مجھے یاد ہے..(قسط نمبر 9)…حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
قسط نمبر 9
میرے شاعر دوست بابر شوکت مجھے نئی انارکلی کے آخری حصے میں واقع پیسہ اخبار والی گلی میں لائے ہیں جہاں چوراہے کے ایک کونے میں لباس کے بٹنوں کی چھوٹی سی دکان ہے۔ کاؤنٹر پر کھڑے صاحب شاعر حافظ امرتسری ہیں جو گاہکوں کی فرمائش پر ان کے مطلوبہ ڈیزائن کے بٹن تیار کررہے ہیں۔ وہ اپنے کام میں مشغول رہتے ہوئے مسکراکر ہمیں خوش آمدید کہتے ہیں اور سامنے چائے والے کو چائے بھجوانے کا کہتے ہیں۔ رسمی حال احوال پوچھتے ہیں۔ اتنے میں چائے کی ایک چھوٹی سے چینک تین عدد کپ کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔لڑکا چائے رکھ کر جاتا ہے تو حافظ صاحب مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں:
’’کیا تم جانتے ہو تمھارے والد یزدانی صاحب میرے کیا لگتے ہیں؟‘‘
میں سوچے بغیر کہتا ہوں: ’’دوست۔۔۔اور کیا؟‘‘
چائے  کپ میں انڈیلتے ہوئے وہ باقاعدہ ہنس دیتے ہیں۔
’’ یزدانی صاحب میرے دادا استاد ہیں۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’دادا استاد۔۔۔؟‘‘ میں اور بابر صاحب دونوں ان کی بات پر واقعی حیران ہیں۔ والد صاحب کے شاگرد تو ہیں مگر ان کے کسی شاگرد کا شاگرد میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ ہماری حیرت سے چند لمحے لطف اندوز ہونے کے بعد کہتے ہیں:
’’ میں فدا یزدانی کا شاگرد ہوں جو یزدانی صاحب سے ملنے سے پہلے فدا شاہجہان پوری ہوتے تھے۔ انڈیا میں اور پھر پاکستان آکر بھی فلموں میں گیت لکھا کرتے تھے۔ میری ملاقات اس نوجوان سے ہوئی تو میں حیران رہ گیا۔اِتنی سی عمر اور علمِ عروض میں ایسی مہارت۔۔ کیا بتاؤں۔ تو فدا سے میں نے عروض سیکھا۔ وہ بہت اچھے اور پکے شاعر تھے۔ انھوں نے ہی مجھے بتایا تھا کہ یہ علم و ہنر انھوں نے اپنے استاد یزدانی جالندھری صاحب سے سیکھا ہے اور ان سے محبت و عقیدت کے سبب انھوں نے اپنے نام کے ساتھ یزدانی کا اضافہ بھی کرلیا ہے۔ تو میں فدا کو اپنااستاد مانتا ہوں۔ اب بتاؤ یزدانی صاحب میرے دادا استاد ہوئے کہ نہیں؟‘‘
’’ہاں، بالکل ہوئے۔‘‘ بابر صاحب نے جواب دیتے ہیں اور میں نے خاموشی سے اپنی گردن کو اثبات میں ہِلا رہا ہوں۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ والدہ صاحبہ کسی فدا کی بات تو کیا کرتی ہیں والد صاحب سے کہ اچھا لڑکا تھا۔ گھر بھی آیا کرتا تھااور ان دونوں کو اپنے والدین کی طرح سمجھتا تھا۔ اس کے اپنے والدین کے بارے میں کچھ ٹھیک سے معلوم نہیں۔ شاید شاہجہان پور رہ گئے یا تقسیمِ برصغیر کے ہنگاموں میں کہیں کھوگئے۔ فدا خود بھی جوانی ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ والد صاحب سے ان کے بارے میں پوچھتا ہوں تو  وہ بہت غم زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ میں مزید جاننے پر اصرار نہیں کرتا۔

*****

والد صاحب کے چھوٹے بھائی اور میرے چچا خوب صورت شاعرسیّد عبدالرحمن رضوانی جو اچانک امریکا میں رحلت کرگئے تھے  ان کی یاد میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے ہال میں مشاعرہ ہورہا ہے۔قتیل شفائی، عبدالرشید تبسم،طفیل ہوشیارپوری، ناصر زیدی، اکبر کاظمی اور بہت سے شعرا موجود ہیں۔ والد صاحب اپنی غزل کا مطلع پیش کرتے ہیں تو پہلی بار میں ان کی آواز میں غم انگیز لرزش محسوس کرتا ہوں:
آپ کی یاد یہاں بھی تو چلی آئی ہے
لوگ کہتے ہیں بیابانوں میں تنہائی ہے
حالانکہ کہ مشکلات کی حدت سے بھرپور ایسی زندگی کرتے ہوئے بھی کہ جب   انسان کہہ اٹھے:
حالات کی حدت سے بدن ان کے جلے ہیں
دوچار قدم جو بھی مِرے ساتھ چلے ہیں
ایسے آشوب اور کربِ مسلسل کے باوجود صبر و ضبط کا ہمیشہ یہ عالم کہ :
ٹوٹا نہیں اشکوں سے ابھی ضبط کا پشتہ
پانی ابھی خطرے کے نشاں تک نہیں آیا


٭٭٭

طارق کامران اخبار ’’آفتاب‘‘ کے لیے انٹرویو کرنے آئے ہوئے ہیں۔والد صاحب سے کہہ رہے ہیں:’ ’آپ نے بھرپورادبی اورتخلیقی زندگی گزاری۔کچھ عرصہ بمبئی ، کراچی اور لاہور کی فلمی صنعت سے بھی وابستہ رہے ۔ فلمی جرائد کی ادارت بھی کی اور اُس دور کے محنتی فن کاروں کا ذکر  اور پھر ادبی، سماجی اور سیاسی جرائد اور اخبارات کے ادوارِ ملازمت۔۔۔تاہم ان کا بنیادی حوالہ تخلیقِ ادب ہی ٹھہرا۔ادب میں آپ کی خدمات کی فہرست میں افسانے، تراجم اور مضامین سبھی کچھ شامل رہا مگر شاعری بہرحال سرِ فہرست درج رہی۔ نوجوانی میں رباعی سے شغف رہا اور ’’ساغرِ انقلاب‘‘ کے نام سے مجموعہ بھی منظر ِ عام پر آیا۔پھر غزل سے دل چسپی ہوئی جس کی ایک جھلک ’’توراتِ دل‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔اور اب  نعتِ نبیﷺ  آپ کی تخلیقی اور فکری سرگرمیوں کا مرکز ہے اور اس کی مثال نعتیہ مثنوی ’’صبحِ سعادت‘‘ کے طور پربھی روشن ہے اور نعتیہ مجموعہ ’’توصیف‘‘ کی صورت میں بھی۔ یہ سب کیسے ہوا؟
کہتے ہیں: ’’
’’طارق صاحب، یہ سب زندگی کے سفر کے مراحل ہیں۔پڑاؤ ہیں۔منزل نہیں۔میری فکری منزل ’نعت‘ ہے۔ایسا مجھے لگتا ہے۔ ثنائے نبیؐ کی مسلسل توفیق ارزانی شاید میری اس دعا کی بارگاہِ ایزدی میں قبولیت کی نشانی ہے۔
اسلوبِ حمد،نعت ِ پیمبر ؐ کافن ملے
درویش ِ بے نوا کو بھی اذن ِ سخن ملے
یہ نعت ریڈیو پاکستان کے مشاعرہ کے لیے کہی تھی۔آقائے نامدارؐ کی مدح و ثنا کے دل پذیر مرحلے سے گزرتے ہوئے مطالعۂ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث اور آثارِ صحابہ کی مستند کتب اور عربی، فارسی اور اردونعت و قصائدکے مجموعے اپنے قریب رکھتا ہوں‘‘۔
طارق کہتے ہیں: ’’ناقدین لکھتے ہیں کہ نعت میں جہاں آپ حضورخاتم النبیینؐ کی سیرتِ مبارکہ کے مختلف پہلووں کا ذکرِ خیر کرتے ہیں وہاں اپنے ممدوحِ مکرمؐ کے اوصاف و مراتب سے بھی اپنے اشعار کو معطر بناتے ہیں۔ آپ کی نعتوں کا ایک وصف روضۂ رسول پر حاضری کی خوب صورت خواہش بھی ہے جو آپ کے گوشۂ دل سے بے اختیار دامن ِقرطاس تک آجاتی ہے۔ آپ ایسے اشعارکیسے کہہ لیتے ہیں:
یوں بیٹھ نہ جی چھوڑ کے اے عزمِ زیارت
وہ سامنے دربار ہے،  دوچار قدم اور

والد صاحب عجز سے کہتے ہیں: ’’بس اللہ کا کرم ہے۔ ثنائے خواجۂ گیہاں توفیق ِ الہٰی کے بغیر تو ممکن نہیں ۔ تاہم جہاں تک تاثیرِ فن اور تحصیل ِ علم کی بات ہے تو میں اپنے مہربان اساتذہ کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔یوں تو میں میر،غالب، مصحفی،درد،امیر مینائی،حالی، اقبال اور مولانا ظفر علی خان کی شاعری کو شوق سے پڑھتارہا ہوں مگر شعر گوئی میں اپنے ان اساتذہ کا بھی احسان مند ہوں جن سے میں نے براہِ راست استفادہ کیا۔ سکول میں میرے استاداحمد سعید ٹونکی صاحب تھے جنہوں نے ابتداً میری حوصلہ افزائی کی اور پھر رشتے میں میرے تایا سیدفرزند علی شاہ مرشدؔجو بہاو ل پور میں تدریس کے شعبہ سے منسلک تھے بالواسطہ ادبی رہنمائی کا وسیلہ بنے۔مولانا تاجور نجیب آبادی اور مولانا افسر امروہوی صاحبان کوبھی اپنے مہربان اساتذہ میں شمار کرتا ہوں۔اس حوالہ سے حفیظ جالندھری صاحب کا ذکر بھی کروں گاجن سے زمانۂ طالب علمی میں میری پہلی ملاقات ساہی وال ( منٹگمری) میں ہوئی تھی جو بعد ازاں ایک احترام بھری دوستی کا روپ اختیار کرگئی ۔انھی کے ساتھ برسوں بعد کراچی کا سفر بھی کیا تھا ایک فلمی کہانی کار اور مکالمہ نگار کے طور پر۔ حفیظ جالندھری اس فلم کے گیت لکھنے پر مامورتھے۔ مجھے حفیظ صاحب کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔‘‘
طارق پوچھتے ہیں: ’’ آپ کے ادبی دوست؟‘‘
والد صاحب کہتے ہیں:’’ یوں تو بہت سے ہیں مگر اس وقت سی۔ ایل۔ کاوش سرحدی، حفیظ قندھاری، عبدالحمید عدم،ساحر لدھیانوی،احسان دانش، خاطر غزنوی،خوشتر گرامی ، ظہیر کاشمیری،سیف الدین سیف ، مجید امجد،سجاد ظہیر۔شیر افضل جعفری، اورقتیل شفائی کے نام ذہن میں آرہے ہیں۔


٭٭٭
جناب راز کاشمیری  والد صاحب کی نعتیہ مثنوی ’’ صبحِ سعادت‘‘ کا مسودہ لینے تشریف لائے ہیں تاکہ نئی ہجری صدی کی تقریبات کے موقع پر بر وقت اشاعت پزیر ہوسکے۔والد صاحب فرماتے ہیں: ’’ راز صاحب، وہ مسودہ تومشورہ کے لیے محترم علیم ناصری صاحب کو بھجوایا ہوا ہے۔یہ دینی ادب کا معاملہ ہے اور ان کی علمی رائے موصول ہونے کے بعدہی مسودہ کو حتمی شکل دے کر اشاعت کے لیے آپ کے سپرد کروں گا‘‘۔
پھر مجھے کہتے ہیں: ’’ ذرا خالد علیم سے دریافت کریں کہ علیم صاحب کب تک دیکھ لیں گے مثنوی؟‘‘۔
’’جی، میں بات کرتا ہوں۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔


٭٭٭

والد صاحب کی نعتیہ مثنوی ’’صبحِ سعادت‘‘ شائع ہوگئی ہے۔ ایک سو پانچ اشعار پر اس مشتمل یہ مثنوی سیرت مشن پاکستان نے شائع کی ہے۔ سرورق پر نئی ہجری صدی کے آغاز کی مناسبت سے ایک سورج ابھرتا دکھایا گیا ہے۔ پس ورق پر احمد ندیم قاسمی صاحب کی رائے درج ہے جس میں لکھا ہے:
یزدانی جالندھری نے اپنی اس نعتیہ نظم میں اپنی قادرالکلامی سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔میلادالنبی ﷺ کے موضوع پر یزدانی کی اس نظم کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے نہ صرف رسولِ خدا ﷺ کی تشریف آوری پر بلند یاپہ اشعار کہے ہیں بلکہ آپ ﷺ کے وجودِ گرامی کو ایک ایسے تاریخی تناظر میں پیش کیا ہے کہ حقیقت مزید درخشندہ ہوجاتی ہے۔‘‘

اندرونی صفحات میں مثنوی سے پہلےصفحات میں پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کی مختصررائے بھی شامل ہے   جس میں وہ کہتے ہیں:

’’ یزدانی جالندھری نے مثنوی صبحِ سعادت میں حمد وثنا،ظہورِ قدسی سے قبل کی دگرگونیِ احوال۔اس کے تاریخی تناظر میں آنحضورﷺ کی ولادت کی ہمہ گیر فیض رسانی اور درود و سلام کی لطیف کیف آوری کے مراحل کو یوں طے کیا ہے کہ مذکورہ فنّی دستاویز اپنے مجموعی تاثر کے حوالے سے مثنویاتی تدریج،جذباتی التہاب،فکری عُمق،حُسن کارانہ رچاؤ اور روحانی وارفتگی کی آئینہ دار بن گئی ہے۔‘‘

مثنوی اور شاعر کا تعارف حافظ لدھیانوی صاحب نے تفصیل سے لکھا ہے جس میں وہ یزدانی صاحب سے اپنی دیرینہ رفاقت، ان کی صحافتی اور ادبی خدمات اور پھر نعتِ رسولﷺ کی جانب سفر کی داستان بہت دلآویز انداز میں تحریر کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مثنوی کی اشاعت کی خبر کے ساتھ ہی والد صاحب کو مبارک باد کے تہنیتی پیغامات موصول ہونے لگے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply