فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔۔۔۔انعام رانا

صاحبو خدا کسی دشمن کو بھی جوانی میں چکن پاکس نہ  دے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی کنواری ہوں اور دامن پہ داغ لگوا بیٹھی ہوں، اخے دکھاؤں کیسے گھر جاؤں کیسے۔

یہ تو معلوم تھا کہ بڑی عمر میں نکلنے لگے ہیں تو اذیت زیادہ ہو گی مگر اتنی ہو گی اس کا اندازہ نہ تھا۔ انسان خود کو خوبصورت سمجھتا ہے اور سج سنور کر مجھ جیسا خود پسند تو خود کو ہی دیکھ دیکھ خوش ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں جب چہرہ سو سوا سو پیپ بھرے دانوں سے بھر جائے، وجود سے ہر وقت بدبو آئے تو ساری خود پسندی اور حسن پرستی پیپ بن کر بہہ جاتی ہے۔ بخار کی شدت جب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لے، دانوں کی جلن دوزخ کی آگ محسوس ہو، منہ اور گلے کے دانے بولنے اور کھانے نہ دیں تو بے بسی کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں زبان سے دعا نہیں نکلتی بس آنسو  بھری آنکھوں سے بندہ اوپر   تکتا ہے کہ مولا اب تو بس ہو گئی۔ ہاں دلچسپ تجربہ ہے کہ نیم بیہوشی کی اس کیفیت میں جہاں فقط کراہیں خدا کے سامنے کرلائیں تھیں یکدم اس نے میرے کان میں کہا بس آج کی رات گزار لے،کل سے ٹھیک ہونا شروع   ہوجائے  گااورپھر اس نے اپنی بات کو پورا کیا۔ تھینک یو اللہ میاں۔

بخار جب کسی صورت ایک سو پانچ سے کم ہونے پہ نہ آیا اور درد کی شدت بیس بیس گھنٹے جگانے لگی تو مجبوراً ہسپتال لیجایا گیا۔ حالت یہ تھی کہ جلن کی وجہ سے کیلامائن لوشن کی شیشی میں نے سر منہ اور جسم پہ یوں تھوپ رکھی تھی کہ شکل انگریزی فلم کے ولن جوکر کی مانند لگ رہی تھی۔ آنکھیں ٹپکتے خون سی سرخ، گو ہونٹوں پہ لال لپ اسٹک نہ تھی مگر سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہونٹ کالی لپ اسٹک والے تھے اور مزید خوفناک افیکٹ دے رہے تھے۔ ہسپتال جاتے جاتے اوپر ڈھیلی سی باتھ روب پہن لی کہ ہوا نہ لگے کیونکہ اور کچھ پہننا اذیت دیتا تھا۔ پہلے تو یہ ہوا کہ دو ٹیکسی والے جو آئے، انھوں نے مجھے دیکھا اور بھاگ گئے۔ تیسری بار اک لبنانی مسلمان تھا جس نے ہمت کی، اللہ اسے اجر دے۔ ایمرجنسی کے دروازے پہ بیگم نے کہا ایک منٹ کھڑے ہو میں انکو بتاتی ہوں کہ چکن پاکس کا مریض ہے، ہو سکتا ہے وہ علیحدہ کہیں بٹھائیں۔ اب میں اپنے عجب حلیہ میں کھڑا تھا کہ اچانک اک بچے کی آواز آئی “امی بھئو” اور وہ چیخ چیخ  کررونا شروع ہو گیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچے کی ماں اس سے بھی زیادہ خوفزدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں نے مسکرانا شروع کر دیا جس پہ وہ اور بھی خوفزدہ ہو کر بچہ اٹھا کر بھاگنا شروع ہو گئی۔ اتنے میں دو سکیورٹی گارڈ آ گئے، مجھے دیکھ کر ٹھٹھکے اور پھر کچھ پانچ فٹ دوری سے پوچھا کہ “کیا ہے”۔ میں نے بھی کہا “کیا ہے؟” جو میری پھٹی سی آواز میں ہارر فلموں والے ایفیکٹ کے ساتھ نکلا۔ اک گارڈ پاکستانی تھا، اسکو اندازہ ہوا کہ سفیدی بھرے بالوں اور منہ کے نیچے بندہ کالا ہی ہے، سو کہنے لگا بھائی جان خیریت ہے۔ میں نے کہا ہاں لاکڑا کاکڑا ہے۔ یہ سن کے اسکی سانس میں سانس آئی، اور بولا اب نکلا ہے؟ میں نے دل میں کہا سالے مجھے پتہ ہوتا ایسا ہوتا ہے تو بچپن میں چکن پاکس والے بچوں سے لپٹ جاتا، ہاں اب ہی نکلا ہے۔ خیر اتنے میں بیوی آ گئی اور مجھے اندر لے گئی۔

ایمرجنسی میں داخل ہوا تو اک تو میرا حلیہ، پھر پاؤں کے تلووں پہ موجود چھالوں اور بخار کی شدت کی وجہ سے ڈگمگاتی ہوئی چال، ایمرجنسی میں اچانک خاموشی چھا گئی۔ اب یہ عالم تھا کہ میری بیوی تھامے ہوئے گزر رہی تھی اور رستہ یوں صاف ہوتا جاتا تھا جیسے مہذب ملکوں میں ایمبولنس گزرنے پہ سڑک۔ فوراً داخل کر لیا گیا اور ایک ری سسیٹیشن روم (جہاں مرتے مریض کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں) میں بند کر دیا کیونکہ مجھے باقی مریضوں کے آس پاس نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ شکر کیا کہ ایمرجنسی کے چیختے چلاتے مریضوں کی آواز سے دور ہوں کہ بندہ آدھا تو دوسروں کی چیخ   وپکار سن کر مر جاتا ہے۔ مجھے بیڈ پہ بٹھا کر ڈاکٹر بیگم کو پیپر سائن کرانے لے گئی اور میں لمبے لمبے سانس لے کر خود کو یقین دلانے لگا کہ میں تو دفتر بیٹھا ہوا ہوں۔ اتنے میں نیم تاریک ری سسیٹیشن روم میں اک نرس اپنی دھن میں داخل ہوئی،مجھ پہ نظر ڈالی، میرا سر اٹھا، اسکی چیخ نکلی اور ایسے بھاگی کہ سامنے سے آتے ہوئے اک ڈاکٹر کو بانہوں میں لیے زمین پہ گری۔ میں نے کھڑے ہو کر فورا ًdon’t worry, I am alive کہنا شروع کر دیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ سمجھی ہے کہ کسی مرحوم مریض کی روح واپس آ گئی ہے۔ دس پندرہ سیکنڈ دونوں نے اس حادثاتی جپھی کا جسمانی اور میں نے روحانی مزہ لیا اور وہ شرمندہ سی اٹھ کر ہنسنے لگی کہ دراصل مجھے پتہ نہیں تھا کہ اندر کوئی ہے۔ فورا ًکمرے سے باہر نوٹس لگ گیا کہ اک منحوس جسے بچپن میں نہ نکلا، 38 برس کی عمر میں چکن پاکس لے کر آ گیا ہے۔ سو اسکو دیکھ کر پریشان نہ  ہوں اور چیخ تو بالکل نہ ماریں، جپھی پہ البتہ نوٹس خاموش تھا۔ قصہ مختصر کئی ڈرپوں، دو کلو خون کے ٹیسٹوں اور ایکسرے ریز کے بعد یہ بتایا گیا کہ اب بخار، پلس سب قابو ہے۔ گھر جاو اور پیراسیٹامول ہی کھاو کہ ابھی انفیکشن اس مقدار پہ نہیں جہاں ہم بلاوجہ ہی اینٹی بائیوٹک دے دیں۔

شکر ہے طبیعت اب بہتر ہے اور شاید ہفتے تک دفتر بھی جانا شروع ہو جاؤں انشااللہ۔ ہاں مگر یہ ہوا کہ کچھ باتیں سیکھیں۔ ہمارا جسم نجانے کتنے زہروں سے بھرا ہے جسے اللہ نے اس جلد کے نیچے چھپا رکھا ہے مگر اندر کا زہر جب بے قابو ہو جائے تو علامات جلد پہ قابل نفرت پیپ بھرے پھوڑوں کی صورت آ جاتی ہیں، ویسے ہی جیسے ہمارے سماج کے اندر کا زہر اب اتنا بے قابو ہو چکا کہ اسکی سیاست، مذہبی سیادت، ثقافت ہر پہلو پہ پیپ بھرے پھوڑے نکل آئے ہیں جنکی بدبو سے خود اپنا دماغ پھٹنے لگے، کیونکہ ریاست اب بچہ نہ تھی اور شدت بھی زیادہ ہے اور صحت یابی میں وقت بھی زیادہ لگے گا۔ پھر سیکھا کہ دنیا کا کوئی بھی، کوئی بھی رشتہ  آپ کی ماں اور بیوی سے زیادہ پیار کرنے والا نہیں ہو سکتا جو بنا کراہت کھائے آپ کے پیپ زدہ پھوڑوں پہ دوا لگائیں، آپ کے پاس بیٹھ کر ابکائی لیے بنا کھائیں اور آپکو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ اس وقت آپ کو دیکھنا بھی اذیت ناک ہے۔ یہ بھی تو سیکھا کہ بیماری کی شدت میں جب آپ کا شعور خود آپ کو چھوڑ دیتا ہے تو خدا باتیں کرتا ہے اک عجب سُر میں جسکی ٹھنڈک سے تکلیف کم ہو جاتی ہے۔

میں نے شیشے میں اپنی شکل دیکھی تو مجھے ابکائی آئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میری والدہ کہنے لگیں، فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پڑھا کرو جب بھی اپنے چہرے کو دیکھو۔ میں نے اپنی والدہ کو اسی نظر سے دیکھا جیسے آسٹریلیا والے میچ میں مشہور ہو جانے والا وہ تماشائی پاکستانی کھلاڑی کو دیکھ رہا تھا۔ ہنستے ہوئے بولیں “تو کہا کر یا اللہ تو مجھے کتنا بدصورت بنا سکتا تھا پر تو نے مجھے خوبصورت بنایا، تیری کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤں گا”۔ قسم سے اس آیت کی اس سے بہترین تفسیر کبھی سمجھ ہی نہیں آ سکی۔ سو مجھ پہ ہر وقت مہربان رہنے والے، مجھے محبتوں کا سزاوار بنانے والے، مجھے کامیابیاں دے کر نوازنے والے، میری ناکامیوں میں میرا سہارا بننے والے، مجھے اتنی پیاری ماں اور بیوی دینے والے، مجھے خوبصورت بنانے والے، مجھے ایسے حالات میں بیماری دینے والے جب میں معاشی طور پہ دو ہفتے کام پہ نہ جانا افورڈ کر سکوں، مجھے شفا دینے والے اور مجھ سے بیماری میں باتیں کرنے والے میرے پیارے رب، تیرا شکر کہ تیری کن کن نعمتوں کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے۔ الحمداللہ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کا انعام رانا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply