کیوں بھئی؟۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

نجم سیٹھی صاحب کا تجزیہ سن رہا تھا۔ فرماتے ہیں کہ ” آئی ایس آئی” کا نام اب گھر گھر میں لیا جانے لگا ہے یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ یاد ہے، ہم “حسّاس ادارے” کہا اور لکھا کرتے تھے یا زیادہ سے زیادہ “خفیہ ایجنسیاں” ایک ایجنسی نہیں بلکہ ایجنسیاں کہہ دیا کرتے تھے”۔ انہوں نے خود بھی اس منطق کی وضاحت نہیں کی اور مجھے تو اس بات میں ویسے ہی کوئی منطق دکھائی نہیں دی۔ اگر کسی ایسی ایجنسی کا نام برسرعام ہونے لگا ہے، جس کے منفی اعمال کی ہی کہانیاں بیان ہوتی ہیں، یقیناً  اس کے مثبت اعمال بھی ہونگے اگرچہ وہ “راز” ہی رہتے ہیں، تو اس پر استعجاب کا اظہار کرنے کے بجائے تشویش ظاہر کیے جانے پر اچنبھا ہی ہوگا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جستجو سے لاعلمی۔ دنیا کے مطلوب ترین دہشت گرد کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے بے خبر ہونے کا مبینہ دعوٰی۔ امریکہ کے “سیلز” ایبٹ آباد میں آ کر کیا کر جائیں گے کیا زندہ یا مردہ لے جائیں گے، اس بارے میں بے خبری۔ بلوچستان میں لوگ گم کیوں ہوتے ہیں یا عقوبت زدہ لاشیں بر کنار راہ کیوں ملتی ہیں، اس میں خود کے ملوث ہونے سے یکسر انکار۔ امریکی ایجنسی کے قاتل شخص کی لاہور میں موجودگی بارے پتہ نہ ہونا اور اس کے ہاتھوں ان لوگوں کا سر عام قتل ہونا، جن کے بارے میں سننے میں آیا تھا کہ ان کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ اسی ایجنسی سے تھا، باوجود اس کے اس کا صاف چھوٹ کر اپنے ملک لوٹ جانا۔ غرض کوئی تو ایسی بات سامنے آئی ہو جو لوگوں کا جی خوش کرے مگر ایسا نہیں ہوا۔

میں ماسکو میں رہتا ہوں۔ ہمارے ہاں تو ہماری آئی ایس آئی جیسی خفیہ ایجنسی ایف ایس بے کا نام ویسے ہی لیا جاتا ہے جیسے پولیس کا۔ ہاں البتہ بیس پچیس برس پہلے، جب جبر کا دور تھا تب کی خفیہ ایجنسی کے گے بے کا نام کے جی بی روس سے باہر تو لیا جاتا تھا، یہاں اسے خفیہ والے یا دوسرے غیر واضح ناموں سے ہی، وہ بھی سرگوشیوں میں ہی پکارا جا سکتا تھا۔ سیٹھی صاحب کا تو بہت زیادہ وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں گذرتا ہے، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ وہاں سی آئی اے اور ایف بی آئی کا نام عام سننے میں آتا ہے۔ فلموں، مضامین، کتابوں، تبصروں وغیرہ میں تو کسی کی مجال ہی نہیں کہ اس کا نام لینے سے روکے۔

سیٹھی صاحب کے تجزیوں سے اختلاف کم ہی کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ان کا کہا ہی حرف آخر ہو۔ یہ اور بات ہے کہ وہ معروضی حالات کے مطابق مصلحت اور مصالحت کی راہ اختیار کیے ہوئے ہوں۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مطابق آئی ایس آئی کا نام حامد میر پر حملے اور جیو کے خلاف فوج کی ناراضی کے بعد گھر گھر میں لیا جانے لگا ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے، آئی ایس آئی کا نام افغانستان میں امریکہ کے ایماء پر “جہاد” لڑے جانے کے بعد سامنے آیا تھا بلکہ لوگوں میں ڈھکے چھپے لفظوں میں اور سیاسی حلقوں میں کھل کر اس ایجنسی کا نام تو آئی جے آئی بننے کے بعد ہی سامنے آنے لگا تھا۔

اس زمانے میں میں ملتان میں بطور ڈاکٹر کیپٹن تعینات تھا اور میرے ہم نام میجر اس زمانے میں ملتان میں آئی ایس آئی کے انچارج ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی میری شہری سیاسی حلقوں میں اٹھک بیٹھک کی وجہ سے میرے ذمے لگایا تھا کہ میں ہر دوسرے تیسرے روز یہ بتا دیا کروں کے فوج کے اندر اور شہریوں میں آئی جے آئی کے حق میں اور مخالف لوگوں کی شرح کتنی ہے تو میرا کمانڈنگ افسر میری یونٹ سے غیر موجودگی پر کبھی معترض نہیں ہوگا۔ میری بھی کوئی مجبوری تھی لیکن میری سب سے بڑی مجبوری یہ تھی کہ مجھے کچھ عرصے کے بعد اسی شہری سماج میں لوٹ جانا تھا۔ میں نے یہی جواز پیش کرکے عرض کی تھی کہ میں تحریر کوئی نہیں دوں گا البتہ زبانی رپورٹ کر دیا کروں گا۔ آوارہ گردی کرتا تھا اور جھوٹ موٹ جو مناسب سمجھتا تھا کہہ دیا کرتا تھا۔ پھر شاید ان پر میرا جھوٹ کھل گیا تھا یا وہ میری غلط بیانی سے اکتا چکے تھے چنانچہ مجھ سے جلد ہی جان چھڑا لی تھی اور یوں میرا مدعا بھی پورا ہو گیا تھا کہ میری ان سے جان چھوٹ گئی تھی۔ اس بنیاد پر میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آئی ایس آئی کا نام تب بھی باقاعدہ اس کے نام کے ساتھ ہی سیاسی سطح پہ عام تھا۔

ظاہر ہے کہ “آئی ایس آئی” ہمارے ملک کے ہی ایک ادارے کا شعبہ ہے اور اس ادارے کا شعبہ ہے جس کے ذمے ملک کی سلامتی اور حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ ملک دشمن عناصر پہ نظر رکھنا اور ملک کو نقصان پہنچائے جانے سے پہلے ان کی سرگرمیوں کو روکنا اس ایجنسی کا کام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو بلا وجہ غدار یا باغی قرار دیے جانے کا چلن عام ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں پر بھی اس نوع کے انتہائی قبیح الزام لگا دیے جاتے ہیں۔ ملک میں اپنی پسند کی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا فوج کے اس شعبے کے لیے نہ صرف یہ کہ عام سی بات ہے بلکہ اس کے اس عمل سے کون ایسا ہے جو آج آگاہ نہیں ہے؟ عدالت عالیہ میں کیا اصغر خان کیس کیا بلوچستان میں مسخ لاشوں سے متعلق مقدمہ، کیا اسامہ بن لادن کے شکار کی کارروائی کا کمیشن غرض ایسے بہت سے معاملات ہیں جن میں اس ایجنسی کی سرگرمیاں طشت از بام ہو چکی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تزویری گہرائی کا فیصلہ بھی اسے ہی کرنا ہوتا تھا اور آج جو کچھ ہو رہا ہے یعنی کیبل آپریٹرز کی من مانی باوجود اس کے کہ عدالت عالیہ اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے، کہ  پسِ  پشت بھی آئی ایس آئی ہی ہے جس کو پولیس چیلنج نہیں کر سکتی۔ کیا کیبل آپریٹروں کو عدالت عالیہ کے فیصلے سے رو گردانی کرنے کی ترغیب دینا کسی عسکری ایجنسی کا کام ہوتا ہے؟ اس بارے میں سیٹھی صاحب نے کھل کر تنقید کی ہے اور چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کا نام عام نہ ہو۔ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی مزید بدنام نہ ہو بلکہ اس کی نیک نامی سے متعلق سرگرمیوں کو لوگوں میں متعارف کرائے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل احسن مشورہ ہے لیکن ظاہر ہے نیک نامی کمانے کی خاطر بدنامی کے موجب عوامل سے نہ صرف روگردانی کرنی ہوگی بلکہ ماضی میں کی گئی ایسی سرگرمیوں پہ اگر معذرت نہیں تو تاسف کا اظہار کیا جانا تو بنتا ہی ہے۔ کیوں بھئی؟

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply