انسان کا خاتمہ؟(3،آخری حصّہ)۔۔ادریس آزاد

ٹرانس ہیومن ازم کے فوائد میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا فائدہ ہے ’’لمبی عمر‘‘۔ ٹرانس ہیومینز لمبی عمروں کے مالک ہونگے۔ ڈاکٹرآبرے ڈگرے Dr. Aubrey De Grey کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت پچاس سال کے ہیں ، ان میں بیشترلوگ اب ایک ہزار سال تک نہیں مرینگے۔ ڈاکٹر آبرے آنے والے ٹرانس جینک انقلاب کی وجہ سے ایسا کہہ رہا ہے۔ لیکن ٹرانس ہیومنز صرف لمبی عمروں کی وجہ سے ہی منفرد نہیں ہونگے۔ کیونکہ لمبی عمر ہونا کوئی زیادہ بڑا فائدہ یا زیادہ دلچسپ بات نہیں ہے۔ بعض لوگ تو لمبی عمر کو ایک عذاب خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ایک ہزار سال تک اس دنیا کی مشکلات کا سامنا کرنا فائدے کی بات نہیں بلکہ مصیبت ہے۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کا بھی پورا دھیان رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ صرف لمبی زندگی ہی نہ ہوگی بلکہ یہ ایک خوشحال زندگی بھی ہوگی۔ یہ زیادہ صحت مند زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ ذہین زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ باشعور زندگی ہوگی۔ مثلاً نیورو سائنسز کے ذریعے ہم اب بہت سی نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ ہم اب جانتے ہیں کہ دماغ کے وہ کون سے حصے ہیں جہاں ’’ڈپریشن‘‘، ’’یوفوریا‘‘ اور ’’اینگزائٹی‘‘ کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے۔ ایک ٹرانس ہیومن کے ایسے حصوں کو جینٹکلی ڈیولپ کردیا جائے گا تاکہ وہ کبھی ڈپریس نہ ہوں۔ کبھی پریشانی اور فکر مندی کا شکار نہ ہوں۔ وہ ہزاروں سال جئیں گے لیکن ہمیشہ خوش رہینگے۔ شعوری صلاحیتوں میں بھی ایک ٹرانس ہیومین لاجواب ہوگا۔ ایک طرف تو اس کی منطقی قابلیت سقراط اور ارسطو جتنی ہوگی اور دوسری طرف اس کی سائنٹفک تفہیم کی سطح آئن سٹائن جتنی ہوگی۔ ٹرانس ہیومینز کے دماغ کمپیوٹرز کے ساتھ جڑنے اور الگ ہونے کی صلاحیتوں کے مالک ہونگے۔ وہ براہِ راست اپنے دماغ سے کمپیوٹر میں چیزیں اپ لوڈ ڈاؤن لوڈ کرسکینگے۔
اس کے ساتھ ساتھ ذہن اور دماغ کے علاوہ جسمانی فوائد کے اعتبار سے ہم انسان بہتر سے بہتر شکل و صورت اور صلاحیتیں حاصل کرلینگے۔ خاص طور پر جسمانی طاقت۔ مثلاً آج ایک ساٹھ سال کا شخص اگر سو قدم دوڑے تو اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے لیکن ایک عام ٹرانس ہیومین ایک سو پچاس (150)سال کی عمر میں اتنا طاقتور ہوگا کہ اولمپک ریس کے مقابلے میں حصہ لے، اور جیت سکے۔
سب سے الگ اور سب سے منفرد فائدہ جو سائنسدانوں کو نظر آرہا ہے وہ ہے ’’پوسٹ جینڈرزم‘‘ ۔ پوسٹ جینڈرزم بنیادی طور پر فیمنسٹوں نے متعارف کروایا ہے۔ خاص طور پر فیمنسٹس کا یہ خیال کہ ہمیشہ عورتیں ہی کیوں پریگنینٹ ہوتی ہیں۔ مرد کیوں پریگنینٹ نہیں ہوتے؟ فیمنسٹ تحریکوں کی طرف سے ایسے عجیب و غریب بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں کہ سائنس کو مردوں میں اووریز کا اضافہ کرنے کی طرف عملی طور پر غور کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں عورت اس عذاب کی اکیلی شکار نہ ہو بلکہ اگر بچہ مرد کے پیٹ سے پیدا کرنا طے پائے تو پھر مرد بھی بچہ پیدا کرسکے۔ اسی نظریہ کو لے کر بعض ٹرانس ہیومینسٹس یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بہترین عورت اور بہترین مرد کے ملاپ سے ایسا بہترین ٹرانس ہیومین پیدا کیا جاسکتاہے جس میں مردوزن کی عدم مساوات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دونوں کی مشترکہ صلاحیتیوں سے انسانیت کے لیے مشترکہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسا ٹرانس ہیومین دونوں ہوگا۔ یعنی عورت بھی اور مرد بھی۔ دوسرے ٹرانس ہیومینز انسان کے پیٹ سے بچے کے پیدا ہونے کے سرے سے مخالف ہیں ۔ وہ مردوزن کو نوماہ بچے کا بوجھ اُٹھانے سے بھی آزاد کرنے کے حق میں ہیں۔ ایک، دو، تین یا زیادہ انسانوں کے مشترکہ ڈی این اے سے بھی ایک بچہ پیدا کیا جاسکتاہے۔ جس میں سب کے ڈی این اے کی خصوصیات ڈالی جاسکتی ہیں۔ ٹرانس ہیومنسٹس کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں دو لوگوں کی بجائے چار لوگوں یا بیس لوگوں کے درمیان شادی کے معاہدے طے پائے جانے کے امکانات بھی واضح ہیں جو کسی ایک بچے میں اپنی مختلف خصوصیات منتقل کرنے پر رضامندہونگے اور وہ سب اس بچے کے والدین شمار کیے جائینگے۔ اس طرح کے ڈیزائن کا پہلا کامیاب تجربہ اِسی سال برطانیہ میں انجام دیا جاچکاہے۔ جس میں ایک بچے کے تین والدین ہیں اور تینوں نے اس بچے میں اپنے حصے کا ڈین این اے شیئر کیا ہے۔ یہ پہلا انسان نہیں ہے جو جینٹکلی انجنئرڈ ہے۔
http://www.dailymail.co.uk/…/Designer-baby-parents-heredita…
ٹرانس ہیومنسٹس کا کہنا ہے کہ عورت کے پیٹ کی بجائے بچے کو مصنوعی انڈے یا مصنوعی اووری میں نشوونما دی جاسکے گی اور عورتوں کو بچہ پیدا کرنے کے لیے نو ماہ تک اس کا بوجھ نہیں اُٹھانا پڑیگا۔ یہاں ایک سائیکالوجسٹ سوال کرسکتاہے کہ ایک بچہ جو نوماہ ماں کے پیٹ میں رہتاہے وہ ماں کے ساتھ ایک خاص رشتے میں جڑا ہوتاہے۔ ایک بچہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا وہ اپنی ماں کی آواز کو پہچان سکتاہے۔ لیکن اس سوال کا جواب ’’پوسٹ جینڈرسٹس‘‘ یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں رہنے سے بچہ جن جن قدرتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے وہ صلاحیتیں مصنوعی انڈے میں پیدا ہونے والے بچے کے اندر بھی ہوبہُو موجود ہونگی۔بچے کی پیدائش کے فیصلے کے ساتھ ہی اس کے والدین کے جینز کے وہی اجزأ لیے جائینگے جو والدین چاہینگے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ بچہ فطری طور پراپنی ماں کو پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہو تو مصنوعی انڈے میں پرورش پانے والا بچہ بھی اپنی ہی ماں کی آواز کو پہچاننے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب بچے کی پیدائش کے لیے نو ماہ کا عرصہ بھی ضروری نہ ہوگا۔ بچہ اس سے کہیں کم عرصہ میں مکمل ہوجائیگا اور جونہی ماں باپ اسے لینے ہسپتال جائینگے اور مصنوعی انڈے کا سوئچ آف کیا جائیگا تو بچہ پیدا ہوجائیگا اور وہ بالکل ویسے ہی پیدا ہوگا جیسے اپنی ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
ٹرانس ہیومن ازم ۔۔۔۔۔۔ کلوننگ سے کہیں آگے کی بات ہے۔ یہ صرف کلوننگ کے ذریعے بچے پیدا کرنے کا پروگرام نہیں ہے۔ کلوننگ اس کے مقابلے میں کلاسیکی عہد کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ ٹرانس ہیومن ازم انسان اور جانوروں کے ملاپ سے نئے انسان کی پیدائش کی بات کرتاہے۔
ایک اور بڑا فائدہ جو ٹرانس ہیومنسٹس سوچ رہے ہیں وہ مجھے اپنی ماہیت میں سب سے زیادہ اہم محسوس ہوا۔ یہ لگ بھگ سپر نیچرل صلاحیتوں کے حصول کی بات جابنتی ہے۔ اس بات کا ذکر میں اسی مضمون میں پہلے بھی کرچکا ہوں۔ اس نظریہ کا بانی ڈاکٹر نک باسٹرام ہے۔ اس کا تھیسز ’’ٹرانس ہیومنز ویلیوز‘‘ کے موضوع پر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر باسٹرام نے اپنا یہ تھیسز اپنی ویب سائیٹ پر رکھ چھوڑا ہے۔
http://www.nickbostrom.com/
ڈٓاکٹر باسٹرام اس وقت دنیا کے ہر بڑے ملک کی یونیورسٹیز میں اسی موضوع پر لیکچرز دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل کی زبان قطعاً مذہبی نہیں رکھی لیکن انہوں نے ایک چارٹ کے ذریعے قوت متصورہ (پرسیپشنز) کی تمام اشکال کی وضاحت کردی ہے۔ جن میں انسان ، پوسٹ ہیومینز، ٹرانس ہیومینز اور حیوانات ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے لیے الگ الگ ڈومینز مقرر کرکے نہایت منطقی قضیات قائم کیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انسان اور فوق البشر کا امکان جینٹک انجنئرنگ کے ذریعے بہت قوی ہے۔
اس نے ڈالفن، کتوں اور چمگادڑوں کے ڈی این اے کے انسانوں کے ساتھ ملاپ کی صورت میں حیران کن نتائج کا اعلان کیا ہے۔ ہاتھیوں کے جینزکے ذریعے انسانوں میں ارتعاش کو پہچاننے کی صلاحیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جانوروں کو زلزلوں سے پہلے معلوم ہوجاتاہے کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ جانور کیسے جان جاتے ہیں کہ کوئی قدرتی آفت آنے والی ہے۔ انسان کا حق ہے کہ اس کے پاس بھی یہ جینز ہوں اور وہ بھی وقت سے پہلے زلزلوں اور طوفانوں سے باخبر ہوسکے۔ بعض جانور اپنی ہی بیماریوں سے پیش از وقت آگاہ ہوجاتے ہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ وہ ایک نہایت ہی دلچسپ اضافہ کرتاہے۔ ڈاکٹر باسٹرام کہتاہے کہ جانور روشنی کے سپیکٹرم کی دیگر شعاعوں کی مدد سے مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً چیتا رات کی تاریکی میں دیکھ سکتاہے۔ یہی نہیں بعض اوقات جانور کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جسے ہم نہیں دیکھ سکتے ۔ باسٹرام کوئی مذہبی قضیہ قائم کیے بغیر کہتاہے کہ ممکن ہے وہ اس وقت لائیٹ کے سپیکٹرم یا الیکٹرومیگانیٹک ویوز کے سپیکٹرم کی کسی اور شعاع کی مدد سے کسی شئے کو دیکھ رہے ہوں جو ہمیں دکھائی نہ دیتی ہو۔ باسٹرام کا خیال ہے کہ ہم ٹرانس ہیومینز بن کر ایسی پراسرار دنیا کو خود دیکھنے کے اہل ہوجائینگے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض جانور سپر نیچرل چیزوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ جن میں اُلّو اور بلّی کا خاص طور پر نام لیا جاتاہے۔ اگر ایسے جانوروں کے جینز انسان کے جینز کے ساتھ ملا کر ٹرانس ہیومنز پیدا کیے جائیں تو وہ شاید فرشتوں، جنات، بھوت پریت یا خدا کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت کے قدرتی طور پر مالک ہونگے۔
انٹرنیٹ پر مطالعہ کرنے والے قارئین کی دلچسپی کے لیے John Templeton Foundation کی ویب سائیٹ پرموجود ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کے سابقہ کئی سالوں کے لیکچرز کا سلسلہ بہت مفید ہوسکتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Home


ان میں خاص طور پر ایک لیکچر ’’ٹرانس ہیومنزم اینڈ دہ فیوچر آف ڈیماکریسی‘‘ دیکھنے کے قابل ہے۔ اس لیکچر میں بھی وہی سوال جو ڈاکٹر باسٹرام نے ہر جگہ اُٹھایا نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کے طلبہ بھی یہی پوچھ رہے ہیں کہ ٹرانس ہیومینز کی پیدائش کے بعد اب ہماری انسانیت کہاں سے شروع ہوگی؟ اور کہاں ختم ہوگی؟ اور یہ سوال بھی کہ جب ہم موجودہ انسان کو ڈائریکٹڈ ارتقأ کے ذریعے ’’ہیومن ورژن 2.0‘‘ میں تبدیل کردینگے تو کیا ہماری رُوح بھی تبدیل ہوجائے گی؟ یہی سلسلہ سوالات جاری تھا کہ ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی نے ایک بالکل نیا پراجیکٹ شروع کردیا۔ اگر آپ ابھی ایرے زونا سٹیٹ یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر جائیں تو آپ خود اس پراجیکٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کا نام ہے ’’صوفیہ پراجیکٹ‘‘ Sophia Project ۔ صوفیہ بھی ایھتنا کی طرح دانائی کی دیوی ہے۔ صوفیہ پراجیکٹ کے بارے میں نہایت تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ یہ کیا ہے۔ اس پراجیکٹ کا مقصد ہے ایسے ٹرانس ہیومینز پیدا کرنا جو سپر نیچرل ہستیوں کے ساتھ بات کرسکیں۔ انہوں نے اپنے پراجیکٹ کے مقاصد میں باقاعدہ درج کیا ہے،
۱۔ بھوت پریت سے بات کرنا
۲۔ ایلیئنز کے ساتھ بات کرنا
۳۔ فرشتوں کے ساتھ بات کرنا
۴۔ جنات اور روحوں کے ساتھ بات کرنا
۵۔ کائناتی شعور کے ساتھ بات کرنا یعنی خدا کے ساتھ
انہوں نے اپنے پراجیکٹ کا اصل مقصد ہی یہی بیان کیا ہے اور یہ پراجیکٹ امریکہ جیسے ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اس وقت جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply