یہ ایلچی گری مجھ سے نہیں ہوتی، مولا
یہ ایلچی گری لفظوں کی جلتی مشعل سی
میں کتنے برسوں سے اس کو اٹھائے پھرتا ہوں
شروع ِ عمر سے اب تک بلند و بالا رکھے
میں تھک گیا ہوں اس بار ِ گراں کو ڈھوتے ہوئے
یہ بوجھ اب نہیں مجھ سے اٹھایا جائے گا
کہاں یہ شعر و سخن اور کہاں مقدمۃالجیش
کہاں تکلّم و گفتار، ، لحن ِ داؤدی
کہاں یہ جنگ و جدل، حرب و ضرب، بمباری
کہاں صنائع ، بدائع، امیجری، تمثال
کہاں یہ بم کے دھماکے، کہاں سپاہ گری
کہاں میں کونے میں بیٹھا ہوا قلم مزدور
کہاں دماغ دھُلے* یہ “چراغ پا بمبار ”
اگر تھی شاعری ہم وضعِ لفظِ خیرِ بشر
اگر تھی شاعری بر حق پیمبری تو مجھے
قبول تھی یہ منادی، وقائع برداری
مگر یہ بار ِ گراں مجھ سے اب نہیں اٹھتا
یہ ایلچی گری ہوتی نہیں ہے اب، مولا
……………………………..
brain-washed*
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں