بغاوت سے پچھتاوے تک(حصّہ اوّل)۔۔افتخار بلوچ

“یار کم از کم اتنا تو سوچو کہ اگر کنول نے موبائل دیکھ لیا تو تمہارے گھر قیامت آ جائے گی اور میں تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتی”
سیما نے عاشر کا ہاتھ دباتے ہوئے بڑی اضطراری انداز  سے کہا۔۔۔
“کوئی نہیں دیکھے گا! فون کو پاس ورڈ لگا ہوا ہے۔ تم کیوں ڈر رہی ہو کچھ ویڈیوز ہی تو ہیں” عاشر نے نرم لہجے میں سیما کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔
شام کا وقت تھا۔ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ شہر کے خوبصورت علاقے میں واقع یہ ریستوران اٹالین طرز پر سجایا گیا تھا۔ یہ جگہ اتنی جاذب نظر تھی کہ اٹلی سے آیا ہوا اٹالین بھی احساس کمتری کا شکار ہو سکتا تھا۔
عاشر ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا جس نے حسن بھی پایا تھا اور طبیعت کی کشش بھی اسے عطا ہوئی تھی۔ عاشر کا نکاح کنول کے ساتھ دو سال پہلے ہوا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھریلو اختلافات کی بنیاد پر عاشر نے والدین کا ساتھ چھوڑ کر الگ جگہ مکان لیا اور رہنے لگا۔ اس کے دن اچھے گزرنے لگے۔ کمپنی سے ملنے والی تنخواہ بھی معقول تھی اور زندگی سے کچھ خاص شکایت بھی نہیں تھی جو کہ آج کل کے نوجوانوں میں اکثر پائی جاتی ہے۔ والدین کے ساتھ باہمی اختلافات میں بھی کنول نے بڑی دیدہ دلیری سے عاشر کا ساتھ نبھایا تھا اور اب تک عاشر ہی کنول کی زندگی کا وہ مرکز تھا جس کے اردگرد کنول کا مدار تھا۔
چھ ماہ پہلے عاشر کی کمپنی میں سیما کی ملازمت ہوئی اور اتفاقاً دونوں کا ڈیپارٹمنٹ بھی ایک تھا۔ سیما تیکھے نقوش والی وہ لڑکی تھی جس میں اکیسویں صدی کی جدت اپنے تمام حسن اور ولولے سے موجزن تھی۔ رفتہ رفتہ سیما اور عاشر کی دوستی ہوئی۔ سیما کو عاشر کا شادی شدہ ہونا کبھی رکاوٹ نہیں لگا اور متعدد بار اس نے عاشر کو شادی کے لیے کہا۔ مگر عاشر ہر بار زبانی کلامی عہد و اقرار تک جاتا، مجبوریوں کا ذکر کرتا اور شادی کی پیشکش کو ٹال دیا کرتا۔ دراصل وہ کنول کی تکلیف کا سوچ کر ڈر جاتا مگر اس کے دل میں سیما کے لیے جو الفت موجود تھی اسے سیما کے اور قریب کرتی گئی۔ رفتہ رفتہ عاشر کے لیے دلچسپی کا مرکز کنول سے ہٹ کر سیما کی ذات میں منتقل ہو گیا۔ کنول بھی پچھلے کچھ عرصے سے عاشر میں پیدا ہونے والی اجنبی سی بے اعتنائی محسوس کر رہی تھی۔ عاشر دیر سے گھر آتا اور زیادہ وقت فون میں مصروف رہتا۔ کنول نے کئی بار عاشر سے گلہ بھی کیا مگر وہ دفتری مصروفیات کا ذکر کر کے بات ٹال دیا کرتا تھا۔ کنول نے کئی مرتبہ عاشر کا فون بھی دیکھنے کی کوشش کی مگر پاس ورڈ توڑنے کا فن نہیں تھا۔ مزید یہ کہ عاشر ہر دوسرے روز پاس ورڈ بدل دیا کرتا تھا۔
بہت جلد ہی عاشر اور سیما کی دوستی ناجائز جنسی تعلقات تک پہنچ گئی۔ عاشر کو موقع کی تلاش رہتی اور وہ موقع پاتے ہی سیما کے گھر پہنچ جاتا۔ جب کنول قربت سے محروم ہوئی تو اس کے دل میں مشکوک ناگ ڈسنے لگے اور اس کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ کئی مرتبہ کنول اور عاشر کا جھگڑا یہاں تک پہنچا کہ عاشر نے بڑی بے دردی سے کنول کو مارا۔ کنول نے رو رو کر گو خود کو نڈھال کر لیا مگر عاشر میں تبدیلی واقع نہ ہوئی۔
ایک دن خلاف معمول عاشر جلدی گھر آیا اور اپنی کتابیں چھاننے لگا۔ اتفاقاً کنول پہلو میں کھڑی ہوئی تھی کہ عاشر نے فون کھولا اور عین اسی وقت پاس ورڈ کنول کے ذہن میں تصویر بن گیا۔ کنول نے سوچ لیا کہ جو بھی ہے عاشر کے فون میں ہے۔ وہ موقع کا انتظار کرنے لگی۔
عاشر کچھ کاغذات اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس دن وہ واقعتاً دفتری دباؤ کی وجہ سے اتنا چڑچڑا ہو چکا تھا کہ اسے اندازہ بھی نہ ہو سکا کہ کنول نے پاس ورڈ دیکھ لیا ہے۔ شام کو ریستوران میں مغرب کے بعد تک سیما کے ساتھ بیٹھ کر عاشر جب گھر آیا تو تھوڑی دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد سو گیا۔ کنول اسی موقع کی تلاش میں تھی!
عاشر کا فون بیڈ کے ساتھ موجود سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا اور کمرے میں اندھیرا تھا۔ کنول نے دبے پاؤں فون اٹھایا اور کمرے سے نکل گئی۔ تجسس اور غم کی وجہ سے اس کی آنکھیں ذرا اور کھل گئیں وہ آج یہ معمہ حل کرنے کا تہیہ کر چکی تھی۔
پاس ورڈ کے تصور کو اچھے سے یاد کرتے ہوئے اس نے سکرین پر نظر آنے والے ہندسے دبانا شروع کیے تو موبائل فون کھل گیا۔ کنول کا تجسس اور بھی بڑھ گیا۔ اس نے جلدی سے گیلری کھولی تو آگے عاشر اور سیما کی انتہائی قابل اعتراض تصاویر نے اس کی دنیا ہی گرا ڈالی! اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونا شروع ہوئے اور فون ہاتھوں سے پھسل کر قالین پر گر پڑا۔ اب کنول زاروقطار رو رہی تھی۔ سسکیوں کی آواز بھی اس قدر بلند نہ تھی کہ عاشر سن سکتا وہ بدستور سویا رہا۔ روتے روتے جب کنول کے حلق میں سوئیاں چبھنے لگیں تو اس نے موبائل اٹھایا، بے دلی سے کمرے میں روشنی کی۔ جب کنول کی نظر عاشر کے چہرے پر پڑی تو وہ اتنے زور سے چیخی کہ عاشر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
“یہ کیا ہے! کیا ہے یہ” کنول نے چیختے ہوئے کہا۔۔
جب عاشر کی آنکھوں کے سامنے سے منظر صاف ہوا تو اس کا ذہن رک گیا۔ اس نے کنول کو کندھوں سے پکڑنے کی کوشش کی مگر کنول دور ہٹ گئی۔۔
عاشر نے نرم لفظوں میں معافی مانگنا شروع کر دی مگر کنول کے لفظ آنسو بن چکے تھے!
جب عاشر سے کچھ نہ بن پڑا تو اس نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔ کنول بدستور روتی رہی۔ رات گہری ہو چکی تھی اور کنول سوچ رہی تھی کہ وہ کسے بتائے۔ وہ عاشر کے گھر والوں کو بتا نہیں سکتی تھی اور اس کے اپنے گھر والے سینکڑوں کلومیٹر دور تھے۔ کنول کے لیے رات صدی کے برابر ہوگئی۔ جب فجر کی اذانیں شروع ہوئیں تو اسے مہینوں بعد خدا یاد آیا!
سورج طلوع ہونے کے بعد عاشر گھر لوٹا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ کنول کی نگاہ جیسے ہی عاشر پر پڑی وہ حواس باختگی کے عالم میں عاشر پر حملے کے لیے دوڑی مگر عاشر نے اسے غصے سے ایک طرف دھکیلا، کپڑے تبدیل کیے اور دفتر چلا گیا۔ اس کو اپنے گناہ کا احساس ہو رہا تھا اور وہ کنول کی حالت کی وجہ سے بھی پریشان تھا۔ دفتر میں اس کی نگاہیں سیما کی نگاہوں سے ملیں مگر آج سیما کو ایک نظر دیکھنا بھی عاشر کے لیے دقت طلب کام تھا۔ سیما نے اس بوجھل پن کی وجہ پوچھی مگر عاشر خاموش رہا۔
سوجی ہوئی آنکھوں اور بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ کنول رات گئے عاشر کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا۔ غم کی اس حالت میں ڈوبی ہوئی یہ عورت اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی اس وقت کہ کئی عاشر اس کی ان بکھری ہوئی زلفوں کے اسیر ہو سکتے تھے مگر وقت کی بڑی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ وہ غم کو کئی شکلوں میں بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ جب انتظار کی نظر منجمد ہو گئی تو کنول کا غم غصے میں بدلنے لگا۔ وہ سوچنے لگی کہ اسے پولیس کو بتا دینا چاہیے مگر یہاں بدنامی کا ڈر تھا۔ عورت مرد کو بدنام نہیں کرتی!
اس نے اپنی ماں سے رابطہ کیا۔ ماں نے کچھ دیر تسلیاں دیں اور کچھ دن بعد آنے کا وعدہ کیا۔ یہی دن کنول کے لیے کاٹنا مشکل تھے۔ وہ کبھی سوچتی کہ سامنے پڑی ہوئی گولیاں چبانا شروع کردے کبھی سوچتی اپنی رگ کاٹ لے مگر اتنی ہمت اسے عطا نہیں ہوئی تھی۔ عورت کی فطری نزاکتیں خود کو ختم کرنے کے شدید خلاف تھیں۔ حسن غم کی لہر کے باوجود بھی خود کو زندہ رکھنے کے حق میں تھا!
رات رینگ رینگ کر آدھی ہوچکی تھی جب عاشر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا بوجھل پن احساس گناہ کے ساتھ نمایاں تھا۔ وہ آ کر کنول کے قریب بیٹھ گیا اور کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ کنول اس پر جھپٹ پڑی۔ عاشر کو دور ہٹنا پڑا۔۔۔۔
“مجھے معاف کردو!” عاشر نے التجا کرتے ہوئے کہا۔۔۔
“اپنی اوقات دیکھو معافی کے قابل بھی نہیں!” کنول چیختے ہوئے دوبارہ جھپٹ پڑی۔ غصہ اس کے حلق سے باہر آنے کو تھا۔
کچھ دیر تک تو عاشر کنول کو بات کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر جب کچھ نہ بن پڑا تو دوبارہ گھر سے باہر نکل گیا۔ کنول بھی رونے لگی۔ اسے رونے میں دقت محسوس ہو رہی تھی اور اپنی شادی کا دن بہت برا لگ رہا تھا۔ وہ خود کو کائنات کی بدقسمت ترین عورت محسوس کر رہی تھی۔ یہ گھاؤ بہت گہرا تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد کنول نے فون پر آصف کا نمبر ملایا۔۔
“عاشر! بھابھی کی کال آ رہی ہے یار” آصف نے کہا۔۔۔۔
“سن لے یار! پلیز میرا نہیں بتانا کہ میں یہاں ہوں” عاشر نے افسردگی سے کہا۔۔۔
کنول نے کال کے دوران آصف کو عاشر کی غیر موجودگی کا بتایا اور اگلے دن گھر آنے کے لیے کہا۔
آصف عاشر کا بہت پرانا دوست تھا اور اس کے اہل و عیال سے واقف تھا۔ کنول بھی کبھی کبھار آصف سے رابطہ کر لیتی تھی جب عاشر کو گھر آنے میں دیر ہو جایا کرتی۔ آصف کا عاشر کے گھر آنا بھی معمولی بات تھی۔ ان دونوں کے درمیان اعتبار کی ایک مضبوط بنیاد موجود تھی۔
اگلے روز عاشر تو آصف کے مکان سے ہی کمپنی چلا گیا اور آصف تھوڑا دن جوان ہونے پر کنول سے ملنے کے لیے آ گیا۔
کنول نے جب آصف کو عاشر کی غیر موجودگی کا بتایا تو آصف سب جانتے ہوئے بھی انجان بن گیا اور کنول بھی شدت کرب سے یہ اندازہ نہ لگا سکی کہ عاشر کے پاس جانے کے لیے سوائے آصف کے گھر کے اور کوئی جگہ نہیں۔ کنول نے آصف کو سب کچھ بتانا شروع کر دیا۔ اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے آنسوؤں سے شفاف ہونے لگے اور آواز ٹوٹنے کے قریب ہونے لگی۔ آصف کے لیے یہ منظر پرتجسس بھی تھا اور قابل ترس بھی وہ پہلی دفعہ کنول کو اس اذیت میں دیکھ رہا تھا۔ بولتے بولتے کنول کا لہجہ بکھر گیا اور وہ زاروقطار رونے لگی۔ آصف نے تسلیاں دیں مگر بے سود اور آخرکار یہ رونا سسکی بن گیا۔ شدت جذبات میں آصف نے کنول کے سر پر ہاتھ رکھ کر عاشر کو سبق سکھانے کا وعدہ کیا اور تھوڑی دیر بعد گھر سے باہر چلا گیا۔
آصف کے جانے کے بعد کنول ایک مرتبہ پھر تنہائی اور اداسی کے گرداب میں ڈوبنے لگی۔ اس کے اندر بغاوت پیدا ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ عاشر کے گناہ اس کے زخم کیوں بن گئے ہیں؟ اس لمحے میں محبت کا وہ تسلسل جو دو انسانوں میں برقرار رہتا ہے کنول کے لیے بے معنی ہو چکا تھا۔ یہ بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ وہ عاشر سے محبت کی بنیاد پر یہ سب محسوس کر رہی ہے۔ کنول کو رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ اگر عاشر کی جگہ اس نے یہ گناہ کیا ہوتا تو وہ اب تک پچھتاوے سے مر چکی ہوتی۔ مرد بہت بے رحم ہے! وہ گناہ بھی کرتا ہے اور زندہ بھی رہتا ہے! یہ نسوانی نزاکت بھی قید ہے۔ عورت ظالم بھی نہیں اور غیر محفوظ بھی ہے! کنول سوچ رہی تھی کہ عاشر کا تزکیہ آوارگی ہے، میں کہاں جاؤں؟ اس گھر کے برتن توڑوں؟ جس گھر کو میں نے اتنے ارمانوں سے سجایا تھا۔ بہت جلد ہی یہ بات کنول کے دل میں گھر کر گئی کہ اگر عاشر آزاد ہے تو میں بھی آزاد ہوں! میں بھی اپنے جذبات کو اپنے دل کی مرضی پر موڑ دوں گی اور اس کا دل اس لمحے شدید بغاوت میں غرق ہو چکا تھا۔
اس کے اندر ایک آواز آزادی اور بغاوت کی شدید لہر کے باوجود بھی اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی مگر یہ آواز اس قدر موہوم تھی کہ کنول کا ذہن ادراک نہ کر سکا۔
آصف کنول کے پاس سے اٹھ کر آنے کے بعد ادھر ادھر پھرتا رہا۔ سارا دن اسے کنول کا چہرہ یاد آتا رہا۔ اسے کنول کی آنکھوں میں محرومی کی وہ سرخیاں ملی تھیں کہ جنہوں نے آصف کی سوچوں کا رخ اپنی طرف موڑ لیا تھا۔ اسے کنول پر ترس آرہا تھا اور اس ترس میں ہلکی سی لرزش انسیت کی شامل ہو رہی تھی۔
اس کے برعکس عاشر کا معمول بھی معمول نہیں رہا تھا وہ غیر معقول حد تک لاپرواہ ہو چکا تھا۔ وہ رات گئے گھر آتا اور اگر کچھ معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتا تو کنول اس کا چہرہ نوچنے کے درپے ہو جاتی۔ وہ دن کو دفتر رہنے لگا اور رات کا اکثر حصہ آصف کے مکان پر گزارنے لگا۔ دن یونہی گزرتے گئے اور آصف کا کنول کے پاس آنا جانا بڑھتا گیا۔ آصف سب احوال عاشر کو بتایا کرتا اور عاشر سے مشورے لیا کرتا جبکہ عاشر کا کہنا تھا کہ کنول کو جلد از جلد نارمل کیا جائے۔ آصف کنول کے پاس آتا اس سے باتیں کرتا اور اسے ہنسایا کرتا۔ جس سے کنول کی حالت تو بہتر ہو جاتی مگر اس میں موجود بغاوت مزید شدت پکڑ لیتی۔ دھیرے دھیرے آصف کا آنا کنول کے لیے ایک معمولی بات بن گیا مگر عاشر کا وجود دیکھنے کو بھی کنول کا دل رضامند نہ ہوتا اور جیسے ہی اس کی نظر عاشر پر پڑتی وہ غصے سے بے قابو ہو جایا کرتی اور مجبوراً عاشر کو گھر سے باہر جانا پڑتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply