لہراتے ہوئے پردے ۔۔حبیب شیخ

اعلان ہوا کہ شہر کو آزاد کرا لیا گیا ہے، دشمن کو مار بھگا دیا گیا ہے، بارودی سرنگیں شہر کا ہر کونہ ہر عمارت چھان چھان کر نکال دی گئیں ہیں۔ سخت جان مگر نرم چہرے کی حامل چالیس سالہ پَولا کتنی بے چین تھی بے قرار تھی اپنے محلّے اپنے آبائی گھر پہنچنے کے لئے ۔ اگلے دن ہی اُس نے سفر کا سامان باندھا اور ایک کھچاڑا ویگن میں بیٹھ کر دو گھنٹےبعد شہر کے گرد و نواح میں پہنچ گئی۔ ویگن میں کچھ اور بھی لوگ تھے سینوں میں اپنی اپنی زندگی کے راز چھپائے ہوئے عقابی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک صحتمند بوڑھی عورت اپنے نواسے یا پوتے کے ساتھ، کچھ مختلف عمروں کے جوان لوگ جو شاید ایک ہی خاندان سے منسلک تھے اور کبھی کبھار بہت نیچی آواز میں ایک دوسرے سے بات کر لیتے تھے، اور ایک اٹھارا بیس سال کا لڑکا جو سب سے الگ تھلگ بیٹھا ہواتھا۔ ویگن جب شہر میں داخل ہوئی تَو پَولا زور سے بڑبڑا اٹھی۔ ’کس کو آزاد کروایا ہے، یہاں تو کوئی انسان نظر نہیں آتا اور ہر مکان، ہرسڑک، ہر چوک ٹوٹا ہوا ہے ۔ کیا اس ملبہ نما شہر کو آزاد کروایا ہے یا اس کو آزاد کروانے میں یہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔‘
نوجوان لڑکے نے گردن موڑ کر پَولا کو دیکھا تو وہ جھینپ سی گئی۔ پھر پَولا نے ترچھی نظروں سے اس لڑکے کو دیکھا اور اس کے سراپا میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی۔ پَولا نے فوراً اپنی آنکھیں ہٹائیں اور باہر دیکھنے لگ گئی۔
شہر کے باہر فٹبال اسٹیڈیم جس میں پَولا نے نجانے کتنے میچ کھیلے تھے کچھ اور ہی لگ رہا تھا جیسے جانوروں کا ایک گندہ باڑا، استعمال شدہ اور تباہ شدہ فوجی سامان سے لبریز۔ ویگن کھڈوں سے بھری سڑکوں پہ ہچکولے کھاتے ہوئے آگے بڑھی۔’ ہائے اس سنیما ہال کا کیا حال ہو گیا ہے۔ یہاں تو ہر وقت انسانوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ جیتے جاگتے امنگوں سے بھر پور انسان، فیشن ایبل لڑکے اور لڑکیاں چہل پہل کرتے ہوئے، کہاں گئے یہ سب لوگ؟ اس شہر میں کوئی رہتا بھی ہے کہ نہیں! ایک دو بلیاں اور دو چار کتے ! اُن سب انسانوں کو زمین ہڑپ کر گئی یا آسمان نے اٹھا لیا؟‘
ویگن آہستہ آہستہ فوجی چوکیوں پہ رکتے رکاتے آگے بڑھی اور ایک تنگ گلی میں چلی گئی۔ اگلے چوک پہ اسے دو عمر رسیدہ لوگ نظر آئے۔ دفعتہً پولا کی آنکھیں چونکیں اور پھر مدھم ہو گئیں۔ ’اِن کے چہروں پہ آزادی کی کرن کیوں نہیں ناچ رہی ، کرب و یاسیت کا پیغام ہےاُن کا حلیہ۔ شاید انہیں اپنے زندہ رہ جانے پہ گمان ہے! ‘
اٌس سے اگلے چوک پہ پولا کی گلی تھی۔ یہ سب ماجرہ دیکھنے کے باوجود اس کی طبیعت میں کچھ جوش و خروش آگیا تھا۔’ میرا گھر، میرا پانچ نسلوں کا آبائی گھر! میں اس کی ایک ایک اینٹ کو چوم لوں گی، اس کو پھر پودوں سے سنواروں گی، اس کو دوبارہ زندگی دوں گی، وہی زندگی وہی رونق جو ہمیشہ سے اس کی شخصیت کا حصّہ تھی، اس کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔ لگتا تھا کہ اس کے مکین ہی نہیں بلکہ یہ مکان خود بھی ہر آنے والے کا استقبال کرتا تھا۔‘
پَولا نے پھر ترچھی نظروں سے نوجوان لڑکے کی طرف دیکھا لیکن اُس سیٹ پہ اب کوئی نہیں تھا۔ اس نے سرسری نگاہوں سے ادِھر اُدھر دیکھا لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔’ کیایہ کوئی دشمن کا جاسوس تو نہیں ہے، اب پتا نہیں کہاں چھپا بیٹھا ہے!‘
ویگن ایک نکڑ پہ رکی اور پَولا ایک لمبا سانس لے کر اتر گئی۔ ٹائروں کی رگڑ کی بے ڈھنگی آواز آئی لیکن پَولا وہیں کھڑی رہی۔ ’مجھے واپس چلے جانا چاہیے۔ یہ جگہ کتنی اجنبی لگ رہی ہے! یہاں تو چند فوجیوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آ رہا۔‘
پَولا اپنی گلی کی طرف بڑھی، اسے دور سے اپنا مکان نظر آیا۔’ شکر ہے یہ اپنی جگہ قائم ہے۔ اچھا ہؤا کہ میں واپس نہیں چلی گئی۔‘
پَولا کا سانس پھول رہا تھا لیکن اس کے قدم اور تیز ہو گئے۔ اس کو اب اڑتے ہوئے پھٹے ہوئے پردے صاف نظر آرہے تھے۔ اب وہ مکان کے گیٹ پہ کھڑی تھی۔ سامنے والی کھڑکی کا خون کے چھینٹوں سے اٹا ہؤا پردہ اچانک بہت شدّت سے لہرایا ، جیسے وہ پَولا کو اپنی آغوش میں لے کر جکڑ لے گا۔ پَولا نے ایک چیخ ماری اور بھاگنے کے لئے پلٹی۔ لیکن، لیکن اب اس کے سامنے وہ ویگن والا نوجوان کھڑا مسکرا رہا تھا۔
بے ہوش ہونے سے پہلے اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل پایا۔ ’تم کون؟‘
نوجوان نے آہستہ سے کہا۔’ پچھلے سال مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس مکان میں بند کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اب میں یہی رہتا ہوں۔‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply