غزہ لہو لہان ۔۔۔غازی سہیل خان

گزشتہ ہفتہ عالم اسلام کے ایک اور مظلوم خطہ ارضی فلسطین کو صیہونی فوج نے بم اور بارود کے ذریعے لہو لہان کر دیا۔تازہ رپورٹس کے مطابق 14 اور 15 مئی کو غزہ میں امریکہ کے سفارت خانے کی منتقلی کے خلاف فلسطینیوں نے پر امن احتجاج کیا جس کے ردِ عمل میں صہیونی فوجیوں نے ایک بار پھر اپنا بھیانک اور مکرہ چہرہ  دکھا کر نہتے اور مظلوم عوام پر بندوقوں کے دہانے کھول دیے جس کے نتیجے میں 20 سے زائد احتجاجی شہید اورسینکڑوں زخمی ہو گئے اور زخمیوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو گئے ہیں۔

کئی ماہ قبل  امریکہ نے اپنا سفارت خانہ تل ایب سے یروشلم (بیت المقدس) منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک نے امریکی فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ (ایک مردہ ادارہ) اور نام نا اہل آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن(او آئی سی)نے بھی امریکہ کے اس فیصلے کوغلط قرار دیا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی امریکہ نے اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے ان تمام احتجاج اور مخالفوں سے نظر پوشی کرتے ہوئے گزشتہ ہفتہ اپنا سفارت خانہ تل ایب سے یروشلم منتقل کر دیا۔

آج سے قریب 70 سال قبل اہل کفر نے مل کر فلسطین پر ناجائز قبضہ جمایا۔لیکن ستر سال گزرنے کے باوجود بھی مظلوم فلسطینیوں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیابلکہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سر شار ہو کے یہودیوں کو للکارا۔ ماؤں نے اپنے معصوم بچوں کوسجا سنوار کر میدانِ کارزار میں اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے لئے اپنا سر کٹانے کے لئے تیار کیا۔ سفارت خانے کی منتقلی کے بعداسرائیل اور غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں آج ہر روز چالیس سے پچاس ہزار فلسطینی شامل ہوتے ہیں اور حفاظتی باڑ کے ساتھ کھڑے ہو کر اسرائیل پر پتھر پھنکتے ہیں ، جس کے جواب میں اسرائیل کی فوج براہ راست گولیاں مارتی ہے۔اس کے باوجود بھی قبلہ اول کی حفاظت کے لئے فلسطینی بہادری اور جرأت سے اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایسی بھی تصوریریں دیکھیں گئی جس میں ٹانگوں سے معذورایک جوان جو کہ چند سال پہلے صہیونی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنی ٹانگوں سے محروم ہو چُکا تھا، قبلہ اوّل کی حفاظت کی خاطر  وہیل  چیئر پر بیٹھ کر فوج پر پتھر پھینکتا تھا اور گزشتہ ہفتہ اپنے اس کام کو جاری رکھتے ہوئے اس معذور انسان کو بھی نہیں بخشا گیا اور براہ راست گولیوں کا نشانہ بنا کر اُسے شہید کر دیا گیا۔

عالم کفر کا کام تو ازل سے یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کی زمین اور وہاں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کیا جائے، مسلمانوں کومارا اور کاٹا جائے اوران کی زندگیاں اجیرن بنا دی جائیں۔یہ تو عالم کفر کا بنیادی کام ہے،غرض عالم کفر اسلام کو مٹانے کی خاطر یکجا ہے۔ عالم اسلام کو اس وقت ایک ہونے کی ضرورت تھی لیکن شومئی قسمت عالم اسلام کا شیرازہ بکھر چُکا ہے۔ مسلمان ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں جس کا فائدہ عالم کفر نے اُٹھایا ہے اور وہ(حضورؐ کی ایک حدیث کے عین مطابق) مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے کھانے پر۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں کوئی قائد یا لیڈر بیت المقدس کے لئے آگے آنے کی کی جُرات بھی کرتا ہے تو نام نہاد مسلم طاقتیں اور جماعتیں اس قائد کے خلاف چالیں چلتے ہیں،اس کو عوام کے سامنے بد ظن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ مسلکی اور جماعتی رنگ دے کر اس کو پیش کیا جاتا ہے۔جس کی مثال ہمارے سامنے ترکی کے رجب طیب اردگان کی ہے جو ایک واحد اسلامی لیڈر ہے جس نے امریکا سے اپنا سفیر اور سفارتی ٹیم کو واپس بلایا۔

مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس قائد کو بھی دنیا کے سامنے ایک دوسرے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے،جو کام نام نہاد اسلامی ممالک کے حکمران ہی سر انجام دیتے ہیں۔یہ وہی فلسطین ہے جس کو عمر بن خطاب نے فتح کیا تھا،جی ہاں یہ وہی پاک سر زمین ہے جس کو صلاح الدین ایوبی نے صہیونیوں سے آزاد کیا تھا۔آج مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیاددہ ہو گئی ہے۔57آزاد اسلامی ممالک اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ موجود ہیں، ایٹم بم بھی موجود ہیں، اس کے باوجود بھی بیت المقدس صہیونیوں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین کے مسلمانوں  کا قتل عام ایسے کر رہے ہیں جیسے  انہیں  زندگی جینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔۔

شرق و غرب کا کفر ایک ہو کر مسلمانوں کانام و نشان مٹانے کی ناکام و نا مراد کوششیں کر رہا ہے۔اس کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہو گا کہ اس وقت وائٹ ہاوس کے ترجمان بھی راج شاہ نام کے ایک بھارتی نثراد افسر ہی ہیں جنہوں نے حماس کو بھی نشانہ بنایا ہے۔صرف تینتیس سالہ راج شاہ اس وقت وائٹ ہاوس میں پرنسپل ڈپٹی سیکرٹری اور صدر ٹرمپ کے ڈپٹی اسسٹنٹ بھی ہیں،ان کا تعلق بھارت کی ریاست گجرات سے ہے۔

غرض عالم کفر میں مسلمانوں اور خاص طور پر بیت المقدس کو ہتھیانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں اور دوسری طرف دنیا کی بڑی طاقتوں کے علاوہ سعودی عرب کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان،جو اسرائیل کو اپنا دوست بھی قرار دے چکے ہیں، بھی امت مسلمہ کی طرف سے کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔حالانکہ وہ  40 اسلامی ممالک کی فوج بھی بنا چکے ہیں۔مگر بس فوج کو جس مقصد کے لئے بنایا تھا وہ مقصد ان کو اپنے مفادات پر بھاری لگتا ہے۔دوسری جانب مصر کے فرعون صفت صدر السیسی نے ترکی جہازوں کی اپنی  حدود میں سفر پر پابندی عائد کر دی ہے، وہ اس لئے کیوں کہ ترکی اپنے جہازوں کے ذریعے سے غزہ کے زخمیوں کا علاج و معالجہ کرتا تھا۔

یہ تمام صورت حال اس وقت امت مسلمہ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر ہم نے آج بھی اپنے اختلافات کو ختم نہیں کیا،تو وہ دن دور نہیں جب دنیا کی سامراجی طاقتیں ہمیں نگل لیں گی۔اس وقت سعودی عرب اور ایران کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور ایک ہو کر ترکی کا ساتھ دے کر غاصب اسرئیل کو للکاریں۔جو وہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ عالم کفر کے خلاف اپنی طاقت کو استعمال میں لاتے اور دنیا کے اسلامی ممالک کو اس وقت غیرت کا مظاہرہ کر کے اسرائیل اور امریکہ سے اپنے سفارت کار واپس بلا لینے چاہئیں اور ان درندوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔تب جا کر یہ درندے قابو میں آسکتے ہیں۔

ہمیں اقوام متحدہ سے  کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہیے وہ تو امریکہ اور اسرائیل کا ایک کٹھ پتلی ادارہ ہے، جو امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا کر مسلمانوں کا قتل عام کرانے میں اپنا بھر پور تعاون فراہم کر رہا ہے۔اگر او آئی سی چاہتی تو وہ اس معاملے میں مؤثر  کردار  ادا کر سکتی تھی مگر ابھی تک اس کا رول اُمت مسلمہ کے لئے مایوس کن ہی رہا ہے۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پرفلسطین اور قبلہ اوّل کے حوالے سے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں جن میں پاکستان،سعودی عرب،ایران اور ترکی کے نام  نمایاں  اور اہم ہیں ، کو چاہیے کہ یک جہت ہو کر اس صہیونی ریاست کے خلاف بھر پور جدوجہد کریں تب جا کر امریکہ اپنے مظالم کو بند کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ یروشلم سے واپس منتقل کرنے پر مجبور ہو جائے۔اگر ہم نے آج اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو وہ وقت قریب ہے جب ہمیں فلسطین کو دنیا کے نقشے میں ڈھونڈنا پڑے گا اگرچہ دعا ہے کہ ایسا کبھی نہ ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply