• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نفسیاتی امراض میں آپکی غلط فہمیاں اور انکا جواب۔۔چوہدری عامر عباس

نفسیاتی امراض میں آپکی غلط فہمیاں اور انکا جواب۔۔چوہدری عامر عباس

گزشتہ دنوں خود کشی کے رجحان پر ایک کالم شئیر کیا جس کے ٹھیک آدھے گھنٹے بعد میرے ان باکس میں سوالات کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا. اکثر سوالات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں. مجھے بہت حیرت ہوئی کہ نفسیاتی علاج بارے ہماری عوام کے دماغ میں کیسے کیسے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں. پہلی بات یہ ہے کہ میں ڈاکٹر ہرگز نہیں ہوں جو کچھ لکھتا ہوں وہ ریسرچ پر مبنی ہوتا ہے اگر میڈیکل پر کچھ لکھنا ہو تو پہلے ڈاکٹر دوست احباب سے ڈسکس کرتا ہوں پھر لکھ کر دوبارہ انھیں پڑھا کر کالم پبلش کیلئے بھیجتا ہوں.
اب آپکے سوالات کی طرف آتا ہوں. ایک سوال بہت اہم تھا کہ لوگ سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے سے بہت کتراتے ہیں. شرماتے ہیں کہ لوگ ہمیں پاگل کہیں گے. بہت عجیب رویہ ہے یہ جس ٹیبو کو توڑنے کی ضرورت ہے. نزلہ زکام کھانسی بخار پیٹ درد کی طرح ڈپریشن ،ٹینشن ،اینگزائٹی اور فرسودہ خیالات بھی باقاعدہ بیماریاں ہیں جنکا دیگر امراض کی طرح مستقل مزاجی سے علاج کروانے کی ضرورت ہے. ہمیں اس منفی سوچ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے. یورپی ممالک میں دیکھیں تو وہاں سائیکاٹرسٹ بھاری فیسیں لیتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو تو وہ فوری طور پر سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ بیماری جلدی پکڑ میں آ جائے علاج کا دورانیہ کم ہو. لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے یہاں نفسیاتی بیماری کو اول تو کوئی بیماری ہی نہیں سمجھتے. اگر سمجھیں بھی تو نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگوں کو بہانے باز یا محض پاگل کہنے پر ہی اکتفا کرکے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں. یہی ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے.
کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے سائیکاٹرسٹ سے علاج کروایا مگر مریض مکمل ٹھیک نہیں ہوا. یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے. نفسیاتی علاج زرا طویل عرصے تک چلتا ہے اور مریض کے لائف سٹائل میں بھی تبدیلی لانا پڑتی ہے. مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں. ہوتا کیا ہے کہ علاج شروع کرنے کے دو چار ہفتوں میں مریض بھلا چنگا ہو جاتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اب مریض مکمل ٹھیک ہو گیا ہے لہٰذا دوا دینا بند کر دیتے ہیں یا بروقت دوا نہیں دیتے یا ازخود دوا کی خوراک میں کمی بیشی شروع کر دیتے ہیں جس سے بیماری دوبارہ لوٹ آتی ہے اور دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں. ڈاکٹر کیلئے علاج کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ان عادات کی وجہ سے مرض مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے اور ادویات بدل کر مزید زیادہ طاقتور دینا پڑتی ہیں.
بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ سائیکاٹرسٹ جان بوجھ کر علاج طویل کرتے ہیں تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ فیسیں اکٹھی ہوں اور انکا مریض مستقل رہے. یہ آپکی انتہائی سطحی، فرسودہ اور فضول سوچ ہے جس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے. میں آپ کو ایک بات پوری دیانتداری سے بتاؤں. کسی بھی دماغی مسائل کے شکار مریض کیلئے اللہ کے بعد دنیا میں اگر کوئی مخلص ہستی ہے تو وہ اسکا سائیکاٹرسٹ ہوتا ہے. وہی مسیحا ہے. نفسیاتی علاج کیلئے سائیکاٹرسٹ کے علاوہ آپکے پاس کوئی دوسری آپشن ہی نہیں ہے. کوئی سائیکاٹرسٹ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا مریض مکمل شفا یاب نہ ہو. بات دراصل یہ ہے کہ دماغی امراض دراصل دماغ کے اندر موجود کیمیکلز اور ہارمونز میں خلل پڑنے کا نام ہے. ایک سائیکاٹرسٹ جب علاج شروع کرتا ہے تو ادویات شروع کرنے کے بعد چند روز میں ہی مریض ٹھیک ہو جاتا ہے. جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا لوگ دوا چھوڑ دیتے ہیں یا دوا لینے میں کوتاہی کرتے ہیں جس سے علاج کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے. نفسیاتی علاج ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اسے طویل عرصے تک کروانا پڑتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے ورنہ بیماری دوبارہ لوٹ آتی ہے. مگر لوگ کیا کرتے ہیں کہ چند دن میں مریض مکمل ٹھیک ہو جاتا ہے تو دوائی لینا ترک کر دیتے ہیں یا ازخود دوا میں کمی بیشی شروع کر دیتے ہیں جس سے مریض کی حالت غیر ہو جاتی ہے. اپنی کمی کوتاہی اور غلطیوں کا ملبہ اپنے سائیکاٹرسٹ پر ڈال دیتے ہیں کہ مریض ٹھیک نہیں ہو رہا اور ڈاکٹر علاج کو جان بوجھ کر طویل کر رہا ہے.
کسی بھی نفسیاتی مرض کی صورت میں بلا جھجک فوری طور پر اپنے قریبی سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کیجئے. علاج شروع کیجئے علاج کے دوران اپنے ڈاکٹر سے رابطہ میں رہیں اور انکی ہدایات پر عمل کیجئے. ڈاکٹر پر شک مت کیجئے بروقت دوا لیں. علاج مکمل کیجئے ادویات میں ازخود کمی بیشی مت کیجئے. جب تک ڈاکٹر علاج جاری رکھنے کا کہے اپنا کورس لازمی مکمل کیجئے. ایسی صورت میں علاج میں کامیابی یقینی ہے.

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply