جینیاتی تشخیص ۔ چھاتی کا کینسر ۔ جین (26)۔۔وہاراامباکر

“جاننے سے پہلے یہ فیصلہ کر لو کہ تم اس علم کا بوجھ اٹھا بھی پاوٗ گے یا نہیں”۔

پڑھنا اور لکھنا۔ میڈیکل میں جین کی سائنس کے یہ دو پہلو ہیں۔ جین کو پڑھ کر مستقبل میں ہونے والی بیماری کی پیشگوئی اور جین میں لکھ کر اس کو روک دینا۔

سری لنکا کی آشی ڈی سلوا اور پھر سنتھیا کٹشال وہ پہلے بچے تھے، جن کے ADA کے موذی مرض کے علاج کے لئے جین تھراپی کو آزمایا گیا تھا۔ جین میں ترمیم کر کے علاج کی یہ پہلی کوشش تھی۔ 17 ستمبر 1999 کو جب اٹھارہ سالہ گلسنگر کے جگر کے علاج کی کوشش کے چار روز ہو جانے والی موت کے بعد اور بعد میں اس تجربے میں کی گئی جلدبازی اور بداحتیاطی کی گئی تفصیلات سامنے آئیں۔ جین تھراپی کے خوبصورت طریقہ علاج کو بدصورت ٹرائل نے سردخانے میں پھنک دیا۔ لوگوں کے کیرئیر ختم کر دئے۔ دس برس تک اس شعبے میں خاموشی چھائی رہی۔

دوسری طرف پڑھنے کی سائنس میں پیشرفت تیزرفتار تھی۔ یہ “جینیاتی تشخیص” کا شعبہ تھا۔ماہرینِ جینیات اکیسویں صدی کے آغاز میں نت نئی دریافتیں کر رہے تھے۔ پیچیدہ ترین اور پرسرار ترین بیماریوں کے ذمہ دار ڈھونڈے جا رہے تھے، ان کے بھی جن کے لئے جین کو پہلے وجہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ دریافتیں طاقتور نئی ٹیکنالوجیز بنانا ممکن کر سکتی ہیں لیکن انہوں نے ان ماہرین کے سامنے تاریخ کے مشکل ترین میڈیکل اور اخلاقی مسائل بے نقاب کر دئے ہیں۔ جیسا کہ میڈیکل جینیٹسٹ ایرک ٹوپول کہتے ہیں۔ “جینیاتی ٹیسٹ اخلاقی ٹیسٹ بھی ہیں۔ جب آپ مستقبل کے رِسک کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ خود سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے مستقبل کے لئے کس قسم کا رسک لینے کو تیار ہوں؟”۔

معاملہ کیا ہے؟ اس کو تین مثالوں سے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھاتی کا کینسر کیوں ہوتا ہے؟ جب 1978 میں اس پر کینسر انسٹی ٹیوٹ نے سروے کروایا تو اس پر کوئی اتفاق نہیں تھا۔ کینسر کے ماہرین میں سے ایک گروپ کا خیال تھا کہ اس کی وجہ وائرس ہے، جو مانع حمل گولیوں کے زیادہ استعمال سے ٹرگر ہوتا ہے۔ کچھ اس کیلئے سٹریس اور خوراک کو ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ میری کلئیر کنگ اس پر ڈیٹا اکٹھا کرنے پر کام کر رہی تھیں۔ 1988 تک انہوں نے سینکڑوں خاندانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا تھا۔ جس کے تجزیے سے یہ نظر آ رہا تھا کہ اس کا تعلق جینیات سے ہے۔ لیکن کونسی جین سے؟ ریاضیاتی تکنینک استعمال کر کے کنگ اس تک پہنچ گئیں۔ 1988 میں کروموزوم 17 پر ایک جین کی شناخت ہو گئی۔ چھاتی کے کینسر کے تعلق کی وجہ سے اس کا نام BRCA1 رکھا گیا۔ اب اس کو الگ کرنا تھا۔ پولیمریز چین ری ایکشن کی نئی تکنیک کی وجہ سے اس جین کی کئی ملین کاپیاں ٹیسٹ ٹیوب میں تیار کر لی گئی۔ اس کی سٹڈی ہو سکتی تھی۔ 1994 میں مائیریاڈ جینیٹکس نامی کمپنی نے اس کو آئسولیٹ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس کا جینیاتی ٹیسٹ 1996 میں بن گیا۔ اس سے یہ شناخت ہو سکتی تھی کہ کیا ایک خاتون میں اس جین کا وہ ویری انٹ ہے جو چھاتی کے کینسر کا سبب بن سکتا ہے؟ ٹیسٹ سادہ تھا۔ ایک خاتون ایک کونسلر کے پاس جائیں گی۔ اگر ان کی فیملی ہسٹری دیکھ کر وہ اس ٹیسٹ کا تجویز کر دے تو ان کے منہ سے خلیے لے کر لیبارٹری میں بھیجے جائیں گے۔ لیبارٹری پولیمریز چین ری ایکشن کے ذریعے اس کی کاپیاں بنائے گی۔ اس کو سیکونس کر کے جین کا بتا دیا جائے گا۔ اس ٹیسٹ کا نتیجہ “نارمل”، “میوٹنٹ” یا “معلوم نہیں” کی صورت میں بتا دیا جائے گا (معلوم نہیں اس لئے کہ اس کے تمام میوٹنٹ کو کیٹگری میں تقسیم نہیں کیا جا سکا)۔

آسان؟۔ اب اگلا سوال۔ کرنا کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس خاتون میں یہ میوٹیشن ہو، اس کو پوری زندگی میں چھاتی کا کینسر ہونے کا امکان 70 سے 80 فیصد ہے۔ اس کو نامکمل penetrance کہا جاتا ہے۔ اور یہ اس بارے میں نہیں بتاتا کہ یہ کب ہو گا اور کیسا ہو گا۔ تیس سال کی عمر میں جارحانہ کینسر جس کا آپریشن نہ کیا جا سکے گا؟ پچاس سال کی عمر میں ایسا جو تھراپی سے ٹھیک ہو سکے گا؟ 75 سال کی عمر میں ایسا جو بس ہلکا ہلکا سلگتا رہے گا؟ یا پھر کبھی بھی نہیں؟

جس خاتون کو اس کا علم ہو گیا، اس کے خاندان میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اب اسے کس کو اس سے آگاہ کرنا چاہیے کہ وہ بھی اپنا ٹیسٹ کروا لیں؟ اپنی بہنوں کو؟ اپنی خالہ کو؟ اپنی سیکنڈ کزن کو؟

اگلا مسئلہ یہ کہ تھراپی کا انتخاب کیا ہو؟ سرجری کروا لی جائے جس کو کروانے کے بعد اس کے ہونے کا امکان بہت کم رہ جائے گا؟ انتظار کیا جائے؟ چھاتی کے کینسر کے ٹیسٹ باقاعدگی سے کروائے جائیں؟ ہارمونل دوا جیسا کہ ٹیموکسیفین استعمال کرنا شروع کر دی جائے جس سے کچھ طرح کے (تمام نہیں) چھاتی کے سرطان کا امکان کم ہو جاتا ہے؟

یہ ایسا کیوں ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی ایک وجہ اس جین کی بنیادی بائیولوجی ہے۔ BRCA1 جین کرتی کیا ہے؟ یہ ایک پروٹین کو کوڈ کرتی ہے جو ڈی این اے کی مرمت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک خلیے کے لئے ڈی این اے کے تار کا ٹوٹ جانا بڑی گڑبڑ ہے۔ یہ انفارمیشن ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے جو اس کے لئے بحران ہے۔ اگر ڈی این اے کو نقصان پہنچ جائے تو BRCA1 پروٹین کو بھرتی کیا جاتا ہے کہ وہ ٹوٹے کناروں کی مرمت کر دے۔ جن میں یہ جین نارمل ہوتی ہے، ان میں یہ پروٹین ایک چین ری ایکشن شروع کر دیتی ہے۔ درجنوں پروٹین کو منگوایا جاتا ہے کہ وہ اس ٹوٹ جانے والے حصے کو فٹافٹ جوڑ دیں۔ جن لوگوں میں یہ میوٹیشن والی حالت میں ہوتی ہے، اس میں یہ پروٹین ٹھیک طریقے سے فنکشن نہیں کرتی اور ٹوٹ جانے والے کنارے مرمت نہیں ہو پاتے۔ اس کی وجہ سے اگلی میوٹیشن ہو سکتی ہے۔ جیسے جلتی پر تیل ڈالا جائے۔ اور اگر نوبت اس بات کی آ جائے کہ خلیے میں بڑھنے کے ریگولیٹری اور میٹابولک کنٹرول ختم ہو جائیں تو نتیجہ چھاتی کے کینسر کی صورت میں نکلتا ہے۔ کینسر ہونے میں ایک نہیں، کئی ٹرگر درکار ہیں۔ ماحول کا کردار ہے۔ مثلاً، ایکسرے ۔۔ جو ایک ڈی این اے کو نقصان پہنچانے والا ایجنٹ ہے ۔۔ کا اضافہ کر دیں تو میویٹشن کا ریٹ بڑھ جائے گا۔ چانس کا کردار ہے کیونکہ میوٹیشن رینڈم ہے۔ دوسری جینز اس کی رفتار بدل سکتی ہیں، اثرات کم کر سکتی ہیں۔ وہ جینز جو مرمت میں حصہ لیتی ہیں یا BRCA1 کو سگنل دیتی ہیں۔

چھاتی کے کینسر کی جین ویری ایشن کی شناخت مستقبل کی پیشگوئی کرتی ہے لیکن یہ سسٹک فائبروسس یا ہنٹگٹن بیماری کی طرح کی نہیں جہاں پر ایک جین مستقبل کو طے کر دیتی ہے۔ اس میوٹیشن کے موجود ہونے کا علم اپنی حامل خاتون کا مستقبل بنیادی طور پر تبدیل کر دیتا ہے لیکن یہ غیریقینیت والا مستقبل ہے۔ کچھ خواتین کے لئے اس کی تشخیص ہو جانا، زندگی بدل دینے والا ایونٹ ہے۔ ان کی توانائی سلب کر دینے والا واقعہ۔ کیا وہ اس کے علم کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہیں گی؟ ایسی بیماری جو ابھی لاحق نہیں ہوئی، اس کے ساتھ سمجھوتہ کیسے کریں گی؟ پوری عمر سر پر لٹکتی تلوار کا سامنا کیسے کریں گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو یہ علم ہونے سے پہلے کرنے کے ہیں۔

“جینیاتی ٹیسٹ اخلاقی ٹیسٹ بھی ہیں۔ جب آپ مستقبل کے رِسک کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ خود سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے مستقبل کے لئے کس قسم کا رسک لینے کو تیار ہوں؟”۔ یہ مثال اس کا پہلا رخ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply