کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔۔۔سید مہدی بخاری

قصہ بڑا دلچسپ ہے اور امید ہے آپ یہ تحریر مکمل پڑھیں گے۔آپ مجھے پڑھنے دیکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ فارن آفس کی محترمہ سعدیہ وقار النساء جو اب ڈائریکٹر سی پیک اتھارٹی تعینات ہیں انہوں نے اردن کے ڈپلومیٹ عمر محمد نزال العرموطی سے مل کر اردن پاکستان تعلقات پر ایک کتاب پبلش کی جس میں پاکستان سے متعلقہ سارا مواد یعنی تصاویر و تحریر میری اچک کر چھاپ دی گئیں۔ پاکستان کے متعلق مواد سعدیہ وقار النساء صاحبہ نے پیش کیا۔جو لوگ ناآشنا ہیں وہ اس کی مزید تفصیل کے لئے آپ مندرجہ ذیل لنک کھول کر پڑھ لیں۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2928251743920510&id=127528420659537

اس سرعام ڈکیتی پر میں نے محترمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے پہلے تو جرم ماننے سے سراسر انکار کیا اور پھر مجھے واٹس ایپ پیغامات بھیجنے لگیں جس میں وہ گھسا پٹا “عورت کارڈ” کھیلنا چاہ رہی تھیں۔ وہ آپ اس لنک سے تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2930395410372810&id=127528420659537

قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے میں نے دو راستے اختیار کیئے۔ اول تو وزیراعظم سیٹیزن پورٹل پر شکایت کی دوئم وکیل کے توسط سے لیگل نوٹس بھیجا۔ بعد ازاں مجھے محترمہ کے “چاہنے والوں” نے کالز کیں جو کہ سب ہی اپنا لمبا چوڑا سرکاری تعارف کروانے کے بعد کہتے رہے کہ بخاری صاحب آپ اس کیس کو درگزر کریں۔ یہ تمام کالز کرنے والے افراد اعلی عہدوں پر مختلف سرکاری محکموں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے لئے نیچے دئے لنک کو دیکھا جا سکتا ہے۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2997923316953352&id=127528420659537

سیٹزن پورٹل پر درج کی گئی شکایت کو 40 دن بعد 15 جون کو سیکرٹری فارن ڈویژن کے ان ریمارکس پر بند کر دیا گیا کہ “سعدیہ وقار النساء کا اس کتاب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا نام ان کی مرضی اور علم کے بنا شریک مصنف عمر نزال العرموطی نے خود اپنے طور پر لکھ دیا۔ سعدیہ وقار النساء صاحبہ شریک مصنف کو اس زمن میں خط لکھ چکی ہیں کہ ان کا نام کیوں کتاب میں بطور شریک مصنف ڈالا گیا۔ خط کی کاپی اٹیچ کی جا رہی ہے”۔ ان ریمارکس کے ساتھ اس مبینہ خط کی کاپی اٹیچ نہیں تھی۔ وہ خط مجھے تو نہیں ملا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر فارن آفس کا یہی موقف ہے تو کیا اب یہ اپنی “معصوم” لیڈی افسر کے دفاع کو شریک مصنف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے ؟ اس نے تو بدنام کر دیا ناں ہماری ڈپلومیٹ و وزارت خارجہ کو تو کیا فارن آفس کو اس سے باز پرس نہیں کرنا چاہیئے ؟ کلوزنگ ریمارکس کے سکرین شاٹس پیش کر رہا ہوں۔

فارن آفس خود یعنی بطور ادارہ اپنی لیڈی افیسر کا بھونڈا دفاع کر رہا ہے۔ آپ ہی بتایئے کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کا نام بنا اس کی رضا و علم کے کوئی شخص بطور شریک مصنف ڈال دے ؟ کیا آپ کی عقل سلیم اس منطق کو مانتی ہے ؟ سعدیہ وقار النساء نے پورے پورے باب اپنے نام سے شامل کروائے ہیں۔ کتاب کے ٹیبل آف کانٹینٹ کی تصاویر بھی یہاں اٹیچ کر رہا ہوں جس میں انہوں نے اپنی بائیوگرافی بھی لکھی ہے اور پورے پورے چیپٹر ان کے نام سے پبلش ہیں۔ دیکھیئے اور بتایئے کہ کیسے ان کی لاعلمی و مرضی کے خلاف یہ سب پبلش ہوا ؟ کیا ان کی بائیوگرافی بھی ان کی لاعلمی میں لکھ ڈالی گئی ؟ کیسے کتاب چھپ سکتی ہے جب تک مصنف پبلشر کو لکھا ہوا قانونی اجازت نامہ نہیں دیتے دنیا کا کوئی پبلشنگ ہاوس ISBN نمبر لگا کر کتاب شائع نہیں کر سکتا۔ یہ تو ڈیو پروسیجر ہے۔

اب مزید سن لیجیئے۔ شریک مصنف اردن کے ڈپلومیٹ عمر نزال العرموطی سے میں نے خود فون پر رابطہ کیا تھا۔ وہ اس بات کو لے کر اپ سیٹ ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان سے متعلقہ مواد جو ہمیں فارن آفس کی لیڈی وقار النساء نے فراہم کیا وہ کہیں کہ میرا اس سے تعلق نہیں ؟ نیز میں نے ہی اگر مکمل کتاب پبلش کرنا تھی تو اپنے نام سے کرتا ان کا نام کیوں شامل کرتا ؟ اور یہ بھی کہ یہ ان کی پہلی کتاب نہیں وہ اب تک 4 کتابیں لکھ چکے ہیں۔

شریک مصنف عمر نزال العرموطی کے والد نزال العرموطی اردن کی وزارت داخلہ کے منسٹر آف سٹیٹ رہے۔وہ اردن کی مشہور شخصیات میں شامل ہیں۔ 2015 میں ان کا انتقال ہوا۔ عمر العرموطی خود اردن کے ڈپلومیٹ ہیں۔

اب آپ کو ایک حیرت انگیز بات بتاتا ہوں۔ فارن آفس آف پاکستان نے عمر العرموطی کی کشمیر کے حوالے سے لکھی گئی کتاب “کشمیر کرائسز” پر قاہرہ و اردن میں پاکستانی سفارتخانوں میں ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد کیں۔ اب فارن آفس جس شخص پر سارا ملبہ ڈال رہا ہے اسی شخص کو پروٹوکول کے ساتھ فارن آفس ہی مدعو کرتا رہا۔ فارن آفس کی ویب سائیٹ سے تفصیلات بمعہ تصاویر دیکھ لیجیئے۔

Kashmir Solidarity Day Marked in Lebanon With the Launching of Book “Kashmir Crisis – (Unresolved Issue of Muslim Ummah) Opinions & Analysis”

Kashmir Crisis (Unresolved Issue of Muslim Ummah) Opinions & Analyses

اب آپ ایک حیرت انگیز بات سنیں۔ اسی موفا کی ویب سائیٹ پر یعنی ہمارے فارن آفس کی ویب سائٹ پر کچھ روز قبل تک وہ لنک بھی موجود تھا جس میں اسی کتاب جس میں میرا مواد چھاپا گیا کی تقریب رونمائی اور مصنفین کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کی تصاویر کے ساتھ ایسے ہی پریس ریلیز تھی جیسے کہ اوپر والے لنکس میں آپ نے دیکھیں۔ اب وہ لنک فارن آفس کی ویب سے اڑا دیا گیا ہے۔ ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔ قصہ پاک ۔۔۔

میں نے ریسرچ کرتے وہ لنک دیکھا اور یہ جان کر اسے محفوظ نہیں کیا کہ میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ ایک افسر کو بچانے کی خاطر ہمارا فارن آفس اپنی ویب سے وہ لنک ڈیلیٹ بھی کر سکتا ہے۔ مجھے یہی رہا کہ یہ تو ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے اور فارن آفس کی ویب پر ہے تو یہ عدالتی کاروائی کا حصہ بناوں گا۔ اب مدعا ہی غائب کر دیا گیا ہے ۔۔۔ !!!!

دن دیہاڑے کسی کا کام اچک کر اپنے نام سے چھپوا لیا جاتا ہے۔ اس ہنر پر داد و تحسین سمیٹ کر پروموشن بھی لی جاتی ہے۔ پھر خود کو محفوظ بنانے کو ادارے کی ڈھال استعمال کی جاتی ہے۔ ادارہ اپنے عملے کے ناجائز دفاع میں اترتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی آفیشل ویب سے ثبوت بھی مٹایا جاتا ہے ۔۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ اس شخص پر ملبہ ڈال رہے ہیں جس کو عزت سے مدعو کیا کرتے تھے اور جس نے صدق دل سے پاکستان کو چاہا اور کشمیر کے ایشو پر اس ملک کی آواز بنا۔ سوچیئے کہ وہ شخص کیا سوچتا ہو گا ؟

مملکت خداداد پاکستان میں ہر ادارہ اپنے عملے کو ناجائز تحفظ دیتا ہے۔ خروٹ آباد واقع میں چیچنز کا قتل ہو یا ساہیوال کا واقعہ، سیالکوٹ میں پولیس کی موجودگی میں دو لڑکوں کو تشدد کر کے مار دیا جائے یا معزز عدالت نے اپنے جج کو تحفظ دینا ہو۔ کیا ہمارے امن و امان کے رکھوالے ادارے اور کیا عدلیہ، کیا بیوروکریسی اور کیا سیاستدان۔۔ ہر ادارہ اپنے افراد کا ناجائز دفاع خود کرتا ہے۔ یہاں آپ کو انصاف کے لئے متعلقہ فرد سے نہیں بلکہ اس ادارے سے لڑنا پڑے گا۔۔۔ اور اداروں سے کون لڑ سکا ہے ؟

ایک فنکار کا کل حیاتی کا سرمایہ اس کا فن ہی تو ہوتا ہے اور کونسے وہ جاگیریں بنا لیتے ہیں ؟ وہ سرمایہ ہی اس کا اثاثہ ہوتا ہے جس پر وہ فخر کر سکتا ہے۔یہاں ساری زندگی کی کمائی لٹ جانے پر کس سے انصاف مانگیں ؟ دولت ہوتی تو صبر آ جاتا کہ ڈکیتی میں گئی یہ تو جنون لٹا، فن لٹا، زندگی بھر کی محنت لٹی اور اب ادارہ ایک چور کی ڈھال بنے کھڑا ہے۔ یہ وہی ملک ہے ناں جہاں کویت کے وفد کا بٹوہ ایک ڈپلومیٹ چراتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ آپ کو گر یاد ہو۔۔

آپ مجھ سے پوچھیں کہ پاکستان خوبصورت ہے تو میں کہوں گا یقینن خوبصورت ہے۔ آپ اگر یہ پوچھیں کہ پاکستان میں بسنا اچھا ہے تو میں کہوں گا بلکل نہیں، اگر آپ کے پاس وسائل و قابلیت ہے تو جہاں سینگ سمائے بھاگ لو۔ یہاں عدل و انصاف ندارد ہے۔ ادارے لٹیرے اور وردی میں قاتل و ڈاکو ہیں۔ یہ سماج رہنے کے قابل نہیں۔ آپ کو لاکھ برا لگے مگر یہی تلخ و کڑوی سچائی ہے۔

میں کورونا میں مبتلا زندگی کے بدترین دن بستر پر گزار رہا تھا جب 15 جون کو سیٹیزن پورٹل پر میری شکایت بنا ازالے بھونڈی منطق کے ساتھ بند کر دی گئی۔ بیماری میں مبتلا جسمانی اذیت کے ساتھ یہ میرے لئے کورونا سے بڑی ذہنی اذیت تھی۔ میں کیا کر سکتا تھا بس دیکھ کر موبائل رکھ دیا۔ اب جب کچھ بہتر ہو رہا ہوں اور طبیعت بحال ہو رہی ہے اور آپ سے یہ سب شیئر کر رہا ہوں تا کہ آپ احباب کو معلوم ہو کہ “اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں” ۔

ان تلک میں محترمہ سعدیہ وقار النساء کا نام ہی لکھتا رہا مگر اب ان کی تصویر اس لئے پوسٹ کر رہا ہوں کہ یہ ایک سند یافتہ چور ہیں، ڈکیت ہیں۔ ان کو پہچان لیجیئے۔ جہاں ملیں گی ان سے پوچھیئے کہ آخر کیوں ؟ ۔ میں خواتین کا صدق دل سے احترام کرتا ہوں۔ ان محترمہ کا بھی کیا مگر اب دل ٹوٹ چکا ہے۔ یہ چور ہیں اور ہیں۔ انہوں نے اپنی جنس کی لاج خود نہیں رکھی۔ انہوں نے دھونس سے کام لیا ہے، اپنے دوستوں سے سفارشی کالز کروائی ہیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ یہ مافیا ہے اور mofa اس کی ڈھال بنا ہے۔ طاقتور افراد پورے ادارے کو یرغمال بنا ڈالتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عدالتی کاروائی لازمی کروں گا مگر یہ اوکھا پینڈا ہے جب آپ کے سامنے فارن آفس جیسا ادارہ مجرم کا وکیل بن کر خود آن کھڑا ہو جو وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سے اپنے تئیں “مدعا” ہی غائب کر چکا ہو۔ یہاں یہی کچھ ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے یہی ہوتا رہے گا۔ آیئے کوئی اچھا سا ملی نغمہ سنتے ہیں۔

 

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply