کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ دو دہائیاں پہلے بھی کم و بیش ایسا ہی تھا اور اس سے پہلے بھی شائد ۔کبھی کبھی لگتا ہے ہم ترقی معکوس کر رہے ہیں ۔معاملات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف گامزن ہیں ۔ سہولیات اور ٹیکنالوجی کی جدت نے تشخیص اور علاج معالجہ تک رسائی نسبتاََ آسان بنا دی ہے ۔ ہمارے معالجین جن میں بلاشبہ اکثریت اچھے لوگوں کی ہے جو مسیحائی پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہیں کچھ ایسے پیسے کے پجاری اور اپنے حلف سے روگردانی کرنے والے قصائی بھی موجود ہیں۔ کبھی تو دل کے اسٹنٹ ڈالنے کے بہانے پیسے بٹورتے ہیں اور کبھی کوئی غیر ضروری سرجری جس کے بغیر بھی مریض صحتیاب ہوسکتا ہے ۔غیر ضروری لیبارٹری ٹیسٹس اور ادویات لکھنے کے عوض کمیشن تو اب کوئی راز کی بات نہیں رہی ۔سب کے پاس سنانے کےلئے کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوگا ۔کوئی بروقت امداد نہ ملنے سے چل بستا ہے اور اگرکوئی اسپتال تک پہنچ جائے تو ڈاکٹرز جس طرح کا سلوک ان کے ساتھ روا رکھتےہیں اس کے بعد انسان یا تو ڈوب کےمرجانے کو اچھی چوائس سمجھتا ہے یا بیماری سے خدا کے پاس چلے جانے کو۔ اسپتال خواہ نجی ہو یا سرکاری یا وقف بورڈ کے زیر انتظام و انصرام ہو، ہر جگہ وہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ کردار ایک جیسے بس نام بدل جاتے ہیں۔ رؤف کلاسرا صاحب کے تازہ کالم نے ایک ایسا واقعہ شیئر کرنے پر مجبور کردیا ہے جس کا انجام المناک بھی ہوسکتا تھا ۔میں ایک اچھے اور ایک برے ڈاکٹر کی داستان سناؤں گا۔ساتھ ساتھ ایک فرشتہ صفت انسان کی عظمت کا احوال بھی لکھوں گا جس نے ایسا صائب مشورہ دیا کہ نہ صرف ایک قصائی ڈاکٹر کے ہاتھوں لٹنے سے بچ گئے بلکہ ایک غیر ضروری سرجری سے بھی نجات مل گئی۔
بیس برس ہوتے ہیں مارچ کے یہی دن تھے جب راقم ایم ایس سی کرنے کے بعد بیکاری اور بےروزگاری کے دن فرصت اور فراغت کے ساتھ کاٹ رہا تھا ۔کتابیں پڑھنا ،کرکٹ کھیلنا، تاش کی بازی جمانا اور دن میں کیبل پر مغربی فلموں اور سٹیج ڈراموں سے دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ہر نوکری کے اشتہار پر درخواست بھیجنا ہی اس کا مشغلہ ٹھہرا تھا ۔والد صاحب اس وقت سرکاری ملازمت میں تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ کرکٹ کے کھیل سے انہیں خاص رغبت تھی ۔ان دنوں شارجہ میں ٹرائنگولر سیریز جاری تھی اور میچز ڈے اینڈ نائٹ ہوتے تھے .ساؤتھ افریقہ کے ساتھ فائنل میں شاہد آفریدی نے خلاف توقع بہت اچھی بیٹنگ کی تھی اور پاکستان فائنل جیت گیا تھا ۔معمول یہ تھا کہ والد صاحب ،میں اور برادر خورد اکٹھے میچ دیکھتے اور رواں تبصروں اور تبروں کے ساتھ ساتھ جگتیں روایتی بذلہ سنجی کے ساتھ جاری وساری رہتیں ۔یوں فیملی ٹائم کے ساتھ ساتھ یہ ایک تفریحی اور یادگار وقت بن جایا کرتا تھا۔ والدہ میچ تو نہ دیکھتی تھیں مگر کمرے میں ان کی موجودگی بھی ہمیں اپنے ہنسی مذاق سے باز نہیں رکھتی تھی ۔
لگ بھگ رات ساڑھے گیارہ بجے میچ ختم ہوا تو میں اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔سرہانے رکھی کتاب پڑھتے پڑھتے نیند کی وادی میں اترتے تقریبا ساڑھے بارہ بج گئے ۔ آنکھ لگی ہی تھی کہ نیچے سے والدہ کی پریشانی سے بھری ہوئی آواز آئی کہ “دونوں بھائی جلدی سے نیچے آؤ۔ تمہارے ابو کے سر میں بہت شدید درد ہورہا ہے اور وہ کراہ رہے ہیں” ۔بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچا تو وہ سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے کہنے لگے لگتا ہے کہ دماغ کی کوئی شریان پھٹ گئی ہے ۔بائیں کنپٹی کے اوپر بہت شدید درد محسوس ہو رہا ہے۔بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض وہ کافی عرصہ سے تھے۔ میں نے جلدی سے بلڈپریشر چیک کیا تو وہ کافی ہائی تھا۔ ان کو بلڈ پریشر کی گولی کھلائی اور فورا گاڑی نکال کر الائیڈ ہاسپٹل کا رخ کیا جو گھر سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ابھی 1122 نام کی کوئی چیز معرض وجود میں نہیں آئی تھی ۔رات کا وقت تھا ٹریفک برائے نام تھی اس لئے گاڑی کو جتنی رفتار سے بھگا سکتا تھا بھگا رہا تھا ۔ جانتا تھا کہ ایسے کیسز میں وقت ہی سب سے اہم فیکٹر ہوتا ہے۔ والد صاحب چھوٹے بھائی کی گود میں سر رکھے پچھلی نشست پر دراز تھے ۔درد کی شدت سے نیم بے ہوش تھے اور زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے اور درد کی شدت ان کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی ۔ہسپتال پہنچا، ایمرجنسی میں ڈاکٹر کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ایمرجنسی میں نائٹ ڈیوٹی پرعموماََ جونیئر ڈاکٹر ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کے تجربہ کار۔ اس نے بلڈ پریشر چیک کرنے کے بعد زبان کے نیچے بلڈپریشر کم کرنے کا کیپسول دیا۔ والد صاحب اب بھی درد کی شدت سے بے حال ہوئے جارہے تھے۔ کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔موقع پر موجود ڈاکٹر نے شبہ ظاہر کیا کہ انہیں Sub arachnoid برین ہیمرج (گوگل سے تفصیل دیکھی جاسکتی ہے) لگ رہا ہے اور درد کی شدت سے جس طرح یہ بے چین ہیں، انہیں Sedate ( ـبے ہوش) کرنا پڑے گا ۔ اس میں رسک بھی ہے کہ کوما میں جانے کے بعد برین ہیمرج اگر شدید ہوا توریکوری طویل ہو سکتی ہے یا خدانخواستہ اس سے بھی برا نتیجہ نکل سکتا ہے۔کوئی اور چارہ نہ تھا بیہوش کرنے کے سوا۔سٹیبل ہونے کے بعد انہیں وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ صبح کو سینئر ڈاکٹر صاحبان راؤنڈ پر آئے تو انہوں نے والد صاحب کا چارٹ دیکھا اور بے ہوشی کے دوران ان کے پاؤں کے تلے کےنیچے اپنی کار کی چابی چبھوئی۔ والد صاحب کے چہرے پر ہلکی سی جنبش ہوئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مریض کوما میں نہیں ہے، جلد ہوش میں آجائے گا اور اس کے بعد ان کی (CT)سی ٹی سکین رپورٹ پر ہی اصل صورتحال کا پتہ چلے گا۔
18 گریڈ کے سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے انہیں پرائیویٹ روم کی سہولت دستیاب تھی ،مگر احباب نے مشورہ دیا کہ وارڈ میں نرسز اور ڈاکٹر راؤنڈ لگا کر چیک کرتے رہتے ہیں اس لیے وارڈ میں زیادہ بہتر رہے گا۔ روم میں پرائیویسی تو ہوگی مگر دیکھ بھال کرنے والے بلانے پر ہی آئیں گے ۔اللہ نے کرم کیا اور بعد از دوپہر والد صاحب کو ہوش آگیا۔ مسکن اور خواب اور ادویات کی وجہ سے وہ اپنے حواس میں نہیں تھے اور انہیں یاد نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا بیتا اور بہکی بہکی باتیں کر رہے تھے۔
دوسرے دن ان کا سی ٹی سکین کروایا گیا۔ رپورٹس ملیں تو نیوروسرجن کے ساتھ اپائنٹمنٹ طے پاگئی ۔نیوروسرجن اپنے شعبے کے سربراہ تھے اور میڈیکل کالج کے پروفیسر بھی اور ان کی شہرت بطور نیوروسرجن کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی کہ مریض کو سرجری کی ضرورت نہ بھی ہو تب بھی سرجری کردیتے ہیں ۔میرے بہنوئی جو اس وقت فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے وابستہ تھے انہوں نے کہا کہ کہ سرجن صاحب کو دکھانا تو پڑے گا مگر میں بتا دیتا ہوں کہ وہ رپورٹس دیکھتے ہی یوں سر ہلائیں گے کہ مریض کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں اور آپریشن کرنا پڑے گا۔ اگلے دن دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب نے ویسا ہی ڈرامہ کیا جیسا بہنوئی نے بیان کیا تھا۔زور زور سے سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ” آپریشن ہوگا اور میں اپنی مرضی کا نیورو فزیشن ساتھ رکھوں گا” ۔ان کو Minor برین ہیمرج ہوا ہے .آپریشن کے بعد یہ ان شاء اللہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔بہت پریشانی میں کمرے سے باہر نکلا ۔سرجری کے نام سے دل بیٹھ گیا۔یہ فقیر اس سے پہلے اپنی متاعِ عزیز 12 سال کی عمر میں میں اپنے نانا جان ان کی رحلت کی صورت میں لٹاچکا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی اور مہروں کی تکلیف کی وجہ سے وہ آخری ایام میں چلنے پھرنے سے عاجز تھے ۔سب کے منع کرنے کے باوجود اپریشن کر وانے کے لئے اس دور کے مشہور ترین سرجن کے پاس لاہور گئے اور آپریشن کی ناکامی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ تب سے سرجن اور سرجری کے نام سے ایک طرح کا نفور دل میں بیٹھ گیا تھا۔رپورٹ ہاتھ میں پکڑے والد صاحب کا اسٹریچر وارڈ بوائے کے ساتھ دھکیلتے وارڈ کی طرف واپس آ رہا تھا تو چہرے پر پریشانی اور والد صاحب کی حالت دیکھ کر راہداری میں کھڑاایک ایمبولینس ڈرائیور میری طرف متوجہ ہوا۔کہنے لگا “کیا کیا کہا ڈاکٹر صاحب نے؟” میں بولا “آپریشن کا بولتے ہیں۔” تو کہنے لگا کہ آپ اسی ہسپتال میں ریڈیالوجسٹ ____صاحب ہیں ان کو رپورٹس دکھائیں اور ان سے ایک دفعہ مشورہ کرلیں۔یہیں پاس ہی رہتے ہیں میں آپکو ان کے گھر لے چلتا ہوں ۔میرے دل میں شک پیدا ہوا کہ شائد یہ کچھ مال بنانے کے چکروں میں سب کررہا ہے کہ احسان مندی کی چھری سے انسان بخوشی ذبح ہونے کےلئے تیار ہوجاتا ہے ۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی شہتیر جیسا لگتا ہے اس لئے اس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ تعارف کروایا تو ڈاکٹر صاحب ابا جی کے دفتری ساتھی کے چھوٹے بھائی نکلے ۔انہوں نے آف ڈیوٹی شفقت فرمائی اور رپورٹس دیکھنے کے بعد کہا کہ معمولی اسٹروک ہوا ہے ،بچت ہوگئی ہے۔ آپریشن کی ضرورت میرے خیال سے تو نہیں ہے مگر اگر آپ انہیں کسی نیوروفزیشن کو دکھا کر سیکنڈ اوپینین لے لیں۔ ایک بیرون ملک سے آئے ہوئے نیورو فزیشن ڈاکٹر صاحب کا بتایا کہ ان سے جاکر مل لیں۔وہ پرائیویٹ پریکٹس کے ساتھ ساتھ ایک ٹرسٹ اسپتال میں بھی مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلا معاوضہ۔ واپس آتے ہوئے ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شائد پانچ سو اسے دینے کی کوشش کی جسے اس نے سختی سے مسترد کردیا۔کہنے لگا میں نے یہ پیسے کےلئے نہیں کیا۔ میں اس اسپتال میں گزشتہ پندرہ سال سے ایمبولینس پر مریض لاتا لے جاتا ہوں ۔کتنے لوگوں کو پیروں پر چل کر آتے اور اسٹریچر پر میت کی شکل میں جاتے دیکھ چکا ہوں۔آپ کے والد اور آپ کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر رہا نہیں گیا اور جو میں مدد کرسکتا تھا وہی کیا ۔ اس عظیم انسان کا یہ احسان میں ساری زندگی نہ بھلا سکوں گا۔ میری زندگی میں ہمیشہ قابل احترام اورمیرا رول ماڈل رہا ۔دل سے آج بھی اس کے لئے کےلئے دعائیں نکلتی ہیں پتہ نہیں موجود ہے یا اپنے خالق کے حضور پیش ہوگیا۔وللہ اعلم.
نیورو فزیشن صاحب کے پاس لے کر گیا ۔انہوں نےرپورٹس اور ٹیسٹ رزلٹ دیکھنے کے بعد یہی کہا کہ آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ والد صاحب کو اپنے اسپتال میں داخل کرلیں تو وہ شریف النفس انسان بولا کہ ان کو وہیں رہنے دں اور مجھ سے چیک اپ کرواتے رہیں۔والد صاحب نے سرکاری ہسپتال جانے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنے ہسپتال میں داخلہ دے دیا ۔دو ہفتے ڈاکٹر صاحب کی زیرنگرانی ٹریٹمنٹ کے بعد بحمدللہ والد صاحب گھر پر اپنے بستر پر محو آرام تھے۔اس واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے والد صاحب کو اٹھارہ سال مزید اس دارالعمل میں ہنسی خوشی اپنے بیوی بچوں،اور پوتے پوتیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مشورے یا ادویات کے سلسلے میں رہنمائی کی ضرورت پڑتی تو ان کی اولین ترجیح وہی نیورو فزیشن ہوا کرتے تھے۔بے شمار لوگوں کو ان کے پاس ریفر کیا ۔عطر جیسے لوگوں کی خوشبو چہار سو خودبخود پھیلتی ہے ۔ ان کی مصروفیت کا بعد میں یہ عالم ہوگیا کہ مہینوں آپ کو اپائنٹمنٹ کا انتظار کرنا پڑتا تھا مگر وہ ہر مریض کو اسی توجہ اور اخلاص سے دیکھا کرتے تھے ۔اللہ نے ان کے دل میں انسانیت سے پیار اور جذبہ خدمت خلق ڈال دیئے تھے اور شفاءالناس بنا دیا تھا۔
اپنے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر دوست سے کچھ معلومات لی ہیں۔ اس کی روشنی میں پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں عموماََ پرائمری کا کوئی کیس ڈیل نہیں ہوتا۔پرائمری کیس سے مراد یہ ہے کہ کوئی مریض آپ کے پاس آیا اور آپ نے فوراََ اینجیوگرافی یا اینجیوپلاسٹی کردی۔دل کا مریض بھی سرکاری اسپتال میں اللہ کے آسرے ہوتا ہے ،ہاں جان بچانے والی ادویات سے علاج فوری طور پر شروع کر دیا جاتا ہے ۔پرائیویٹ اسپتال کا عملہ اور ڈاکٹر مرضی کا بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کا دل جو کرے وہی ہوتا ہے۔ مریض کے لواحقین اگر بروقت مریض کو کسی اچھے ڈاکٹر تک لے جائیں تو جان بچ جاتی ہے ورنہ اللہ ہی مالک ہے۔ سی پی آر (CPR)کی ٹریننگ ہر عاقل و بالغ کو ضرور لینی چاہئے۔ اگر ایک انسان کی جان بھی اس سے بچا دی توگویا آپ نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔
Facebook Comments