بدن (51) ۔ ڈھانچہ/وہاراامباکر

ہمارے ڈھانچے کا کام آسان نہیں ہے۔ اسے سخت ہونا ہے اور فعال بھی۔ ہمیں سیدھے بھی کھڑے ہونا ہے۔ اور مڑنا تڑنا بھی ہے۔ ہم بیک وقت سخت اور لچکدار ہیں۔ جب کھڑے ہوں تو گھٹنوں کو اپنی پوزیشن پر لاک ہو جانا ہے۔ لیکن یہ لاک فوراً ہی کھل جانا ہے اور 140 ڈگری پر اسے مڑ جانا ہے جب ہم اکڑوں بیٹھ جانے لگیں۔ اور یہ کام اسے بڑی خوبصورتی سے کرنا ہے۔ اور ہر روز دہائیوں تک کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ نے کبھی بہترین ٹیکنالوجی والے روبوٹ کی حرکت دیکھی ہو تو یہ کسی بھی زندہ شے جیسی شان نہیں رکھتی۔ توازن نہیں رکھ پاتے۔ ہر سطح پر حرکت نہیں کر سکتے۔ انکی شور مچاتی اور جھٹکوں والی حرکت تین سالہ بچے کا مقابلہ تو کر ہی نہیں سکتی۔ اور برس ہا برس تک؟ بغیر مرمت کے؟ ٹیکنالوجی سے کیا گیا موازنہ ہمیں اس چیز کی قدر کروا سکتا ہے کہ ہم کس قدر شاندار تخلیق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہم میں 206 ہڈیاں ہیں۔ لیکن اصل تعداد ہر شخص میں یکساں نہیں۔ کئی لوگوں میں پسلیوں کا اضافی جوڑا ہوتا ہے۔ جبکہ ڈاون سنڈروم کا شکار ہونے والوں میں پسلی کا ایک جوڑا کم ہونا عام ہے۔ اور 206 کا عدد sesamoid ہڈیوں کو شمار نہیں کرتا جو جسم بھر میں tendons میں پائی جاتی ہیں۔ یہ ہڈیاں عام طور پر بہت چھوٹی ہیں لیکن گھٹنے کی ہڈی بھی ایسی ہی ہے۔
جسم میں ہڈیوں کی تقسیم یکساں نہیں۔ پیروں میں 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ ریڑھ کی ہڈی سے دگنی تعداد ہے۔ ہاتھوں اور پیروں میں جسم کی نصف سے زیادہ ہڈیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہڈیوں کا کام صرف جسم کو ڈھے جانے سے بچانا نہیں، بہت کچھ اور بھی ہے۔ یہ اندرونی حصے کو محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں پر خون کے خلیات بنتے ہیں۔ کیمیکل ذخیرہ ہوتے ہیں۔ کان میں یہ آواز کی ترسیل کرتی ہیں۔ اور حال میں دریافت ہونے والے ہارمون osteocalin یہاں بنتا ہے جس کا تعلق ہماری یادداشت اور موڈ سے بھی ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کسی کو علم نہیں تھا کہ ہڈی میں ہارمون بھی بن سکتا تھا لیکن کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرِ جینیات نے نہ صرف اسے دریافت کیا بلکہ یہ بھی معلوم کیا یہ اس کا جسم کے کئی کاموں کی ریگولیشن میں ہاتھ ہے۔ اور یہ دریافت ایک پرانے پرسرار سوال کا جواب دینے میں مدد کر سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ باقاعدہ ورزش الزائمر کی بیماری سے بچانے میں مددگار ہے۔ لیکن اس کا میکانزم نامعلوم ہے۔ غالباً ایسا ہو کہ ورزش سے ہڈیاں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور مضبوط ہڈیوں میں یہ ہارمون زیادہ پیدا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہڈی کا ستر فیصد غیرنامیاتی مادہ ہے اور تیس فیصد نامیاتی ہے۔ سب سے بنیادی عنصر کولاجن ہے۔ یہ جسم میں سب سے زیادہ پائی جانے والی پروٹین ہے۔ (جسم کی پروٹینز کا چالیس فیصد کولاجن ہے)۔ اور یہ بہت سے روپ دھار سکتی ہے۔ نہ صرف یہ آنکھ کی سفیدی میں ہے بلکہ شفاف کورنیا میں بھی۔ پٹھوں میں یہ ریشے بناتی ہے جو رسیوں جیسا کام کرتے ہیں۔ کھینچنے پر مضبوط رہتے ہیں اور واپس لانے پر فوراً پیچھے ہو جاتے ہیں۔ ایسا کام پٹھوں میں تو مفید ہے لیکن دانتوں میں نہیں۔ جہاں پر مستقل سختی درکار ہے، وہاں پر کولاجن ایک اور منرل سے مل جاتی ہے جو hydroxyapatite ہے۔ یہ دانتوں اور ہڈیوں جیسے سخت اور مضبوط سٹرکچر بنا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر ہڈیوں کو بے جان سٹرکچرل ڈھانچہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ یہ بھی زندہ ٹشو ہیں۔ مسلز کی طرح ورزش کا ان پر اثر ہوتا ہے۔ ٹینس کے پیشہ ور کھلاڑی کا سروس کروانے والا بازو دوسرے کے مقابلے میں تیس فیصد تک موٹا ہو سکتا ہے۔ (رافیل نڈال اس کی مثال ہیں)۔ ہڈی کو اگر خوردبین کے نیچے دیکھا جائے تو آپ کو پیداواری خلیات کا ایک بڑا نفیس جال نظر آئے گا۔ ویسے ہی جیسے کسی بنی جاندار شے میں ہوتا ہے۔ اور اپنی تعمیر کے طریقے کی وجہ سے ہڈیاں غیرمعمولی طور پر مضبوط اور ہلکی شے ہیں۔
ڈاکٹر بین اولیور کے مطابق، “ہڈیاں ری انفورسڈ کنکریٹ سے زیادہ مضبوط ہیں اور اتنی ہلکی ہیں کہ ہم دوڑ سکتے ہیں۔ ہمارے پورے ڈھانچے کا وزن بیس پاونڈ سے زیادہ نہیں جبکہ یہ ایک ٹن کی کمپریشن سہار سکتا ہے۔ اور یہ واحد ٹشو ہے جہاں پر زخم کا نشان نہیں بنتا۔ اگر آپ کی ٹانگ کا فریکچر ہو کر ٹھیک طرح سے جڑ جائے تو یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹوٹی کہاں سے تھی۔ اس چیز کا عملی فائدہ تو نہیں لیکن ہڈیاں ایسی ہی ہیں۔
اور اس سے زبردست بات یہ کہ جہاں پر اسے خالی جگہ ملے، یہ وہاں پر اگ جاتی ہیں۔ اگر ٹانگ سے چھ انچ تک ہڈی نکال لی جائے تو یہ واپس اگ کر اسے بھر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جسم کی کوئی اور شے ایسا نہیں کرتی”۔
ہڈی غیرمعمولی اور غیرمعمولی طور پر dynamic ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply