• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازہی رہیں گے۔۔شہزاد سلیم عباسی

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازہی رہیں گے۔۔شہزاد سلیم عباسی

17 جولائی کے ضمنی انتخابات نے مسلم لیگ ن کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھاری مینڈیٹ سے حکومت کو دھچکا لگایا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے حالیہ ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں، مسلم لیگ (ن) نے 4 نشستیں جب کہ ایک آزاد امید وار بھی کامیابی سے ہمکنار ہو ا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی 20 جیتی ہوئی سیٹوں میں سے مسلم لیگ (ن) 4 سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تاہم یہ بات بھی قرین  قیاس ہے کہ پنجاب میں جس کی حکومت ہوتی ہے وہی وفاق میں حکومت بناتا ہے۔ اور پنجاب تو عشروں سے مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ عمران خان کی 2013 کے بعد کی سیاست نے پنجاب میں پی ایم ایل این کے ووٹ بینک کو متاثر کیا ہے۔ تمام تر تجزیے اور قرینے یہی بتا رہے تھے کہ چار بڑی وجوہات کی بنا پر پی ایم ایل این اپنے 13 سے زائد ممبران کو کامیاب کرا لے گی۔

پہلی اور بڑی وجہ یہ تھی کہ پنجاب میں چونکہ وزیر اعلیٰ  حمزہ شہباز ہیں توباآسانی بڑی تعداد میں نشستیں نکالی جائیں گی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ حکومت وقت ہی کامیاب ہوتی ہے۔ تیسری وجہ یہ سمجھی جارہی تھی کہ چونکہ مسلم لیگ (ن) نے کچھ سیٹوں پر پی ایم ایل این سے وابستگی رکھنے والے امیدواران کی بجائے جہانگیر خان ترین اور علیم خان کے حمایت یافتہ افراد کو ٹکٹ دیے تھے، تو ان دونوں کی حمایت کیساتھ ساتھ ن لیگ کا بھی سکہ چلے گا تو کامیابی یقینی ہو گی۔اور چوتھی وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان کے حالیہ بیانیہ نے جس طرح سے تقویت حاصل کی تھی، اس پر چند دن پہلے عدالت نے بھی اپنا فیصلہ دیا تھا کہ امریکی سازش یا رجیم چینج ہونے کے ثبوت نہیں ملے۔ اس پر بھی پی ایم این خوش تھی کہ عمران خان کے بیانیہ کوعدالت نے یکسر مستر د کر دیا ہے۔ مگر پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو اپنے آنگن بچانے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سازشی تھیوری اور رجیم چینج کی کامیاب گردان کی جو ہنوز جاری ہے۔ وہ الگ بات کہ امریکہ، اسٹیبلشمنٹ، ادارہ برائے قومی سلامتی اور پھر آخر میں عدالت عالیہ نے بھی مہر لگا کر یہ بات ثبت کر دی کہ عمران خان کا کرسی دوبارہ لینے کے واسطے پیدا کیا گیا یہ بیانیہ صرف اور صرف غلط بیانی پر  مبنی ہے۔ بہرحال عمران خان ایک بڑی تعداد میں ووٹر کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ حالیہ انتخابات میں عمران خان سمیت تحریک انصا ف کے تقریباً سبھی بڑے سیاسی پنڈتوں نے اس الیکشن کو صاف اور شفاف قرار دیا اور اکّا دکّا دھاندلی یا بے ضابطگی پر بات کی۔ عمران خان جب عدم اعتماد کا شکار ہوئے تھے تو انہوں نے نیوٹرل نیوٹرل کا وظیفہ شروع کر دیا تھا مگر اب جب نیوٹرل واقعی نیوٹرل ہیں تو بھی عمران خان نے  الیکشن کمیشن کے جانبدار ہونے کا نعرہ لگایا۔ جب کہ الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن نے نتائج کے سامنے سرتسلیم خم کیا۔

نمبر گیم کی صورتحال یہ ہے کہ 17 جولائی کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 163 تھی جب کہ انہیں مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان کی حمایت حاصل تھی، اس طرح پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کے اتحاد یوں کے ارکان کی کُل تعداد 173 تھی۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے مزید 15 نشستیں اپنے نام کرلی ہیں، جس کے بعد اب اتحاد کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 188 ہوگئی ہے، اس طرح تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار حمزہ شہباز اکثریت کھوبیٹھے ہیں۔فیصل نیازی اور جلیل احمد شرقپوری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کو 175 ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے 4 ارکان منتخب ہوئے ہیں،اس طرح ان کی عددی قوت بڑھ کر 179 ہوگئی ہے۔ضمنی انتخابات میں ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا ہے جب کہ چوہدری نثار علی خان گزشتہ 4 سال کے دوران اسمبلی میں تقریباً غیر فعال رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پرویز الہیٰ کو صوبے میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں ن لیگ نے وزارت اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لئے حکمت عملی طے کی ہے اور سٹپ ڈاؤن نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق 22 جولائی کو ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں بھرپور مقابلہ کرنے اور سیاسی محاذ پر تحریک انصاف کے نظریاتی گروپ اور دیگر روابط سے ملاقاتیں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اب عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر اورشہباز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تیز کر دیا ہے۔خبر یہ ہے کہ عمران خان کو بھی پتہ ہے کہ الیکشن کمیشن پر پریشر بڑھانے کا یہی صحیح وقت ہے ورنہ جس طرح سے ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہے، وہ لٹکتی تلوار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کے سخت ترین بیانات پر الیکشن کمیشن توہین عدالت کی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔ عقل یہی کہتی ہے کہ عمران خان فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے اور توہین عدالت سے بچنے کے لیے پریشر حربے اپنا رہے ہیں۔ حالانکہ الیکشن تو بہترین حالات میں ہوئے تو پھر عمران خان کیوں غصے میں ہیں؟ شُنید ہے کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز، آصف زرداری، جہانگیر خان ترین اور علیم خان پوری رازداری کیساتھ تین دن محنت مشقت کریں گے اور حمز ہ شہباز کو ہی وزیر اعلیٰ  منتخب کروائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply