پٹرول رے پٹرول تیری کونسی کل سیدھی۔۔ چوہدری عامر عباس

وہ جفا بھی کرتا رہا وفا کیساتھ، یعنی زہر بھی دیتا رہا دوا کیساتھ کے مصداق پٹرول کی قیمتیں تو گزشتہ حکومت نے بھی بڑھائیں مگر ایک طریقے سے بڑھائیں کبھی تین روپے کبھی پانچ اور کبھی دس روپے حد بارہ روپے تک وہ بھی ایک بار. ایسا اس وجہ سے کیا گیا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا عوام پر ایک دم بوجھ ڈالنے کے بجائے آہستہ آہستہ یہ بوجھ پڑے. پھر تین ماہ قبل پٹرولیم قیمتیں بجٹ کی منظوری تک کیلئے فکس کر دی گئیں تاکہ عوام پر مزید معاشی بوجھ نہ پڑے. باوجود اس کے کہ عمران خان پٹرولیم مصنوعات پر عوام کو اچھی خاصی سبسڈی دے رہا تھا اسے اسی جرم کی پاداش میں اقتدار سے بےدخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا کہ مہنگائی بہت کر رہا ہے.
پھر اچانک کچھ لوگوں کے پیٹ میں مہنگائی کے مروڑ اٹھنا شروع ہوئے. مہنگائی کا بہانہ بنا کر ریجیم چینج کیلئے عدم اعتماد لائی گئی اور مہنگائی کرنے والے “نااہل مِستری” نکال کر “تجربہ کار اور اہل مستری” ہم پر مسلط کئے گئے. پچھلے ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے اضافہ کی سمری پر دستخط کرتے ہوئے اشک بہانے والے” تجربہ کار اور اہل مِستریوں” کی آج کوئی خبر ہے کہ جب رات دوبارہ انھوں نے تیس روپے فی لیٹر کے حساب سے قیمتیں بڑھائیں تو انھیں کچھ ہوا کہ نہیں؟ سوا ارب روپے کے اشتہارات دے کر زہر خریدنے کے پیسے نہ ہونے کے بدبودار بیانات دینے والوں کو شاید چند سو روپے کا زہر میسر آ گیا ہو.
یہاں جینا محال ہوا پڑا ہے قسم سے. میں کئی دن سے ضبط کر کے بیٹھا ہوں جب لکھنے کا دل کرتا ہے عام پاکستانی کی طرح پہلے قابلِ اعتراض الفاظ دل سے اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور میں پھر چپ کر جاتا ہوں لیکن آج تو یہ دل چاہ رہا ہے کہ کہیں جا کے پھٹ جاؤ. مطلب کیا ہے یہ؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ کن کھوتوں کا یہ ملک ہے اور کون جانور ہیں یہ جو یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور میم بنا رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ لال ہے اور کہہ رہے ہیں کہ اب احتجاج کرکے دکھائیں. کیا بکواس ہے سب؟ سفید پوش آدمی مر رہا ہے. اگر یہ حکمران خدانخواستہ ملک کو بیچنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں تو زرا شان سے ملک کی قیمت تو لگوا لیتے تاکہ دام کچھ اچھے مل جاتے جیسے نائیکہ شہر کے نوابوں سے اپنے کوٹھے پر آئے نئے دانے کی بولی لگواتی ہے. جیسے اس نوآموز طوائف کو کچھ عرصہ آسائشیں میسر آ جاتی ہیں ویسے ہی اس عوام کو بھی کچھ عیاشی میسر آ جاتی بس تھوڑا سا غیرت پر ہی کمپرومائز کرنا تھا. سچ پوچھیں تو انھوں نے اب غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا. اس کے بعد اب تم کیا چاہتے ہو؟ مجھے اب یہ سو فیصد یقین ہو چلا ہے کہ ملک یہاں رہنے والوں کا نہیں ہے بلکہ کسی اور کا ہے.
اب زیادہ سے زیادہ ریلیف کیا ہو گا؟ حالیہ تیس روپے اضافے پر ظل الہی میڈیا پر آ کر ٹسوے بہائیں گے اور کہیں گے مجھے اپنی عوام سے بہت محبت ہے مجھ سے عوام کا درد نہیں دیکھا جاتا لہٰذا پٹرول کی قیمت میں تیس روپے کا اضافہ واپس لے کر صرف پندرہ روپے فی لیٹر اضافہ کیا جا رہا ہے یعنی عوام کو موت دکھا کر انھیں بالآخر کالی کھانسی پر راضی کر لیا جائے گا. عوام تالیاں بجائیں گے اور بادشاہ سلامت کی واہ واہ کے قصیدے پڑھے جائیں گے.
آج مجھے عمران خان پر بھی غصہ آ رہا ہے. کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان ابسولیوٹلی ناٹ کہنے کے بجائے امریکہ کے سامنے لیٹ جاتا. “جھٹ دی بےشرمی تے آٹھ پہر دا سکون” کے مصداق کچھ عرصہ تک تو سکون سے گزرتا. تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک جس نے بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی وہ کامیاب ٹھہرا جبکہ جس نے آگے سے “ابسولیوٹلی ناٹ” کہا اسے صفحہ اقتدار سے ہٹا دیا گیا.

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply