بھرا کوا لگ رہا تھا ، ابھی ہم گزر ہی رہے تھے کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا ہمارے قریب آیا اور مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا ، یہ ان مقامی لوگوں کی روایت ہے کہ ہر گزرنے والے کو سلام ضرور کرتے ہیں خاص طور پر بچے تو ضرور مصافحہ کرتے ہیں ، ہاتھ ملانے کے بعد ہم نے پوچھا کہ ان بوتلوں میں کیا ہے تو بچے نے کہا کہ دودھ اور لسی ہے (ان کو بوتلوں میں اسی لئے بھرا گیا تھا کہ اس کو فروخت کیا جا سکے)
ہم نے پوچھا کہ کتنے کی ہے تو اس نے کہا کہ دودھ کی پچاس کی اور لسی کی تیس کی ، ہم نے دونوں ایک ایک لے لیں ،بچے کو سو روپے دئیے تو فوراً پیسے دینے اندر بھاگا اور فوری واپس بھی آ گیا کہ پیسے کم ہیں، ہم حیران ہوئے لیکن اجمل خان صاحب نے پیسے واپس لینے کی بجائے اس کو مزید پچاس روپے دے دیے اور کہا کہ سب رکھ لو
تھوڑی دور جا کر ہم نے” لنچ بریک ” کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک بڑے سے درخت کے نیچے بیٹھ کر بسکٹ ،بوتل اور دودھ کیساتھ پیٹ کی آگ بجھائی ، وہاں بیٹھ کر عجیب سکون ہو رہا تھا ، خان صاحب ہر پڑاؤ پر سیلفی ضرور لیتے تھے اور میں تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا ، یہ تھکاوٹ جسمانی نہیں تھی مجھے سانس کا مسئلہ ہو رہا تھا ، تھوڑی سی بھی چڑھائی چڑھنے کے بعد میرا سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگتا اور دل تو ایسے لگتا کہ ابھی باہر آ جائے گا ، اس کی دھڑکن میں اپنے سر تک محسوس کرتا جس کی وجہ سے مجھے مجبوراً رکنا پڑتا اور اسی وجہ سے سفر بہت آہستہ آہستہ طے ہو رہا تھا ۔آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا کہ اگر ارادہ پختہ ہو تو پہاڑ سر کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے ، کئی ہم سے بعد میں آنے والی ٹولیاں ہم سے آگے نکل چکی تھیں ، دِیر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا پورا گروپ ایک ہفتے کے لئے آیا تھا اور اپنے ساتھ کھانے کی خام چیزیں بھی لائے تھے ، یہ غالباً چالیس لڑکے تھے اور اٹھکیلیاں کرتے ہمارے پاس سے گزر جاتے ، ہر گزرنے والا سلام ضرور کرتا اور ہم بھی ان کے ساتھ کچھ دیر کے لیے گھل مل جاتے اور ہنسی مزاح کرتے۔۔
آخر وہ آخری پہاڑ نظر آ گیا جہاں ہماری منزل تھی ، اب تھکاوٹ اپنے عروج پر تھی ، ہمیں ٹریک شروع کئے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے لیکن ان پانچ گھنٹوں کے بعد جو منظر نظر آیا تو اس نے دنیا وخرد سے بیگانہ کر دیا شاید کیمرہ آپ کو وہ چیز اور وہ احساس نہ دکھا سکے جس کا ہمیں تجربہ ہوا تھا ، پانچ گھنٹے کی مشقت اس جنت نظیر قطعے کے آگے کچھ بھی نہیں تھی۔۔
ہم ایک ایسے پتھر پر بیٹھ گئے جہاں سے پچھلا سفراور اس کے پہاڑ اور سامنے جاز بانڈہ کی وادی نظر آ رہی تھی
ہم مبہوت تھے کہ خیال آیا ، آج تو جمعہ ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply