نانی جان، اُردو کوئی نہیں خریدتا/پروفیسر فضل تنہا غرشین

کاروبار اگر چلے تو واہ، نہیں تو آہ۔ کاروبار سے مراد اپنا مال، موقف، خیال، علم اور رائے دوسروں پر بیچنا ہے۔ منافع بخش خرید و فروخت کے لیے ضروری ہے کہ مال، موقف، خیال اور علم معیاری ہو اور اس کی طلب بھی ہو۔ طلب اور رسد میں توازن ضروری ہے۔ خدانخواستہ اگر مال اور خیال کی رسد، طلب سے زیادہ ہو تو پیداوار اور پیداکار دونوں خسارے میں چلے جاتے ہیں۔ یوں اس طرح کے ممکنہ خسارے سے بچنے کے لیے طلب، موسم اور عوامی رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مال، موقف اور خیال میں تبدیلیاں لانا دانش مندانہ اقدام ثابت ہوسکتا ہے، مگر متواتر تبدیلیاں خارج از خطرہ نہیں۔ ہر کاروبار کا ماحصل مادی نہیں، روحانی بھی ہوسکتا ہے۔

پیٹ اور کاروبار کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ پیٹ کے لیے  اشرف المخلوقات  نے کیا کیا گُل نہیں کِھلائے۔ پیٹ نے نہ صرف دشمنیاں، برائیاں اور جرائم متعارف کرائے ہیں، بلکہ ایجادات اور ہر طرح کی ترقی سے بھی انسان کو روشناس کرایا ہے۔ پیٹ کو اگر زندگی سے منہا کیا جائے تو سب کچھ بچتا ہے مگر زندگی نہیں۔

ہر کاروباری جب شام کو گھر لوٹتا ہے تو گھر کے بڑے کاروبار کی بابت پوچھ لیا کرتے ہیں اور مزید بہتری کے لیے خوب مشورے دیتے ہیں۔ اگر گرمیوں میں کوئلے کی طلب کم ہوجائے تو کھاد کا کاروبار سودمند ثابت ہوسکتا ہے، یا اگر سردیوں میں کولڈڈرنک کی اہمیت کم ہوجائے تو سوپ کا کاروبار نفع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ وعلیٰ ہذالقیاس۔ کاروبار میں مال کی تبدیلی اور انتخاب پر کئی ماہرین نے کئی کتابیں لکھی ہیں، مگر موقف اور خیال پر منحصر کاروبار میں تبدیلی پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ جب کہ گھاٹے کے کاروبار کے ساتھ جینے پر کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔

کاروبار کے کئی پردے ہیں، ملازمت کرنا، سیاست کرنا، علم بیچنا، نیکی یا بدی کرنا، دوستی یا دشمنی پالنا، بحث مباحثہ کرنا، کسی کو قائل کرنا اور دوست یا پارٹی کا انتخاب و تبدل بھی کاروبار ہے۔ اگر کسی کی دوستی یا پارٹی مزید سودمند ثابت نہیں ہوتی تو اس میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوتا ہے اور کہیں اور پناہ بھی لے سکتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ موقف اور خیال میں تبدیلی بہت نفع بخش کاروبار ثابت ہوچکی ہے۔ اس طرح کے لوگ اپنے  موقف اور خیال کو عوام کو  بیچ کر مسلسل منافع حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس کاروبار سے منسلک افراد ضمیر، احساس، شرم، حیا اور انصاف سے بے نیاز ہوتے ہیں۔

بحث مباحثہ کرنا اور اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا بھی ایک اذیت ناک کاروبار ہے۔ یہ کاروبار کے اندر کاروبار ہے۔ اس کاروبار کے لیے کسی سرمائے، زمین، مزدور، تجربہ اور اہلیت کی ضرورت نہیں۔ اس کاروبار کے لیے صرف جمگھٹا یا کم سے کم ایک سے زیادہ لوگ چاہئیں۔ اس قسم کے کاروبار کے لیے ‘مادی ماحصل’ کا ہونا ضروری نہیں۔ اس کاروبار کا روحانی ماحصل ہوتا ہے۔ اس کاروبار میں اکثر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو کسی پیشے میں شامل نہیں ہوتے۔ اس ‘روحانی ماحصل’ پر مشتمل کاروبار میں وہ لوگ بھرپور شرکت کرتے ہیں جو ‘مادی ماحصل’ سے محروم رہتے ہیں۔ اس کاروبار سے منسلک افراد دوستیوں اور رشتوں کی نزاکت سے عاری ہوتے ہیں۔

معلومات اور علم بیچنا بھی ایک کاروبار بن گیا ہے۔ افلاطون کے دور میں ایسے لوگوں کو سوفسطائی کہلاتے تھے۔ سرکاری سطح پر علم و ہنر کی خرید و فروخت ملازمت کہلاتی ہے، اور شومئی قسمت سے راقم الحروف بھی اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ سقراطی استخراج کی رو سے میں بھی کاروباری ٹھہرا، لیکن میرا کاروبار کم منافع بخش ہے۔ ہمیں مڈل کلاسیے کہا جاتا ہے۔ میرا المیہ گفتنی ہے، اور قابلِ رشک بھی۔ کیوں کہ میں اُردو بیچتا ہوں۔ عام طور پر صارف پیداکار کے پیچھے بھاگتا ہے، جب کہ میں “اندھا کباڑی” کی طرح صارف کے پیچھے سرگرداں ہوکر نعرے لگاتا ہوں،لے لو، اُردو لے لو ۔۔۔۔ مفت لے لو، مجھ سے اس کے دام بھی لے لو! مگر کوئی لینے نہیں آتا۔

میری خواہش ہے کہ میں اردو میں کم سے کم ایم فل یا زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی ہوتا اور میرا اپنا ہسپتال ہوتا۔ میری خواہش ہے کہ میرے ہاں تنگ نظری، تعصب، حسد، بزدلی، دھوکا دہی، جھوٹ، بے ایمانی، کاہلی، بخیلی، خود غرضی، غرور، نفرت، ظلم اور اس طرح کی دیگر بیماریوں سے متاثرہ مریض علاج کرانے آتے اور میں ان کو میر کی غزلیں، اقبال کی نظمیں، منٹو کے افسانے، مرزا ادیب کے ڈرامے، پطرس کے مضامین، عمیرہ احمد کے ناول، میر امن کی داستانیں، وزیر آغا کے انشائیے، میر انیس کے مرثیے، میر حسن کی مثنویاں، رشید احمد صدیقی کے خاکے، جان صاحب کی ریختیاں وغیرہ پڑھنے کے لیے بطور دوا تجویز کرتا، مگر بدقسمتی سے میں ڈاکٹر ہوں اور نہ ہی سر زمین پاک کے عوام ان بیماریوں میں مبتلا ہیں۔

میرا کاروبار خسارے میں ہے۔ دیگر علوم کی طرح اُردو کو لوگ اکیڈمیوں سے نہیں خریدلیتے۔ اسی طرح دوسرے کاروباری عالموں کی طرح ہم بحث مباحثہ کرنے یا اپنی رائے ظاہر کرنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ میں شماریات میں ماہر نہیں کہ لوگ میرے پیش کردہ اعداد وشمار پر بھروسا کریں، میں سیاسیات کا ماہر نہیں کہ شرکا میرے دیےگئے حوالہ جات سے اتفاق کریں، میں مذہبی امور کا ماہر بھی نہیں کہ حاضرین مجلس میرے اقوال و افکار پر اعتبار کریں، اور میں سائنسی مضامین میں بھی ماہر نہیں کہ میرے سامعین میرا بیان معتدل اور مدلّل سمجھ کر میری ہاں میں ہاں ملائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بطور دلیل، میں اگر کسی محفل میں حبیب جالب یا عطا شاد کا شعر پیش کروں تو مجھے باغی یا بلوچ نواز ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر فیض کے کسی شعر کا حوالہ دوں تو پنجاب نواز کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یا اگر اقبال کا شعر پڑھوں تو متشدد اور کٹر مذہبی ہونے کا نام کماتا ہوں۔اگر جون ایلیا کا شعر عرض کروں تو اسلام یا سنی مخالف بنا دیا جاتا ہوں۔ اگر میراجی یا ،ن۔م راشد کی نظم کہوں تو پاگل اور گمراہ کا لقب پاتا ہوں۔ میں ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر ہار جاتا ہوں۔ اردو کا نام لیتے ہی پشتو اور پشتون دشمن ٹھہرایا جاتا ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شکر ہے الحمدللہ ابھی تک اردو کو بطور لازمی مضمون پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے اور میرے کاروبار یعنی رزق کا سبب بنی ہوئی ہے، ورنہ اگر اردو بھی کھانے پینے، اوڑھنے پہننے یا خرید و فروخت کی چیز ہوتی اور میں اس کا سوداگر ہوتا تو میرا کاروبار اتنا سنسان اور ویران ہوتا کہ اگر شام کو گھر واپسی پر نانی جان پوچھ لیا کرتی: “بیٹے! تمھارے اردو بیچنے کا کاروبار کیسا ہے؟” میں ایک سرد آہ لے کر نہایت پریشانی کے عالم میں جواب دیتا: “نانی جان! اردو کوئی نہیں خریدتا۔” اور حسبِ روایت نانی جان مشورہ دیتی: “بیٹے! مارکیٹ کے مطابق اردو کے بجائے کوئی اور چیز بیچ دیا کرو۔” میں خلاف روایت جواب دیتا: “نانی جان! میرا اور اردو کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ میں نے آج سے اردو بیچنے کے بجائے اردو خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے بھی اس گھٹن زدہ ماحول میں جینا بذاتِ خود کسی گھاٹے کے کاروبار سے کم تر نہیں۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply