• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غیر مسلم پاکستانی شہری کا کھتارسس/ ایک سوال-ایک المیہ/مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے۔؟۔۔اعظم معراج

غیر مسلم پاکستانی شہری کا کھتارسس/ ایک سوال-ایک المیہ/مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے۔؟۔۔اعظم معراج

غیر مسلم پاکستانی جو کہ 2017 کی افراد شماری کے مطابق تقریباً 78لاکھ ہیں اور 2023ءکے الیکشن تک ان کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہو جائے گی۔جبکہ انکے ووٹوں کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہوجائے گی اور یہ تمام شہری ہزاروں سال سے اس دھرتی کے باسی ہیں۔ کہیں باہر سے نہیں آئے ۔ اس کے باوجود آئین پاکستان کی کئی شقیں ان کے بنیادی انسانی و شہری حقوق سے متصادم ہیں جن سے یہ محب وطن دھرتی کے بچے غیرمسلم پاکستانی شہری ریاستی و حکومتی اداروں کی کمزوریوں کی بدولت صرف نظر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی و ریاستی اشرافیہ نے 75 سال میں اپنے ان سوتیلے اور دھتکارے ہوئے شہریوں کو کوئی ایسا انتخابی نظام نہیں دیا، جس سے یہ مطمئن ہوں گو کہ مختلف ادوار میں ان پر چھ دفعہ تین انتخابی نظاموں(مخلوط،جداگانہ اور مخلوط ومخصوص نشستوں والی دوہری نمائندگی) کے تجربات کئے گئے۔ لیکن سیاسی اشرافیہ اور اقلیتوں کے سیاسی راہنماؤں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے. کہ آج تک غیر مسلم پاکستانی شہری ان نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے آج کل انتخابی اصلاحات کا بڑا چرچا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ہر کونے سے مذہبی اقلیتی شہری دوہرے ووٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان کے2017ءکی افراد شماری کے غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 77,49,988(ستتر لاکھ انچاس ہزار نو سو اٹھاسی) غیر مسلم شہری ہیں۔ جن کے ووٹوں کی تعداد29مارچ2018کے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 36لاکھ تین سو ہے ۔ جن میں ہندو ووٹرز17,77,289 (سترہ لاکھ ستتر ہزار سات ہزار دو سو نواسی) مسیحی ووٹرز16,38,748(سولہ لاکھ اڑتیس ہزار سات سو اڑتالیس )ہیں جبکہ احمدی ، بہائی ،سکھ ، پارسی اوربدھست ووٹرز مجموعی طور پرتقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار ہیں ۔ ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت38نمائندے ایوانوں میں ہیں۔جن میں چار سینیٹر دس ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس ایم پی اے ہیں۔1946 سے 1954تک دو دفعہ بننے والی اسمبلیوں میں بل ترتیب 14 اور 11 ممبران تھے۔ یہ ممبران سلیکشن کے ذریعے ایوانوں میں پہنچے تھے۔ اسمبلیوں میں طریقہ جن میں سے صرف دو مسیحی اور دو ہندو پاکستانیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ یہ جبکہ 1962سے 1964 اور1965سے1969تک بننے والی اسمبلیاں مخلوط طرز انتخاب سے بنیں۔ نتیجتاً مخلوط الیکشن میں کوئی غیر مسلم سیٹ نہ حاصل کرسکا۔7دسمبر1970 ءمیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے پورے پاکستان سے صرف ایک صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی غیر مسلم پاکستانی انتخابات نہ جیت سکا مسیحیوں نے اپنے ادارے قومیائے جانے اور ایوانوں میں نمائندگی نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ 30اگست 1972ءکو راولپنڈی میں حکومت وقت نے جلوس پر گولی چلائی آر۔ ایم۔ جمیس اور نواز مسیح شہید ہوئے۔ جدوجہد جاری رہی۔
21نومبر1975ءکو آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے قومی اسمبلی میں چھ سیٹیں مختص کی گئی۔ جن پر چار مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی پاکستانی ممبران قومی اسمبلی بنے۔ اس ترمیم میں سیٹیں مخصوص ضرور کی گئیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کے قومی ووٹ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی۔

1977 کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ انتخاب اپنایا گیا غیر مسلم پاکستانیوں نے بھی قومی سطح پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مارشل لاءلگا۔1985میں صدارتی حکم نامے سے غیرمسلم پاکستانیوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا قومی اسمبلی کی سیٹیں چھ سے دس کر دی گئی جن میں چار ہندوں، چار مسیحیوں کے لئے اور دو دیگر اقلیتوں کے لئے تھی لیکن اس حکمنامے سے جہاں غیر مسلمان پاکستانیوں کو اپنے نمائندے مذہبی شناخت پر چننے کا حق مل گیا وہی ہزاروں سال سے اس دھرتی پر بستے ان دھرتی واسیوں کو ایک جنبش قلم سے قومی دھارے سے کاٹ کر سیاسی اچھوت بنا دیا گیا۔ اس امتیازی طریقہ انتخاب سے 1985 سے1997ءتک پانچ بار انتخابات ہوئے مذہبی شناخت پر نمائندے دے کر قومی ووٹ چھین لیا گیا۔ لوگ قومی شناخت کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں2002ءکے الیکشن سے پہلے غیر مسلم پاکستانیوں کو واپس قومی دھارے میں واپس لایا گیا جس سے انہیں 849 حلقوں میں دوبارہ ووٹ دینے کا حق مل گیا۔ مذہبی شناخت پر تینوں ایوانوں میں 38نمائندے بھی دستیاب رہے۔لیکن ان 38 نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا اب ان غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی مذہبی شناخت پر38نمائندوں کو صرف پانچ یا چھ پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر سلیکٹ کرتے ہیں جو کہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔ جس سے دوہری نمائندگی ہونے کے باوجود پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے انتخابی نظاموں کے پچھتر سالہ تجربات اور پاکستان کے معاشرتی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ ”کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ جاتے ہیں جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماﺅں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں“ لہٰذاجس طرح 1947ءسے 1970ءتک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ءسے1997ءتک کے تجربے سے سیکھ کر2002ءمیں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کابھی تقاضا ہے۔ اس سے یقیناً ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔اس طریقہ انتحاب میں غیر مسلم پاکستانی شہری ایک ووٹ اپنے قومی،صوبائی،،ضلعی،تحصیل، یا یوسی کے حلقے میں کاسٹ کریں گے۔۔ جبکہ دوسرا ووٹ جو مذہبی شناخت پر ایوانوں نمائندہ چننے کے لئے ہوگا۔ اسکے کے لئے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا،جو 1985 سے 1997 تک 5 بار جداگانہ طریقہ انتحاب کے لئے اپنایا گیا۔ مزید تفصیلات تازہ ترین اعداد و شمار سامنے رکھ کر طے کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی فارمولا یہ ہونا چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی ہو جیسے سندھ میں ہندووں اور پنجاب میں مسیحیوں کی آبادی خاطر خواہ ہے وہاں تو رعایتی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کرلی جائیں لیکن جہاں دیگر وفاقی اکائیوں میں آبادی نمائندگی کیلئے درکار تعداد سے کم ہے وہاں آئین کے دیباچے/ تمہید Preambleکے اس پیراگراف کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو مندرجہ ذیل ہے۔
Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
”ترجمہ:جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے“۔ اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہو گی اوریہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنے گی۔ انتحابی اصلاحات کے اس موسم میں جو بھی قومی سیاسی جماعت چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں سے جو بھی اس مسلے کے حل کے لئے آئین سازی کرے گی, یا اس کے لئے آواز اٹھانے گی ,وہ پاکستان کے ہر انتحابی حلقے میں بستے ان پاکستانی شہر شہریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی ۔میں نے اوپر سوتیلے اور دھتکارے ہوئے کا لفظ  استعمال کیا ہے ۔جسکی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک یہ بھی ہے ۔۔کہ ہر بڑی سیاسی جماعت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اوور سیز پاکستانیوں جنکی تعداد بھی تقریباً پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے برابر ہی ہے، کو ووٹ کا حق دینے کی کھل کر مخالفت نہیں کر پارہی چاہے۔۔ اسے یہ پسند ہو نہ ہو لیکن دیس کے ان بچوں کے لئے کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا۔جبکہ حکومت یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کرکے اور اپوزیشن صرف آواز اُٹھانے کی پہل کرکے صرف یہ کہہ کر ہی، کہ ہم پچھتر سالہ پرانے اس مسلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے 874انتحابی حلقوں میں سے سیکنڑوں حلقوں میں جہاں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے فرق کی تعداد سے زیادہ ہے۔ان حلقوں کی بنیاد پر بڑی کامیابی حاصل کر سکتے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے ۔کہ مذہبی اقلیتوں کے سیاسی، سماجی اور سیاسی رحجان رکھنے والے مذہبی راہنما  اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کو یہ نقطہء سمجھائیں ورنہ انتحابی اصلاحات کے اس موسم میں ہم پر پھر کوئی لولہ لنگڑا انتحابی نظام تھوپ دیا جائے گا ۔۔یہ بات ماننے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جہاں سیاسی اشرافیہ کو ادراک نہیں تھا کہ پاکستان کے معروضی سیاسی،سماجی،معاشرتی حالات کے تناظر میں ہماری سیاسی ضروریات کیا ہیں ؟.وہی ہمارے ہر دور کے سیاسی سماجی،و سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی راہنماؤں نے مکمل عرق ریزی سے کبھی بھی اپنے مطالبات پیش ہی نہیں کئے۔ان پسے ہوئے پاکستانیوں کے لئے آواز اٹھا کر جس طرح سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوسکتاہے ۔اسی طرح انکی شناخت پر ایوانوں میں نمائندگی حاصل کرنے والے 38ممبران میں سے بھی اگر کوئی لگن محنت سلیقے سے اسکے کے لئے آواز اٹھائے تو وہ بھی تاریخ میں امر ہوسکتا بس تھوڑی سی جرات و فہم فراست درکار ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply