پھانسی دو،پھانسی دو۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ویسے تو پاکستان کی آبادی کا یک معتد بہ حصہ ابھی تک قرون وسطٰی کی نفسیات سے نہیں نکلا جب تحریروں کے ابتدائی صفحات “قاتیلو، یقتلو” کے لفظوں سے بھرے ہوتے تھے۔ کل ہی کی خبر تھی جسے پڑھنے کے بعد میں شب بھر تا اختتام سحر کانپتا رہا اور گاہے بگاہے استغفار بھی کرتا رہا۔ خبر یہ تھی کہ گوجرانوالہ کے کسی ادھیڑ عمر دادا کی انیس سالہ پوتی نے گھر سے بھاگ کر اکیس سالہ نوجوان سے بیاہ کر لیا تھا۔ دادا اور بہو یعنی لڑکی کی ماں، ان دونوں کو مصالحت کر لینے کا غچہ دے کر گھر لے آئے تھے۔ رات کو دادا، بہو اور لڑکی کے دو چچاؤں نے نوجوان جوڑے کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور دونوں کے سروں پہ ٹوکے کے وار کرکے انہیں محبت کے جھنجھٹ سے نجات دلا دی۔
مجھے فرانس کے مشہور ادیب ژاں پال سارتر کی ایک کہانی “دیوار” کی اذّیت یاد آتی رہی۔ اس کے کردار کے کسی نے ہاتھ پاؤں نہیں باندھے تھے۔ اس کے منہ میں کوئی دھجیی بھی نہیں ٹھنسی ہوئی تھی جو ان دونوں بیچاروں کے منہ میں شاید بلکہ یقینا” ٹھونسی گئی ہوں گی۔ پھانسی کے جبوترے پر لے جانے سے پہلے اس کی نگاہوں میں ایک جلاد کی شکل کی بجائے ان چار جلادوں کی شکلیں بھی نہیں گھومی ہوں گی جو ان دونوں کے سامنے تھے اور جو لڑکی کے تو بہر حال سگے تھے۔ سارتر کے کردار کو رات بھر موت کے خوف و خیال نے جس طرح تلملایا تھا ان بیچاروں پر منٹوں میں اس سے کہیں زیادہ اذیّت گذری ہوگی۔ پھر تیز دھار آلے کی پہلے ایک کے سر پہ کھٹ کی آواز، دوسرے کے چہرے پہ خون کے چھینٹے، گردن مقتول کی جانب مڑی ہوئی، اپنی موت سے پہلے موت کا حقیقی منظر اور پھر کھٹ کی دوسری آواز، ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے، ہاتھ میں ہاتھ بھی نہ دے پائے کہ محبت کی توثیق ہو جاتی۔ مگر یہ شقی القلب اپنے جن کے دل نہیں کانپے، ہاتھ نہیں لرزے، آنکھوں سے آنسو تو کیا ڈھلکے ہونگے؟
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بات بے بات کسی بھی معاملے پر نکالے جانے والے جلوسوں میں موجود ہوتے ہیں اور کسی کے لیے “پھانسی دو، پھانسی دو” کے نعرے لگاتے ہیں۔ کسی کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی آرزو، دراصل اہنی موت کی اذیت اور خوف سے نجات پانے کی چیخ کے مترداف ہوتی ہے۔ ہر کوئی بظاہر نہ سہی اندر ایک جانورانہ جبلّی خواہش اپنے ہی جینے کی رکھتا ہے۔ دوسرے کی موت میں اسے اپنی نجات لگتی ہے۔ البتہ جب مارنے والے ہاتھ، پنجے یا ہتھیار بہت سے ہوں تو دوسروں کی موت بھی اپنی موت لگتی ہے بلکہ موت دوسروں کے نزدیک ہونے سے پہلے اپنے نزدیک تر ہوتی ہے۔
“قاتیلو، یقتلو” کے عہد سے حقیقی طور پر نکل آنے والے لوگ کسی کی بھی موت کا مطالبہ نہیں کرتے اور وہ بھی پھانسی دیے جانے جیسے ہیبت ناک انداز میں۔ وہ مطالبہ انصاف کا کرتے ہیں۔ انصاف کے مدارج انسانی تاریخ کے متمدن ادوار نے طے کیے ہیں جن میں آج بھی بہت سے ملکوں میں سزائے موت دیے جانے کے مختلف انداز اختیار کرنا انصاف ہے اگرچہ دنیا میں حکومتی قتل کم سے کم کیے جا رہے ہیں بلکہ بہت سے ملکوں میں تو یکسر روک دیے گئے ہیں۔ سزائے موت کی نسبت عمر قید یا طویل عرصے تک زندانی رہنا سبق آموز بھی ہے اور عبرت خیز بھی۔
“پھانسی دو، پھانسی دو” کے نعروں کی گونج اب ہجوم سے بلند ہو کر سٹیج تک بلکہ سٹیج کے بڑے کردار یعنی رہنما کے ہونٹوں تک پہنچ چکی ہے۔ تبھی تو “تحریک انصاف” کے رہنما عمران خان نے بہاولپور کے بھرے جلسے میں، جہاں ان کی اور ان کے جلسے میں شریک لوگوں کی حفاظت کے لیے پولیس کے ہی افسر اور اہلکار متعین تھے، کہا کہ اگر میرے چودہ اگست کے مجوزہ لانگ مارچ کے کسی شریک پر پولیس والے نے ہاتھ اٹھایا یا گولی چلائی تو اسے “میں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا”۔
میں نے ایک اچھی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، ایک اچھے خاندان کے فرد اور ایک ذمہ دار شہری اور رہنما کے منہ سے سکرین پر جب یہ الفاظ سنے تو میری روح اندر سے لمحے بھر کے لیے اسی طرح سے کانپی تھی جیسے گوجرانوالہ میں ہوئی شقی القلبی پر مبنی واردات سے کانپتی رہی تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا،”یہ تو بہت غلط بات کہہ دی اس نے”۔
عمران خان صاحب گیند کو بلے سے مارنا اور بات ہوتی ہے اور انسان کے گلے میں پھانسی کا پھندا پہنانا اور بات۔ آپ نے تو شاید جانور ہی شکار کیے ہوں لیکن جن کو آپ نے اتنی بڑی دھمکی دی ہے ان میں سے تو کچھ نے تو فی الواقعی کسی انسان کے گلے میں پھندا ڈالا ہوگا۔ آپ شاید اتنے شقی القلب نہ ہوں جتنا گوجرانوالہ کی بدبخت لڑکی کا دادا یا چچا لیکن کوئی ایسا شقی القلب پولیس والا ضرور ہو سکتا ہے جو آپ کی یہ بات سن کر خواہش رکھتا ہوگا کہ آپ صدام حسین کی طرح ہتھے چڑھیں تو وہ وہی کام کرے جو آپ نے اپنے لیے منتخب کیا ہے۔رہنما سے لوگوں کی امید امن، انصاف، رواداری کا درس لینے کی ہوتی ہے اگر رہنما ہی سفّاکی اور قانون کو ہاتھ میں لے لینے کا درس دینے لگے تو کسی اور کو کیا دوش دیا جا سکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے منہ سے یہ الفاظ یونہی نکل گئے ہوں لیکن آپ کو ان کا ازالہ کرنا چاہیے تھا۔ بعد کے کسی بیان میں کہہ دینا چاہیے تھا کہ ایسا آپ نے “جوش خطابت” میں کہہ دیا تھا۔ ویسے جوش خطابت” آپ کو بالکل بھی نہیں جچتا ، آپ کی آواز اور زیادہ بیٹھی ہوئی لگنے لگتی ہے۔
بہر حال آپ کےجسمانی اعمال کے اوصاف سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن آپ نے جوش بھرے نوجوانوں کو پھانسی کے شہتیر گاڑنے اور ہاتھوں میں رسی کے پھندے تھامنے کا جو درس دے دیا ہے وہ ماسوائے طوائف الملوکی کو جنم دینے کے اور کچھ نہیں کہلا سکتا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی اب بھی اپنے بیان کی کھل کر تردید کر دیں لیکن اگر آپ کے جلوس میں کسی ایک کی بھی جان چلی گئی تو آپ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آپ ہی کے خلاف گواہی بن جائیں گے۔
(آپ بیتی سے اقتباس)

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply