کمدار دبے پاؤں چلتا ہوا آیا جھک کر میرے کان میں سرگوشی کی کہ سائیں تھانیدار آیا ہے. میرے منہ کا مزہ کڑوا ہو گیا.
اس وقت؟
تھانیدار ہاتھ باندھے اوطاق میں داخل ہوا اور میرے گھٹنوں کو عقیدت سے چھو کر ہاتھ باندھے باندھے کھڑا ہو گیا.
میں نے ابرؤ کے اشارے سے معاملہ پوچھا.
سائیں بات تو چھوٹی سی ہے پر آپ کے علم میں رہے کہ آپ کے کمی کمین سر پر آ رہے ہیں.
آپ کا کمی باسو باگڑی آج تھانے نالش لے کر آیا تھا کہ چھوٹے سائیں نے بازار میں اس کی بیٹی کی اوڑھنی پکڑی تھی.
اور تُو یہاں مجھے یہاں یہ خبر دینے آیا ہے حرام خور؟
میں حقے کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دھاڑا.
نہ سنائیں نہ ! میری بھلا یہ اوقات!!
اسے تو میں نے نیلا جامنی کر کے لاک آپ میں بند کر دیا. آپ کے کان میں بھی بات ڈالنی ضروری تھی سائیں.
کمدار۔۔میں گرجا
حاضر سائیں ، وہ ہاتھ جوڑے جھکا جھکا آگے آیا.
سب سے وفادار جناور کون ہے؟
کتا ہے سائیں!!
بس اس کمی کو وفاداری سکھا، اس کو اوطاق کا کتا بنا.
جو حکم سائیں.
کمدار ہاتھ جوڑے الٹے پیروں تھانیدار کے ساتھ اوطاق سے باہر نکل گیا.
پندرہ دن پورے پندرہ دن انہوں نے مجھے یعنی باسو باگڑی کو اوطاق کا کتا بنا کر رکھا.
گلے میں پٹہ ڈال کر زنجیر ڈال دی اور صبح شام گاؤں میں چاروں ہاتھ پاؤں کے بل گھماتے.
کتے کے برتن میں کھانا ملتا اور اس کھانے کو کتے ہی کی طرح لبڑتے ہوئے کھانا پڑتا. جب تک مجھے پکی طرح سے ” میں کتا ہوں ”
کا سبق یاد نہیں ہو گیا ہنٹر اور جوتے سے میری تواضع جاری رہی.
پندرہویں دن مجھے خود یقین آ گیا کہ میں کتا ہوں.
آدھی رات کے کچھ ادھر کمدار نے مجھے سائیں کے آگے حاضر کیا، سائیں کمرے میں اکیلا شراب کے نشے میں دھت تھا. میں سائیں کے پیروں پر لوٹ لوٹ گیا. سائیں نے میری پیٹھ تھپتھپائی اور کہا چل میرے کتے اب دو پیروں پر چل کر اپنے جھونپڑی جا اور اپنی سیتا رانی کو لیکر آ.
چل چل جلدی کر میرا نشہ خراب نہ کر.
باسو جھکے جھکے اپنے پاؤں پر اسپرنگ کی طرح اچھلا اور سائیں کے نرخرے میں اپنے دانت گڑا دیے
آخر کتا جو ٹھہرا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں