نظامِ ظلم !

نظامِ ظلم !
سہیل خان
کہتے ہیں کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ بحیثیتِ قوم ہم میں سے جو جو جہاں جہاں عموماً چند کاغذ کی خاطر جہاں ڈنڈی مار سکتا ہے مار رہا ہوتا ہے. یہاں تک کے دین کے بھی انہی احکامات پر بہت زور ہوتا ہے جو ہمارے مطلب کے ہوں اور جن میں دکھاوے کا پہلو بھی ضرور ہو۔ میں کئی ایسی مثالیں گنوا سکتا ہوں جو اسلام میں تاکید کے ساتھ ہیں مگر افسوس ہمارے معاشرے میں مکمل نظر انداز ہیں کیوں ؟
چند سکوں اور معمولی فائدے کی خاطر ہم حلال حرام کا فرق تک بھول جاتے ہیں ۔ جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور عنقریب ہم خدا تعالی ٰکے حضور پیش کیے جانے والے ہیں اور جہاں پورا پورا حساب دینا ہے مگر پھر بھی ہر ممکن حد تک صحیح اور غلط کی واضح معلومات ہونے کے باوجود خدا کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں کیوں ؟ دراصل ہم اپنے ساتھ ہی ظلم کر رہے ہوتے ہیں اورجانتے بوجھتے ظالموں کی فہرست میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ حکمران ہی ظالم ہیں ۔معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی ظالم ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہوئے بھی ووٹ کے ذریعے بار بار آزمائے ہوئے کو آزماتے ہیں ۔ آنکھ بند کر کےپارٹی، قوم ، زبان اور برادری کے نام پر ایسے لوگوں کو چنتے ہیں جنہیں شاید کبھی ہم نے دیکھا بھی نہیں نتیجتا ً خدا ہمارے اوپر ہم سے بھی بڑے ظالم حکمران مقرر کر دیتا ہے۔ ذرا سوچئے جب ایک ظالم حاکم ہماری ووٹ کے ذریعہ کی گئ تائید کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی طاقت کا غلط استعمال کرتا ہے تو کیا اسکےایسےعمل کا گناہ ھمارے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا ؟ بلکل لکھا جائے گا اور ضرور لکھا جانا چاہئے یاد رکھیئے غلطی ایک بار ہوتی ہے بار بار نہیں۔
کہیں پڑھا تھا کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے ایک جانور بھی اپنا پیٹ بھرنے کے بعد شکار نہیں کرتا مگر ہم یہ جانتے ہوے بھی کہ خالی ہاتھ جانا ہے خدا کے حضور پیش ہونا ہے اور وہاں سوائےاپنے نیک اعمال کے اور کوئی چیز کام نہیں آنے والی مگر ہم جائز ناجائز مال و جائیداد جمع کرنے کی ہوس میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔
یاد رکھئے ہم اس فانی دنیا میں بہت تھوڑی دیر کے لیے آئے ہیں نہ جانے کس گھڑی زندگی کی شام ہو جائے۔
اور ہمیں عنقریب ہر صورت خدا تعالی ٰکے حضور اپنےہرعمل کا حساب دینا ہے۔ خدارا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں، انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، حلال حرام کا خیال رکھیں ، زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں اور نیکیاں پھلائیں کہ اصل دولت تو یہی کام آیئگی اور جب ہم انفرادی طور پر یہ سب کریں گے تو ہمیں خدا کی مدد ضرور حاصل ہوگی۔ یاد رکھئے جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی حکمران مسلط کئے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

سہیل خان
میں پیشہ ور مصنف نہیں ہوں. امید ہے کہ آپ میری تحریر پسند آئے گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply